طلاق کو ہمارے معاشرے میں ہمیشہ سے ایک ناپسندیدہ عمل کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو اسلامی تعلیمات سے بھی ہم آہنگ ہے۔ اسلام میں نکاح کو ایک مضبوط اور مقدس بندھن قرار دیا گیا ہے۔ اور اس کے استحکام کو فروغ دینے کی ہدایت دی گئی ہے۔ طلاق کو اگرچہ ایک جائز عمل قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اسے آخری حل کے طور پر اپنانے کی تاکید کی گئی ہے۔ جب تمام دیگر ذرائع سے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں ناکام ہو جائیں۔ اسی لئے طلاق یافتہ سے شادی کرنے کے بارے میں بھی ہمارے معاشرتی رویے مختلف ہیں۔ اور یہ معاملہ اکثر تنقید یا غیر پسندیدگی کا شکار ہوتا ہے۔  

طلاق ایک ایسا عمل ہے جو اسلام میں اگرچہ جائز ہے۔ لیکن اسے پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا۔ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا۔  

اللہ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔   

سنن ابی داؤد 

اس حدیث سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ طلاق کو اسلامی تعلیمات میں آخری حل کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں ازدواجی رشتہ اور اس کی اہمیت کو انتہائی اہمیت دی گئی ہے۔ 

طلاق یافتہ سے شادی: سماجی نقطہ نظر 

ہمارے معاشرے میں طلاق یافتہ افراد کے بارے میں عمومی رائے یہ ہے کہ ان کی سابقہ شادی ناکام ہونے کی وجہ صرف ان کی ہی غلطی ہوتی ہے۔ اکثر لوگ بغیر کسی تحقیق کے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ اور طلاق یافتہ شخص کو ہی ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طلاق یافتہ افراد پر دوسری شادی کے مواقع محدود ہوجاتے ہیں۔ اور ان کے ارد گرد لوگوں کا رویہ سرد مہری سے بھرپور ہوتا ہے۔ 

طلاق یافتہ افراد کو معاشرے میں الگ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اور ان پر مختلف قسم کے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ جب کسی طلاق یافتہ سے شادی کی بات کی جاتی ہے۔ تو ان کے سابقہ تعلقات کو یاد کیا جاتا ہے۔ اور اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آیا وہ دوبارہ کامیاب ازدواجی زندگی گزارنے کے قابل ہے یا نہیں۔ 

خواتین کو خاص طور پر زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شادی کے بعد اگر کوئی عورت گھر نہ بسا سکے تو اکثر خاندان والے اور معاشرہ اس پر شک کرتا ہے۔ اور اسے ایک بوجھ کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس کی دوسری شادی میں بھی رکاوٹ ڈالی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ خود اس کے والدین بھی بعض اوقات ساتھ نہیں دیتے۔ 

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ طلاق کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی شخص ناکام یا ناکارہ ہے۔ درحقیقت، بہت سے عوامل ہو سکتے ہیں جو طلاق کا باعث بنتے ہیں۔ ہر طلاق یافتہ شخص کو نئے سرے سے زندگی شروع کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ اور یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ایسے افراد کو عزت و احترام کے ساتھ قبول کریں۔ اور انہیں دوبارہ سے زندگی کی شروعات میں مدد کریں۔ 

طلاق یافتہ افراد بھی دوسرے انسانوں کی طرح محبت، احترام اور خوشی کے حق دار ہیں۔ طلاق ایک نجی اور ذاتی معاملہ ہوتا ہے۔ اور اس میں معاشرتی رائے یا تبصروں کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ طلاق یافتہ سے شادی کے بارے میں ہمیں اپنے رویے میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ تاکہ ہم ان افراد کے ساتھ انصاف کر سکیں۔ جو ایک نئی زندگی شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

اسلام میں طلاق یافتہ سے شادی کی اجازت 

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے 

اور اگر تمہیں ان کے درمیان پھوٹ پڑنے کا خوف ہو تو ایک منصف مرد کے خاندان سے اور ایک منصف عورت کے خاندان سے مقرر کرو۔ اگر وہ دونوں صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت پیدا کر دے گا۔ بے شک اللہ خوب جاننے والا، خبر رکھنے والا ہے۔ 

سورۃ النساء 

یہ آیت واضح طور پر اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر دونوں فریقین میں اختلافات ہوں۔ اور تمام مصالحتی کوششیں ناکام ہو جائیں تو طلاق ایک جائز اور حلال طریقہ ہے۔ اس کے بعد طلاق یافتہ افراد کے لیے بھی نئے نکاح کا دروازہ کھلا ہوتا ہے۔ 

 اسلام میں طلاق کو ایک آخری حل کے طور پر اپنانے کی تاکید کی گئی ہے۔ اور اس کے بعد بھی یہ ضروری ہے کہ معاشرتی رویے میں صلح اور ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے۔ طلاق یافتہ سے شادی کے بارے میں معاشرتی رویہ اس کی پیچیدگیوں کو بڑھاتا ہے۔ لیکن اسلام نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ یہ عمل جائز ہے۔ اور اس کے لیے مخصوص ضوابط اور آداب ہیں۔ جو اس کے اخلاقی اور قانونی پہلوؤں کو منظم کرتے ہیں۔ 

طلاق یافتہ سے شادی: ہماری ذمہ داریاں 

طلاق یافتہ افراد سے شادی کے موضوع پر بات کرنا ہمارے معاشرتی رویوں اور ذمہ داریوں کے حوالے سے ایک اہم امر ہے۔ ہمارا دین اور معاشرتی اقدار ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ ہر شخص عزت اور احترام کا حق دار ہے۔ خواہ وہ کسی بھی طبقے یا جنس سے تعلق رکھتا ہو۔ اور کن حالات سے گزر رہا ہو۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم طلاق یافتہ سے شادی کے بارے میں اپنے رویے میں نرمی لائیں۔ اور ان کے ساتھ انصاف کریں۔  

تنقید سے گریز 

طلاق یافتہ افراد کو معاشرے میں استحقاق اور احترام ملنا چاہیے۔ ہمیں ان کے ماضی کی کہانیوں اور تجربات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ان کی موجودہ حالت اور مستقبل کے امکانات پر توجہ دینی چاہیے۔ اور تنقید سے گریز کرنا چاہئیے۔  

حمایت اور ہمدردی 

طلاق یافتہ افراد کے لئے معاشرتی قبولیت اور ان کی حمایت اس وقت اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتی ہے۔ جب وہ دوبارہ شادی کا ارادہ رکھتے ہوں۔ ہمیں تنقید اور غیر ضروری سوالات سے گریز کرتے ہوئے ان کے فیصلے کا احترام کرنا چاہیے۔ زندگی میں مشکلات کا سامنا کرنا انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ کسی کے ماضی کو اس کی پوری زندگی کا پیمانہ نہ بنایا جائے۔ 

شرعی ضوابط کی پابندی 

جب طلاق یافتہ سے شادی کا ارادہ ہو تو ضروری ہے کہ اسلامی شریعت کے تمام اصولوں کی پیروی کی جائے۔ اس میں عدت کی مدت پوری کرنا، دوبارہ نکاح کے شرعی تقاضوں کی تکمیل اور عدلیہ کے ضوابط کی پاسداری شامل ہیں۔  

خاندان اور والدین کی ذمہ داریاں 

والدین اور خاندان والوں کو چاہئے کہ وہ طلاق یافتہ افراد کے ساتھ نرمی کا معاملہ اختیار کریں۔ ان سے شادی میں مثبت رویہ اپنائیں۔ اور اس پر کھلے ذہن سے غور کریں۔  والدین کے لئے ضروری ہے کہ  ان کے ساتھ ہمدردی کریں۔ بیٹی کے طلاق لینے کی صورت میں اسے مکمل تحفظ دیں۔ اس کی رضا ہو تو اس کے لئے تعلیم یا کسی روزگار کا بندوبست کریں۔ یا کم از کم اسے کوئی ماہانہ خرچہ دیں۔ اور اس کی دوسری شادی کے لئے کوشش کریں۔  

مثبت روایات کا فروغ  

ہمیں ایسے لوگوں کی مثالیں سامنے لانی چاہئیں۔ جنہوں نے طلاق کے بعد تنہا یا دوسری شادی کر کے کامیاب ازدواجی زندگی گزاری۔ تاکہ یہ پیغام دیا جا سکے کہ طلاق کے بعد زندگی ختم نہیں ہوتی۔ بلکہ ایک نیا آغاز ممکن ہے۔ 

یہاں بشریٰ انصاری، جو پاکستان کی مشہور اداکارہ، گلوکارہ، اور لکھاری ہیں۔ ان کی زندگی ایک مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے اپنے شوہر پروڈیوسر اقبال انصاری سے شادی کے چھتیس سال بعد طلاق لی۔ دونوں نے اپنی ازدواجی زندگی کے خاتمے کو وقار کے ساتھ قبول کیا۔ بشریٰ انصاری کے خاندان والوں نے انہیں اقبال حسین سے دوسری شادی کے لئے منایا اور اس فیصلے میں ان کا پورا ساتھ دیا۔ یہاں اقبال حسین بھی قابل تعریف ہیں۔ جنہوں نے عمر میں خود سے بڑی اور ایک طلاق یافتہ خاتون سے شادی کو ترجیح دی۔ 

اداکارہ ثمینہ احمد نے بھی سینئر اداکار منظر صہبائی سے دوسری شادی کی۔ان کی پہلی شادی پاکستانی فلم ساز فریدالدین احمد سے ہوئی تھی۔ تاہم کچھ سالوں بعد ان دونوں میں علیحدگی ہوگئی تھی۔ ثمینہ احمد اور منظر صہبائی کی شادی نے معاشرے میں ایک مثبت پیغام دیا۔ کہ زندگی کے کسی بھی مرحلے پر خوشیوں کی تلاش اور نیا آغاز ممکن ہے۔ ان کی شادی نے یہ ثابت کیا کہ عمر یا ماضی کی حیثیت سے قطع نظر، ہر فرد کو اپنی زندگی میں خوشی اور محبت کا حق حاصل ہے۔ 

تعلیم اور آگاہی 

ہمیں معاشرتی سطح پر آگاہی پیدا کرنی ہوگی کہ طلاق کوئی جرم نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک قانونی حق ہے۔ جسے صحیح وقت پر استعمال کرنا بہتر ہوتا ہے۔ 

نتیجہ 

طلاق یافتہ افراد سے شادی کو کسی بھی طور پر معیوب نہیں سمجھنا چاہیے۔ ہمیں سماج کو ایسے مثبت رویے اپنانے کی تلقین کرنی ہوگی۔ جس سے ہر فرد کو برابری کا موقع مل سکے۔ طلاق کے بعد دوسری شادی ممکن ہے۔ ہمیں صرف اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ہر فرد کو خوشگوار زندگی گزارنے کا موقع مل سکے۔ 

اس کے علاوہ ہمیں طلاق یافتہ افراد کا احترام کرنےاور ان کے دوبارہ شادی کے فیصلے کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔ اپنے تعصبات کو چھوڑ کر لوگوں کو ان کی قابلیت اور شخصیت کی بنیاد پر پرکھنا چاہیے۔ نہ کہ ان کے ماضی کے تجربات کی بناء پر۔ 

ہر شخص کو ایک نیا آغاز کرنے کا حق حاصل ہے۔ اور اس نئے سفر میں ہمارا کردار انہیں احترام اور محبت دینا ہونا چاہیے۔ نہ کہ ان کی راہ میں رکاوٹ بننا۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس موضوع پر معاشرتی شعور بیدار کریں۔ اور بیوہ یا طلاق یافتہ سے شادی کے بارے میں مثبت اور حوصلہ افزا رویہ اپنائیں۔

Simple Rishta

Simple Rishta

We are available from : 10:00 AM to 10:00 PM (Monday to Friday)

I will be back soon

Simple Rishta
Hey there 👋
How can we help you?
Messenger