شادی ایک مذہبی اور معاشرتی فریضہ تو ہے ہی۔ لیکن اس کا مقصد نسلِ انسانی کا تسلسل، جنسی تسکین اور باہمی محبّت کے ساتھ تمدّن کے ارتقاء کی کوشش ہے۔ یہ مقاصد تبھی حاصل ہو سکتے ہیں جب شادی کا بندھن مضبوط ہو۔ اور زوجین کے درمیان خوش گوار تعلقات ہوں۔
کسی بھی انسان کی زندگی میں رشتوں اور تعلقات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہر شخص کو زندگی گزارنے کے لئے دوسروں کا سہارا چاہئیے ہوتا ہے۔ اور سب سے بڑا سہارا اسے بیوی کی صورت میں ملتا ہے۔ جو اس کی خوشیوں کی ضامن تو ہوتی ہی ہے۔ لیکن دکھ سکھ کا سہارا بھی ہوتی ہے۔
زوجین شادی کا بندھن مضبوط کسے بنا سکتے ہیں۔ اس پر بیرونی عوامل تو اثرانداز ہوتے ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس میں اندرونی عوامل کا بھی ہاتھ ہوتا ہے۔ یہاں ہم ان چند عوامل کا ذکر کر رہے ہیں جو شادی اور زوجین کے درمیان تعلقات کو پائیدار بنانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
احترام:
عزت و احترام خوشگوار ازدواجی تعلقات کا ایک نہایت اہم ستون ہے۔ اور کس بھی رشتے کی پائیداری میں واضح کردار ادا کرتا ہے۔ آپ خوش ہیں، غصے میں ہیں یا پریشان ہیں۔ اگر کسی بھی صورتحال میں آپ اپنے شریک حیات کی عزت کرنا نہیں چھوڑتے تو آپ ایک بہترین جیون ساتھی ہیں۔ احترام نہ صرف معاملات کو بگڑنے سے بچاتا ہے بلکہ آپ کے جیون ساتھی کا آپ پر اعتماد قائم رکھنے میں بھی معاونت کرتا ہے۔
باہمی مشاورت:
شوہر اور بیوی گاڑی کے دو پہئیوں کی مانند ہوتے ہیں۔ ایک پہیہ خراب ہو تو لازمی طور پر گاڑی کا توازن بگڑتا ہے۔ اور اسے چلانا ممکن نہیں رہتا۔ شوہراور بیوی تمام کاموں میں ایک دوسرے کو شریکِ مشورہ رکھیں۔ شوہر ایک داروغہ کی طرح گھر کا نظام چلانے کی کوشش نہ کرے۔ یا یہ امید نہ رکھے کہ افرادِ خانہ اس کے اشاروں پر چلیں۔ اور صرف اسی کی بات سنیں اور مانیں۔ بیوی اس کی زندگی کی ساتھی ہے تو بہتر ہو گا اگر تمام امور میں اس کا مشورہ لیا جائے۔ اور ہر کام باہمی مشاورت سے ہو۔ تا کہ شادی کا بندھن مظبوط ہو سکے۔
محبت اور ایثار:
اگر یہ کہا جائے کہ ازدواجی تعلق کی بنیاد محبت اور ایثار پر استوار ہوتی ہے۔ تو بے جا نہ ہو گا۔ اگررشتوں میں محبت نہ ہو تو خود غرضی کا عنصرپیدا ہوتا ہے۔ انسان ہر معاملے میں اپنا مفاد دیکھتا ہے۔ لیکن جہاں محبت ہو وہاں سب ایک دوسرے پراپنا سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار رہتے ہیں۔
بیوی شوہر کی نظرِ التفات کی خواہشمند ہوتی ہے۔ شوہر کی نگاہوں کا مرکز بنے رہنا اسے اچھا لگتا ہے۔ شوہر کو چاہیے کہ بیوی کے ساتھ اچھا وقت گزارے۔ اس کے ساتھ خوش طبعی سے پیش آئے۔ ہنسی مذاق کرے۔ اسے سیر و تفریح پر لے جائے۔ شادی کا بندھن انہیں چھوٹے چھوٹے اصولوں کو مدنظر رکھ کر پائیدار بنایا جا سکتا ہے۔
سمجھوتہ:
شوہر اور بیوی دونوں کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہئیے کہ انسان خوبیوں اور خامیوں کا مرکب ہے۔ جیسا کہ ارشادی باری تعالی ہے ۔
” اگر وہ(بیویاں) تمہیں ناپسند ہوں۔ تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو۔ مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو”
( النساء : 19)
شوہر اور بیوی کی عادات ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہیں لیکن شادی کا بندھن اسی صورت میں نبھایا جا سکتا ہے جب خامیوں سے صرف نظر کیا جائے اور خوبیوں کو مد نظر رکھا جائے۔ جیون ساتھ میں کوئی خامی دیکھیں تو اسے درست کرنے کی کوشش کریں۔ نہ کہ انہیں نظروں اور دل سے گرا دیں۔
موازنہ:
ازدواجی تعلقات میں دراڑ اس صورت میں آتی ہے جب آپ اپنے جیون ساتھ کا دوسروں اسے موازنہ کرنے لگیں۔ خدا نے ہر انسان کو ایک الگ تدبیر کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ دو انسان ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔ شادی طے کرتے وقت اگر لڑکے اور لڑکی دونوں کو ایک دوسرے کی عادات کے بارے میں بتا کر ان کی رضامندی لے لی جائے۔ تو شادی کے بعد صورتحال خراب ہونے سے بچ سکتی ہے۔ ورنہ شوہر اور بیوی کی عادات اور مزاجوں کا فرق شادی کا بندھن خراب کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اور ایسی صورت میں اگر آپ اپنے شریک حیات کا موازنہ دوسروں سے کرنے لگیں تو حالات بہتر ہونے کی بجائے مزید بگڑتے ہیں۔
شادی کے بعد کچھ باتوں پر سمجھوتہ کرنا ضروری ہے۔ اور بہت سی عادات پیار محبت سے تبدیل کی جا سکتی ہیں۔ شادی کا بندھن ایسا ربط ہے کہ جسے مضبوط بنانے کے لئے فریقین کو محنت کرنا پڑتی ہے۔ کوئی ایک فریق اسے پائیدار نہیں بنا سکتا۔
حقوق و فرائض سےآگاہی:
اپنے حقوق و فرائض سے آگاہی اور ان کی پاسداری کرنے سے شادی کا بندھن فولاد جیسا مضبوط ہو جاتا ہے۔ جیسے ایک ماں کا فرض ہوتا ہے کہ بچوں کہ دیکھ بھال اورتعلیم و تربیت کرے۔ باپ کا فرض ہے کہ خاندان کی کفالت کرے۔ اسی طرح بیوی کا فرض ہے کہ شوہر کے آرام و سکون کا خیال رکھے۔ جن رشتوں میں اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کا خیال رکھا جاتا ہے۔ وہی پائیدار ہوتے ہیں۔ اور رشتوں میں توازن بھی وہی شخص برقرار رکھ سکتا ہے۔ جسے اپنے فرائض کے ساتھ دوسروں کے حقوق کا بھی خیال ہو۔ بالفرض کسی کو اپنے حقوق یا فرائض نہ بھی معلوم ہوں۔ تو اللہ کی رضا جان کراور ثواب کی نیت سے بھی دوسروں کا خیال رکھا جا سکتا ہے۔ بقول شاعر
نہیں معلوم کیا واجب ہے کیا فرض
میرے مذہب میں ہے تیری رضا فرض
دنیا میں ہر رشتہ توجہ، محبت اور خلوص مانگتا ہے۔ ماں باپ، بہن بھائی، اولاد، شوہر یا بیوی عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں۔ پوری توجہ چاہتے ہیں۔
کوئی بھی انسان فرشتہ نہیں ہو سکتا۔ مرد ہو یا خاتون وہ خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہے۔ شادی کا بندھن مضبوط بنانے کے لئے ضروری ہے کہ شریک حیات ایک دوسرے سے پرخلوص ہوں، محبت کریں۔ ایک دوسرے کی غلطیوں کو کھلے دل سے معاف کریں۔ خامیوں کو نظر انداز کریں اور خوبیوں پر نظر رکھیں۔ زوجین میں اگر یہ خصوصیات ہوں۔ تو ایک گھرانہ بلکہ پورا معاشرہ سدھر سکتا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
تمام نقاط بہترین ہیں۔ لیکن اگر ان پر عملدرآمد ہو۔ ٹیکنالوجی نے انسانی جذبات پر بھی بہت برا اثر ڈالا ہے۔ احساس اور رحم دلی جیسے جذبات ختم ہوتے جا رہے ہیں۔