زندگی میں کوئی بھی کام سر انجام دینے کے لئے مناسب عمر کی شرط موجود ہوتی ہے۔ جیسے سکول میں مقررہ عمر پر ہی داخلہ ملتا ہے۔ نوکری کے لئے بھی عمر کی ایک حد معین ہوتی ہے۔ اور اس سے مطابقت نہ رکھنے والوں کے لئے نوکری کا حصول مشکل ہوتا ہے۔ لیکن شادی کیلئے مناسب عمر کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کب، کہاں، کیسے ہو جائے کچھ پتا نہیں۔

شادی کیلئے مناسب عمر:

گزشتہ دنوں ایک خبر سننے کو ملی کہ سندھ اسمبلی کے ایک ممبر نے شادی سے متعلق ایک بل اسمبلی میں پیش کیا ہے۔ جس کی رو سے اٹھارہ سال کی عمر تک کے بچوں کی شادی نہ کرنے والے والدین کو جرمانہ کیا جائے۔ اب یہ بل منظور ہو گا یا نہیں۔ یہ بعد کی بات ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ایسا بل پیش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔

شادی بیاہ جیسے معاملات ہر گھرانے کا ذاتی معاملہ ہوتے ہیں۔  یہ بظاہر تو ریاست کی ذمہ داری نہیں۔ پھر حکومتی ارکین ایسی تجویز پیش کرنے پر کیوں مجبور ہوئے۔

ایسا یقیناً معاشرے میں بڑھتی ہوئی بد اخلاقی اور بے راہ روی کو لگام دینے کے لئے کیا گیا۔ دیکھا جائے تو ان دو خرابیوں کا تانا بانا بھی شادی کے ساتھ ہی جڑتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیا وجوہات ہیں۔ جن کی بنا پر بچوں کی شادی میں تاخیر ہوتی ہے۔ اور اس کے کیا نتائج نکلتے ہیں۔

شادی میں تاخیر کی وجوہات:

شادی میں تاخیر کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔

غربت:

شادی میں تاخیر کی بنیادی وجہ تو غربت ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ۱۰۰ میں سے تقریباً ۲۱ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسے والدین ساری عمر بچوں کی شادی کے لئے بچت کرتے ہیں لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی، نت نئی رسومات اور بے جا توقعات ان کے مسائل کو بڑھاتی چلی جاتی ہے۔ شادی کیلئے مناسب عمر گزرتی جاتی ہے۔ اور غربت اس فرض سے سبکدوش ہونے کے قابل نہیں بناتی۔

علم کی کمی:

والدین کی عدم توجہ اور تعلیم کی کمی بھی بچوں کو صحیح راستے سے بھٹکانے کا باعث بن سکتی ہے۔ جس کی وجہ سے شادیاں تاخیر کا شکار ہوتی ہیں۔ اور نوجوان جائز یا ناجائز سے قطع نظر اپنے فطری تقاضے پورے کرنے کے لئے آسان راستہ اپنا لیتے ہیں۔

بے روزگاری:

بیروزگاری اور مناسب نوکری نہ ملنے کی وجہ سے بھی بعض اوقات شادی میں تاخیر ہوتی ہے۔ والدین کی نظر میں بیٹے کی شادی کیلئے مناسب عمر وہی ہوتی ہے جب بیٹا اچھی نوکری پر لگے۔ تا کہ وہ اپنی شریک حیات کی ذمہ داریاں خود اٹھا سکے۔ دوسری طرف بیٹی کے والدین کی خواہش بھی یہی ہوتی ہے کہ لڑکا برسر روزگار ہو۔

مقابلہ بازی:

شادی کیلئے مناسب عمر کا تعین تو اپنی جگہ۔ لیکن لوگوں کے درمیان بڑھتی ہوئی مقابلہ بازی نے بھی شادی کو مشکل کر دیا ہے۔ لوگوں کی ساری عمر بچت کرنے اور بچیوں کے لئے جہیز بنانے میں گزر جاتی ہے۔ اور انہیں کوئی مناسب رشتہ بھی نہیں مل پاتا۔

خواتین کی خود مختاری:

خواتین کے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے نوکری کرنے اور خود مختار ہونے کی خواہش بھی شادی میں تاخیر کا باعث بن رہی ہے۔ والدین کو اپنی بچیوں کے ہم پلہ رشتہ کی تلاش میں دشواری ہوتی ہے۔ دوران تعلیم وہ شادی نہیں کرنا چاہتیں۔ تعلیم مکمل ہونے اور نوکری کے بعد وہ عمر کے اس حصے میں پہنچ جاتی ہیں جہاں انہیں باآسانی رشتہ دستیاب نہیں ہوتا۔ شادی کیلئے مناسب عمر کا تعین بروقت نہیں ہو پاتا۔ جس کا خمیازہ انہیں اکثر ناپسندیدہ رشتے کی صورت اٹھانا پڑتا ہے۔

شادی میں تاخیر کے نتائج:

بچوں کی شادی میں تاخیر کی جائے تو ان کے قدم غلط راستے کی جانب بڑھتے ہیں۔ وہ گمراہی اور عیش پرستی میں پڑ جاتے ہیں۔ اگرچہ شادی میں تاخیر معاشرہ میں اخلاقی پستی اور بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔ لیکن ان تمام مسائل کا حل جلدی شادی کی صورت نکالنا بھی درست نہیں۔

کیا جلد شادی ان مسائل کا حل ہے؟

معاشرتی حالات کے پیش نظر شادی کیلئے مناسب عمر وہی ہے جب  بچہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے۔ اسے صحیح غلط کا شعور نہ ہو۔ وہ رشتوں کو نبھانے اور ان میں توازن برقرار رکھنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔ تب تک اس کی شادی سے گریز کرنا چاہئیے۔ دوسری طرف بچی گھریلو امور میں طاق نہ ہو جائے۔ بنیادی تعلیم نہ حاصل کر لے۔ رشتے نبھانے کا فن نہ جان لے تب تک اسے کسی بندھن میں نہیں باندھنا چاہئیے۔ کیونکہ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔ جب ایک ماں ہی بنیادی تعلیم اور شعور سے محروم ہو گی۔ تو وہ اچھی نسل کیسے پروان چڑھا سکے گی۔

شادی بیاہ کی تمام غیر ضروری رسومات اور جہیز پر پابندی لگانا ممکن نہیں۔ لیکن عوام کو اس سے متعلق باشعور بنایا جائے۔ تا کہ غریب اور سفید پوش طبقہ بھی اپنی بچیوں کو باآسانی بیاہ سکے۔ حکومت تعلیم کی بنیادی سہولیات فراہم کرے۔ تو والدین بچوں کی تربیت پر دھیان دیں۔ یاد رکھیے اولاد کو پالنے اوران کی تربیت کرنے میں بہت فرق ہے۔

کسی بھی قسم کے معاشرتی مسائل کو انفرادی سطح پر حل نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ اجتماعی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ ان کے حل اور سہولیات پیدا کرنے کے لئے حکومتی اور عوامی دونوں سطح پر عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت شادی کیلئے مناسب عمر کا تعین تو نہیں کر سکتی لیکن اوپر بیان کردہ مسائل میں کمی یا ان کے حل کے لئے کوشش ضرور کر سکتی ہے۔

ہمارے ہاں شادی کی عمر سے متعلق مفروضات کو روایات کی زنجیرپہنا دی گئی ہے۔ لیکن  شادی کیلئے مناسب عمر اور وقت وہی ہے۔ جب لڑکا اور لڑکی دونوں عاقل اور بالغ ہوں۔ اور ایک دوسرے کے حقوق پورے کرنے اور اپنے فرائض ادا کرنے کی طاقت رکھتے ہوں۔

سمپل رشتہ اگرچہ ایک رشتہ ویب سائٹ ہے۔ لیکن وہ اس اہم مسئلے کی نشاندہی اور اس کے حل کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مختلف سماجی موضوعات پر لکھے ان کے بلاگ عوام کو شعور دلانے میں کوشاں ہیں۔ اس کے علاوہ وہ والدین کو بچوں کے رشتے کی تلاش میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں۔ اگر آپ کو ایک اچھے رشتے کی تلاش ہے۔ تو رجسٹر کر کے رشتے کی تلاش کا آغاز کیجئے۔