زندگی کے سفر میں بعض اوقات ایسے موڑ آ جاتے ہیں جہاں انسان کو کچھ لمحے رک کر سوچنے اور آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنے کے لئے وقت درکار ہوتا ہے۔ چاہتے نہ چاہتے بھی وقفہ لینا پڑتا ہے۔ خود کو سنبھال کر زندگی کی نئی شروعات کرنا پڑتی ہے۔ ان میں ایک مرحلہ زندگی کے ساتھی بچھڑ جانے کا ہے۔ جب زندگی ساکت ہو جاتی ہے۔ لیکن مرد ہو یا عورت اسے اپنی اور خود سے وابستہ لوگوں کی خاطر زندگی کی طرف لوٹنا پڑتا ہے۔ خود کو مضبوط بنا کر مسائل اور مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس دوران اسلامی شریعت اور اس کے احکام کی پاسداری بھی ضروری ہے۔ عدت ایسا ہی ایک دورانیہ ہے جس میں انسان کو ذہنی اور جسمانی تجدید کا موقع ملتا ہے۔ عدت کیا ہے۔ نیزعدت کی اقسام ، اس کے احکام و مسائل کیا ہیں۔ آئیے جانتے ہیں۔
عدت کسے کہتے ہیں؟
عدت کا لفظ ‘عد’ سے نکلا ہے۔ جس کے معنی ہیں گننا یا شمار کرنا۔ شریعت میں عدت سے مراد وہ دورانیہ ہے۔ جو عورت کو شوہر کی وفات، خلع لینے، طلاق یا تنسیخ نکاح کے بعد مخصوص مدت کے لیے گزارنا ہوتا ہے۔ یعنی عورت کو شریعت کی طرف سے عائد کردہ بعض پابندیوں کو ملحوظ خاطر کھتے ہوئے ایک محدود مدت تک انتظار کرنا ہے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے۔
وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ
اور طلاق والی عورتیں تین حیض تک اپنے آپ کو روکے رکھیں۔
عدت ہر اس عورت پر لازم ہے جو اپنے شوہر سے الگ ہو۔ مفارقت کی وجہ طلاق ہو یا خلع، فسخ نکاح ہو شوہر کی وفات۔ لیکن عدت کے لیے خلوتِ صحیحہ کا ہونا لازم ہے۔ خلوتِ صحیحہ سے مراد ہے کہ مرد اور عورت دونوں ایسی جگہ پر موجود ہوں جہاں ازدواجی تعلقات قائم کرنے میں کوئی حسی، شرعی یا طبعی عذر مانع نہ ہو۔ لیکن ایسی تنہائی کے باوجود ازدواجی تعلق قائم نہ کیا گیا ہو۔
حسی مانع یعنی مرد یا عورت بیمار ہوں اور جماع کرنا مضرصحت ہو۔ طبعی مانع سے مراد عورت حیض یا نفاس میں ہو۔ شرعی مانع کا مطلب عورت یا مرد دونوں یا کوئی ایک حالت احرام میں ہو۔ خلوتِ صحیحہ یا مجامعت کے بغیر اگر طلاق، خلع یا تنسیخِ نکاح ہو جائے تو اس صورت میں عورت کے لئے عدت نہیں ہے۔
عدت کی اقسام اور حکمت ذیل میں واضح کی گئی ہے۔
عدت کی حکمت
شریعت میں جب کسی چیز کا حکم دیا جاتا ہے تو اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی حکمت ضرورپنہاں ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ سماجی و معاشرتی فوائد و مصالح بھی ہوتے ہیں۔ خواہ ہمیں ان کا ادراک ہو یا نہ ہو۔
۱- استبرائے رحم
عدت کی حکمت دراصل یہ ہے کہ عورت کے رحم میں حمل کی صورت حال واضح ہو جائے۔ تا کہ نسب کا ثبوت ممکن ہو۔ اوراس میں کوئی شبہ یا اختلاط نہ ہو۔ اور دوسرا، اگر عدت گزارنے والی عورت حاملہ ہے تو اس کے حمل کے حق میں حفاظت بھی ہے۔ یعنی عدت اس لئے بھی ضروری ہے کہ عورت کا رحم اپنے پرانے شوہر کے نطفے اور بصمات سے پاک صاف ہو کردوسرے بصمات کے لئے تیار ہو۔
۲- نکاح کی عظمت
عدت نکاح کی حرمت اور عزت کی حفاظت کا ایک ذریعہ ہے۔ ایک عورت اس عقد سے جڑنے کے بعد بلا فصل اور بلا عدت اپنے شوہر کی زوجیت سے علیحدگی اختیار نہیں کر سکتی۔ عدت دونوں کو رجوع کا موقع فراہم کرتی ہے۔ گویا اس میں طرفین کے لیے مصلحت ہے۔
۳- اظہار تأسف وملال
عدت ایک پاکیزہ رشتے کے ٹوٹنے یا ختم ہونے پر اظہار تاسف کا ذریعہ ہے۔ کیونکہ نکاح کی وجہ سے عورت کو شوہر کی طرف سے اولاد، عزت کی حفاظت کے علاوہ نان و نفقہ اور دیگر اخراجات کے برداشت کرنے کی نعمت ملتی ہے۔ اور اس کے ٹوٹنے سے عورت ان نعمتوں سے محروم ہو جاتی ہے۔
عدت کی اقسام
خواتین کی عدّت کے متعدد فلسفے اور مسائل ہیں۔ لہذا ان تمام موارد میں جہاں شریعت نے حکم دیا ہے، خواتین کے لئےعدت لازم ہے۔ اگرچہ وہ بانجھ ہی کیوں نہ ہو۔ اس نےاپنا رحم نکلوا دیا ہو۔ یا اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کر رکھی ہو۔ ان تمام صورتوں میں عدت لازم ہے۔ عدت کی اقسام درج ذیل ہیں۔
۱- عدت طلاق
نکاح کے بعد رخصتی یا خلوتِ صحیحہ ہوچکی ہو تو طلاق کے بعد عدت مکمل تین ماہواریاں یا حیض گزرنا ہے۔ بشرطیکہ عدت گزارنے والی خاتون حاملہ نہ ہو۔ بالفرض عورت حاملہ ہے تو اس کی عدت وضع حمل (بچے کی پیدائش تک) ہوگی۔ اگر نکاح کے بعد رخصتی یا خلوتِ صحیحہ نہ ہوئی ہو تو طلاق کے بعد عدت نہیں ہے۔ طلاق کی عدت کا وقت طلاق دیتے ہی شمار ہوگا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔
تعتدُّ من یوم طلَّقها، أو مات عنها
عبد الرزاق، المصنف، 6: 327، رقم: 11043
عورت اس دن سے عدت شروع کرے گی جس دن اسے طلاق دی گئی۔ یا جس دن اس کا خاوند فوت ہوا۔
حائضہ کی عدت
جو عورت اپنے شوہر سے مجامعت کرے۔ اور اسے ماہواری آتی ہو۔ اسے طلاق ہو جائے تو اس کی عدت تین قروء ہے۔ یعنی تین حیض تک اس کی عدت ہے۔
آئسہ کی عدت
اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جو اس عمر کو پہنچ جائیں کہ انہیں حیض آنا بند ہو چکا ہو۔ ان کی عدت بھی تین ماہ ہے۔ ان کی عدت اسی روز سے شمار ہو گی۔ جب انہیں طلاق دی گئی۔ یہی حکم ان عورتوں کے لئے بھی ہے جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو۔ اور کم سن ہوں۔ یاد رہے عدت کا سوال اس معاملے میں پیدا ہوتا ہے جب شوہر خلوت کر چکا ہو۔ خلوت نہ ہوئی ہو تو طلاق کے بعد کوئی عدت نہیں۔
وہ عورتیں جن کے حیض میں بے قاعدگی ہو۔ ان کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ ایسی عورت جسے دو ماہ حیض آیا۔ لیکن اس کے بعد بند ہو گیا۔ تو ایسی عورت نو مہینے انتظار کرے۔ اگر حمل ظاہر ہو جائے تو ٹھیک ورنہ نو مہینے گزرنے کے بعد وہ مزید تین ماہ عدت میں گزارے۔ اس کے بعد ہی وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح کر سکتی ہے۔ اور نو ماہ تب سے شمار ہوں گے جب اسے آخری بار حیض آیا تھا۔ جبکہ کچھ فقہاء کا کہنا ہے کہ جس عورت کو سال بھر حیض نہ آیا ہو اس کی عدت تین ماہ ہے۔
شوہراور بیوی دونوں اگر نابالغ ہیں۔ اور شوہر کی وفات ہو جائے تو اس صورت میں بھی عدت چار ماہ دس دن ہوگی۔
۲- عدت وفات
عدت کی اقسام میں ایک نہایت اہم جس کے بارے جاننا بہت ضروری ہے، وہ ہےوفات کی عدت۔ اس کے مسائل اور احکام کا جاننا سب کے لئے نہایت ضروری ہے۔ عدت وفات کے کل دن ایک سو تیس ہیں۔ یعنی چار ہجری مہینے اور دس دن۔ سورہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے۔
وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًاۚ-فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ
اور تم میں جو وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑیں۔ وہ چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں۔ تو جب ان کی عدت پوری ہوجائے تو اے والیو تم پر مُواخذہ نہیں۔ اس کام میں جو عورتیں اپنے معاملہ میں موافق شرع کریں۔ اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔
یاد رہے کہ یہ عدت غیرحاملہ عورت کی ہے۔
۳- عدت حمل
عدت کی اقسام کا ذکر ہو تو یہ جاننا بھی لازم ہے کہ عورت اگر حاملہ ہے تو اس کی عدت خواہ طلاق کی وجہ سے ہو یا شوہر کی وفات کے سبب، وضع حمل تک ہے۔ خواہ خاوند کی وفات کے چند لمحوں بعد ہی بچہ پیدا ہوجائے۔ یعنی بچہ کی پیدائش کے ساتھ ہی عورت عدت سے فارغ ہو جائے گی۔
یہاں تک کہ اگر کسی شوہر نے اپنی بیوی کو طلاق رجعی دے دی۔ اور پھر رجوع نہیں کیا۔ اس دوران شوہر کا انتقال ہو جائے۔ تب بھی عورت کی عدت بچے کی پیدائش تک ہو گی۔ سورہ الطلاق میں ارشاد ہوا ہے۔
وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ
اور جو حمل والی ہیں ان کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل وضع کردیں۔
اسقاط حمل کی عدت
حضرت مغیرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابراہیم سے سوال کیا کہ اگر نامکمل بچہ پیدا ہو جائے تو کیا عدت پوری ہوجائے ہوگی؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! عدت مکمل ہو جائے گی۔
۳- خلع کی عدت
عدت کی اقسام میں خلع کی عدت کے بارے میں جاننا بھی ضروری ہے۔ اس میں علماء کے دو قول ہیں۔ کچھ علماء کا کہنا ہے کہ خلع لینے والی عورت کی عدت ایک حیض ہے۔ کیونکہ اس سے براءت رحم ہو جاتی ہے۔ حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جب انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں اپنے شوہر سے خلع لی۔ چنانچہ مسئلہ دریافت کرنے پر آپﷺ نے حکم دیا کی ایک حیض آنے تک عدت گزارو۔
جبکہ کچھ علماء کا قول ہے کہ خلع کی عدت بھی وہی ہے جو طلاق کی ہے۔ یعنی تین حیض۔
۴- عدت شبہہ
وطی بہ شبہ یعنی کسی عورت کی عدت کے دوران اس کے ساتھ اس گمان سے نکاح اور مجامعت کی جائے کہ ایسی شادی حلال اور صحیح ہے۔ مجتہدین کے مطابق یہ عمل زنا کی طرح حرام تو نہیں۔ لیکن ایسا کرنے پرعورت کو مہر المثل کی ادائیگہ ہو گی۔ اور عورت پرعدت واجب ہو جاتی ہے۔
وطی شبہہ کی عدت کی شروعات کا وہی وقت ہے۔ جس وقت اسے وطی شبہہ کا علم ہو جائے۔ معلوم ہونے کے بعد دونوں کے لئے لازم ہے کہ الگ ہوجائیں گے۔ کیونکہ وہ عورت اس کے لئے نا محرم ہو چکی ہے۔ عورت کی عدت ختم ہو جانے کے بعد وہ دوبارہ شادی کر سکتے ہیں۔ وطی بہ شبہ کی عدت بھی طلاق کی عدت کے برابر ہے۔ یعنی تین بار حیض کا دورانیہ گزر جائے۔
۵- عدت مسیار
نکاحِ مسیار جسے زواجِ مسیار یا متعہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایسا نکاح ہے جس میں مرد حالتِ سفر یا ملازمت کے لیے کسی دوسرے ملک میں جائے۔ اسے وہاں اپنی طبعی خواہش پوری کرنے کی حاجت ہو۔ اور وہ کسی عورت سے اس نیت سے نکاح کرلے کہ جب یہاں سے واپس جاؤں گا تو طلاق دے دوں گا۔
اس نکاح میں عورت نان نفقہ اور ساتھ رہنے کے حق وغیرہ سے دست بردار ہوجاتی ہے۔ لہذا بیوی اپنے میکے میں رہتی ہے۔ اورشوہر کو جب موقع ملتا ہے وہ بیوی سے اس کے میکے میں یا کچھ وقت کے لیے کسی دوسری جگہ لے جا کر اپنا طبعی تقاضہ پورا کرتا ہے۔ اس عمل کو جواز کا جامہ پہنانے کےلیے ظاہری طور پر نکاح کی شرائط و ارکان یعنی ایجاب وقبول، گواہ اور حق مہر وغیرہ کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔
اگرچہ یہ نکاح عرب ممالک میں عام ہے لیکن اس کے بارے میں حکم ہے کہ یہ جائز نہیں۔ کیونکہ اس رشتے اور تعلق میں دوام نہیں۔ بلکہ اس کا مقصد معینہ مدت تک صرف اپنی جسمانی خواہشات کا حصول ہے۔ نکاح متعہ یا مسیار جائز نہیں۔ لیکن اگر کوئی کر لے تو اس کی عدت دو حیض ہے۔
رخصتی سے پہلے شوہر کے انتقال کی صورت میں عورت عدت کہاں گزارے؟
اگر رخصتی سے پہلے شوہر کا انتقال ہو جائے تو اس صورت میں عورت عدت اپنے میکے میں گزارے گی ۔ بشرطیکہ ان کے درمیان خلوت صحیحہ نہ ہوئی ہو۔
لاپتہ شخص کی بیوی کی عدت کیا ہو گی؟
مسلک امام مالک کے مطابق اگر کسی عورت کا شوہر لاپتہ ہو اور اس کی کوئی خبر نہ ہو۔ تو ایسی عورت چار سال تک انتظار کرے۔ پھر عدت مکمل کر کے کسی دوسری جگہ اپنی مرضی سے نکاح کر سکتی ہے۔
أَیُّمَا امْرَأَۃٍ فَقَدَتْ زَوْجَھَا فَلَمْ تَدْرِ أَیْنَ ھُوَ؟ فَاِنَّھَا تَنْتَظِرُ أَرْبَعَ سِنِیْنَ. ثُمَّ تَعْتَدُ أَرْبَعَۃَ أَشْھُرٍ وَعَشْرًا. ثُمَّ تَحِلُّ
مالک، الموطا
جس عورت کا خاوند مفقود الخبر ہو جائے۔ اور یہ نہ معلوم ہو کہ وہ کہاں ہے تو وہ عورت چار سال انتظار کرے۔ اس کے بعد چار ماہ دس دن عدت گزارے تو عقد ثانی کے لیے حلال ہو جائے گی۔
شہید کی بیوہ کی عدت
ایک شہید کی بیوہ پر بھی عدت کا وہی قانون لاگو ہوتا ہے جو دوسری خواتین کے لئے ہے۔ اس کی عدت بھی چار ماہ دس دن ہے۔ اس کے بعد وہ چاہے تو عقد ثانی کر سکتی ہے۔
کیا نو مسلمہ کے لئے بھی عدت لازم ہے؟
عدت کی اقسام جاننا اگرچہ مسلمانوں کے لئے ضروری ہے۔ لیکن اگر کوئی غیر مسلم شادی شدہ عورت مسلمان ہوجائے۔ تو اسلام قبول کرنے کے بعد اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے غیر مسلم شوہر کو اپنے مسلمان ہونے کی خبر دے۔ اور اسے شرعی گواہوں کی موجودگی میں اسلام قبول کرنے کی دعوت دے۔ اگر شوہر اسلام قبول کر لے تو دونوں کا نکاح قائم رہے گا۔ لیکن اگر شوہر انکار کر دے یا خاموشی اختیار کرے۔ تو دونوں صورتوں کے فوراً بعد عورت کی عدت شروع ہوجائے گی۔
اگر عورت حاملہ ہے تو وضع حمل تک، ورنہ تین حیض تک عدت کا دورانیہ ہے۔ اس کے بعد وہ عورت کسی بھی مسلمان مرد کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے۔ یاد رہے شوہر پر اسلام پیش کرنے سے پہلے وہ کسی دوسری جگہ نکاح نہیں کر سکتی۔
شوہر کے مذہب تبدیل کرنے کی صورت میں بیوی کی عدت
اگر کوئی مسلمان مرد کوئی دوسرا مذہب اختیار کر لے تو اس صورت میں ان کا نکاح فسخ ہو جائے گا۔ اور عورت پر عدت لازم ہو گی۔ جو شوہر کے مرتد ہونے کے وقت سے شمار ہو گی۔ اور اس کی عدت بھی تین حیض ہے۔ لیکن اس شخص کے مارے جانے یا وفات پا جانے کی صورت میں عدت چار ماہ دس دن ہو گی۔
عدت کے احکامات
عدت کی اقسام کے ساتھ ساتھ عدت کے احکامات کا علم بھی ضروری ہے۔ نیز عدت وفات یا طلاق سے متعلق چند مخصوص احکام درج ذیل ہیں۔
۱- عورت عدت وفات اس گھر میں گزارے جہان وہ اپنے خاوند کی وفات کے وقت رہ رہی تھی۔ بغیر کسی شرعی عذر کے اس جگہ کو چھوڑنا جائز نہیں۔
۲- اگر اس گھر میں جہاں اس کا خاوند فوت ہوا ہے، رہنے میں کوئی تکلیف یا نقصان کا اندیشہ ہے یا عورت کو اس گھر سے جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے تو عورت حسب خواہش جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے۔
۳- دوران عدت کسی مجبوری یا ضروری کام کے لئے عورت دن میں گھر سے باہر جا سکتی ہے لیکن رات کو نہیں۔ کیونکہ رات کو جانے میں خرابی و فساد کا اندیشہ ہے۔ دن میں اگر کسی مجبوری کی وجہ سے عورت گھر سے باہر گئی ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ رات واپس اپنے گھر آ کر ہی گزارے۔
۴- عدت وفات کے احکام میں سے ایک حکم یہ بھی ہے کہ عورت سوگ کی کیفیت میں رہے۔ اپنی صورت حال اور وضع قطع ایسی نہ بنائے کہ حسن و زیبائش اور بناؤ سنگھار کر کے دعوت نظارہ دے رہی ہو۔ چونکہ عورت ابھی پہلے خاوند کی عدت گزار رہی ہے۔ اور کسی دوسرے شخص کے عقد میں نہیں گئی۔ تو عدت کا تقاضا ہے کہ وہ ابھی پہلے خاوند کا حق پورا کرے۔ اور عدت مکمل ہونے تک ایسے تمام امور ترک کئے رکھے جنہیں بیویاں اپنے شوہوں کے لئے بجا لاتی ہیں۔
زمانہ جاہلیت میں لوگ انتہائی مبالغہ کرتے تھے۔ عدت والی عورت کو حالت سوگ میں ایک سال تک ایسے تنگ و تاریک مکان میں رکھا جاتا، جو سب سے الگ تھلگ ہوتا تھا۔ وہ نہ کوئی خوشبو استعمال کر سکتی تھی۔ نہ غسل کرتی تھی۔ اس کے علاوہ ایسے امور انجام دیتی تھی جس سے تقدیر پر ناراضی کا اظہار ہوتا تھا۔ لیکن اللہ نے یہ طریقہ باطل قرار دیا۔ اور اس کی بجائے صبر و شکر کی تعلیم دی۔
۵- عدت وفات کے لئے شریعت نے کوئی مخصوص لباس متعین نہیں یا۔ عورت سادہ اور عام معمول کا لباس پہنے۔ اور زیب و زینت سے باز رہے۔
۶- جو عورت طلاق رجعی کی عدت میں ہو۔ اس کا زیب و زینت یا سنگھار کرنا مستحب ہے۔
۷- عدت وفات مکمل ہونے پر کوئی مخصوص کام کرنا یا خاص الفاظ ادا کر کے عدت ختم کرنا شرع میں ثابت نہیں۔
۸- عدت سے متعلق احکام میں ایک مسئلہ پیغام نکاح بھی ہے۔ اگر عورت شوہر کی وفات کے بعد عدت میں ہو یا اسے طلاق بائن ہو چکی ہو۔ تو اس دوران صاف یا واضح الفاظ میں نکاح کا پیغام بھجوانا حرام ہے۔ البتہ اشارے کنایے میں نکاح کا پیغام دیا جا سکتا ہے۔
۹- اگر عورت شوہر کے انتقال یا طلاق کی صورت میں عدت مکمل نہ کرے تو وہ گناہ گار ہو گی۔ لہذا توبہ استغفار کے بعد عورت کے لئےعدت مکمل کرنا لازمی ہے۔
۱۰- دوران عدت عورت کے نان نفقے کی ذمہ داری شوہر پر ہو گی۔
عدت کی اقسام اور احکامات کا جاننا سب کے لئے نہایت ضروری ہے۔ شریعت کے مطابق عورت مطلقہ ہو یا بیوہ عدت گزارنے کے بعد آزاد ہے۔ جہاں چاہے اپنی مرضی سے نکاح کر سکتی ہے۔ البتہ عدت وفات یا عدت طلاق سے اُٹھنے کا شرعا کوئی طریقہ رائج نہیں۔ جیسے بعض خواتین عدت گزرنے کے بعد اپنے میکے جانے، نوافل کا اہتمام کرنے، متوفی شوہر کی قبر پر جانے، نیا لباس زیب تن کرنے یا زیب و زینت کو لازمی سمجھتی ہیں۔ لیکن عدت مکمل ہوجانے کے بعد شریعت کی جانب سے معتدہ پر کوئی خاص عمل لازم نہیں۔ لہذا کسی خود ساختہ عمل کو لازمی سمجھنا یا ایسے کسی رواج کی پاسداری ضروری نہیں۔
I was as impressed with your work and the writing is well-crafted.