شادی کسی بھی شخص کی زندگی میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ جو محبت، صحبت اور مشترکہ ذمہ داریوں سے بھرپور ایک نئے باب کا آغاز ہے۔ تاہم شادی کے بعد کی زندگی خوشگوار اور پائیدار تبھی ہو سکتی ہے۔ جب شوہر اور بیوی ہر مرحلے پر مفاہمت اور موافقت سے کام لیں۔
شادی سے پہلے کی زندگی بارش کی رم جھم جیسی ہوتی ہے۔ لیکن شادی کے بعد بسا اوقات طوفانی بارش بن جاتی ہے۔ شادی سے پہلے بجلی کے کڑکنے سے جہاں محبوب کی آغوش یاد آتی ہے۔ وہیں شادی کے بعد گرجتے برستے بادل شریک حیات کے غصے کی یاد دلاتے ہیں۔ شادی سے پہلے کی زندگی لاپرواہ ہوتی ہے۔ جب کے شادی کے بعد ذمہ داریوں کابوجھ پڑتا ہے تو نوجوانوں کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔
شادی کے بعد زندگی میں آنے والی تبدیلیاں
شادی کا تصور نہایت خوش کن اور دل آویز ہوتا ہے۔ نوجوان اس کے ذکر سے ہی خوابوں اور خیالوں کی مورائی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔ جہان صرف رنگ، خوشبو، محبت اور خوشیاں ہوتی ہیں۔ چاہنے اور چاہے جانے کی تمنا ہوتی ہے۔ لیکن شادی کے بعد کی زندگی اس ماورائی دنیا سے بہت مختلف ہوتی ہے۔
شادی کے بعد آپ کو رنگ، خوشیاں، محبت سب مل سکتی ہے۔ لیکن اس کے لئے شوہر اور بیوی دونوں کو بہت سے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ ایک دوسرے کے مزاج، خاندان اور گھر کے ماحول کوسمجھنا پڑتا ہے۔ اس کے مطابق فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔
شادی کے بعد ایک لڑکی کا گھر، فیملی یہاں تک کے نام بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ وہ شوہر کے نام سے پہچانی جانے لگتی ہے۔ اسی طرح لڑکے کو اپنا گھر، کمرہ یہاں تک کے تنخواہ میں بھی بیوی کو حصے دار بنانا پڑتا ہے۔
لڑکی نئے گھر میں آتی ہے۔ شوہر کے ساتھ ساتھ اس کے گھر والوں کو بھی اپناتی ہے۔ روایتی گھرانوں میں لڑکی سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ابتداء میں ہی سارے گھر کی ذمہ داریاں سنبھال لے۔ ساس جو بیٹیوں کی ذمہ دای سے سبکدوش ہونے کے بعد بیٹے کی شادی کرتی ہے۔ اس کے پیچھے عام طور پر یہی نظریہ ہوتا ہے کہ بیٹیاں اپنے گھر کی ہو جائیں۔ اور گھر کی اصل مالکن یعنی بہو آ کر ساس کو تمام ذمہ داریوں کے بوجھ سے آزاد کرے۔
دوسری طرف لڑکے کی زندگی میں یہ تبدیلی آتی ہے کہ پہلے اس کی زندگی کا محور ملازمت اور دوست ہوتے ہیں۔ لیکن شادی کے بعد اسے گھر پر پورا وقت دینا ہوتا ہے۔ بیوی کے نان نفقے کی ذمہ داری کے علاوہ اپنے سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ تعلق داری نبھانی ہوتی ہے۔ عام طور پر شادی کے بعد گھر، مالی معاملات اور بچوں کی ذمہ داریاں شوہر اور بیوی دونوں کو ہی مل کر اٹھانا ہوتی ہیں۔ کسی ایک فریق پر تمام ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال دینے سے زندگی دشوار ہو جاتی ہے۔
فریقین کے لئے لازمی ہوتا ہے کہ وہ گھریلو اور اجتماعی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنی انفرادی ضروریات اور خواہشات کے درمیان توازن پیدا کریں۔
شریک حیات کے مزاج کو سمجھنا:
شادی کے بعد شوہر اور بیوی کو اپنی ترجیحات اور طرز زندگی میں بھی تبدیلیاں لانی ہوتی ہیں۔ ایک دوسرے کی ضروریات اور خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے سمجھوتہ اور قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ لیکن اس سب سے پہلے ضروری ہے کہ فریقین اپنا تعلق مضبوط کریں۔ ایک دوسرے کا مزاج اور عادات سمجھیں۔ اپنے تعلقات کو ترجیح دیں۔ ایک دوسرے کے لیے وقت نکالیں۔
رویے اور توقعات میں تبدیلی:
شادی کے بعد میاں بیوی کواپنے رویوں اور توقعات میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ممکن ہے شادی سے پہلے شریک حیات کو لے لر آپ کے ذہن مں کوئی خاکہ ہو۔آپ نے کوئی آئیڈیل بنایا ہو۔ سوشل میڈیا کی چکا چوند بھی نوجوانوں کے ذہنوں کو متاثر کرتی ہے۔ لیکن شادی کے بعد کی زندگی مختلف ہوتی ہے۔
اگر کوئی خاکہ آپ نے بنایا ہوا ہے۔ تو اپنے شریک حیات کو اس میں ڈھالنے کی بجائے وہ جیسے ہیں انہیں قبول کیا جائے۔ حقیقت پسندانہ توقعات رکھیں۔ ایک دوسرے کی خوبیوں کو مدنظر رکھیں۔ خامیوں کو نظر انداز کریں۔ کسی دوسرے کی زندگی سے اپنی زندگی کا موازنہ ہرگز نہ کریں۔ ہر شادی شدہ جوڑے کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔
تنازعات کا پرامن حل:
کسی بھی رشتے میں تنازعات ناگزیر ہیں۔ شوہر اور بیوی کے لیے یہ سیکھنا ضروری ہے کہ جھگڑے یا تنازعے کی صورت میں کس طرح مؤثر طریقے سے بات چیت کی جائے۔ اور تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے۔ صبر، برداشت، سمجھ بوجھ اور سمجھوتہ سے آپ کسی بھی تنازعے کو دور کر سکتے ہیں۔
شادی کے بعد کی زندگی پہلے سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ آپ کو یہ خیال رکھنا پڑتا ہے کہ کسی جھگڑے کی صورت میں آپ کے سامنے آپ کے والدین یا بہن بھائی نہیں ہیں۔ جن کے سامنے آپ بحث کریں گے۔ غصے سے کمرے کا دروازہ بند کریں گے یا چلا کر اپنی بات منوانے کی کوشش کریں گے۔
یا دوسری صورت میں آپ خاموشی سے کمرے میں بند ہو جائیں گے۔ اپنے جذبات کا اظہار نہیں کریں گے۔ بلکہ یہ توقع کریں گے کہ شریک حیات نہ صرف بغیر کہے آپ کی بات سمجھیں بلکہ اس مسئلے کا تنہا حل بھی نکالیں۔ تو آپ کو اپنے رویے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ شادی کے بعد کی زندگی میں سمجھوتہ اور مل بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالنا ہی کارآمد ہے۔
مرد اور عورت دونوں کے لئے ضروری ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے۔ رشتوں میں توازن قائم کرے۔ زندگی کے اہم فیصلے مل جل کر کریں۔ رشتے میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت نہ ہو۔ انے سسرالی رشتہ داروں کی عزت کریں۔ انہیں اہمیت دیں۔ گھر میں اگر ساس سسر موجود ہیں تو کام ان کے مشورے سے کئے جائی۔ کسی بات پر اختلاف ہو تو لڑائی جھگڑے کی بجائے بات چیت سے اسے حل کیا جائے۔
اگر جوائنٹ فیملی میں رہنا لڑکی کے لئے پریشانی کا باعث ہے تو شوہر کو ایک دم فیصلہ لینے پر مجبور نہ کیا جائے۔ ہر مسئلے کا حل بات چیت سے نکل سکتا ہے۔ لڑکی کو چاہئیے کہ اپنے ہر معاملے میں اپنے میکے والوں کی بے جا مداخلت سے گریز کرے۔ دوسری طرف شوہر بھی بیوی کے مطالبے کو ٹھنڈے دل و دماغ سے پرکھے اور قبول کرے۔
شادی کے بعد کی زندگی تبھی مستحکم ہو سکتی ہے جب شوہر اور بیوی ایک دوسرے کی پسند کے سانچے میں ڈھل جائیں۔ اپنی خواہشات کی نفی بے شک نہ کریں لیکن اپنے حقوق و فرائض کا خیال بھی رکھیں۔ جو ذمہ داریاں انہیں شریعت یا قدرت کی طرف سے ودیعت کی گئی ہیں انہیں پورا کریں۔ شادی شدہ زندگی کا سکون اسی میں مضمر ہے۔