شادی نہ صرف مذہبی بلکہ معاشرتی طور پر بھی اہمیت کا حامل ایک فریضہ ہے۔ نسل کی بقا و ارتقا، گناہوں میں رکاوٹ اور ایک مہذب معاشرے کی تشکیل میں اس کا بنیادی کردار ہے۔ وہ ممالک جہاں نکاح اور شادی کو نظر انداز کر کے تعلقات بنائے جاتے ہیں۔ ان معاشروں میں بے، چینی، ہیجان، ذہنی دباؤ اور خودکشی کی شرح زیادہ ہے۔ اچھے رشتوں کی قلت ہمارے معاشرے کا ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ اس بلاگ میں لڑکیوں کے رشتوں میں درپیش مشکلات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ تا کہ مل جل کر ان کا کچھ حل نکالا جائے۔
شادی انسانی معاشرت کا نقطہ آغاز ہے۔ شوہر اور بیوی مل کر ایک خاندان کی ابتدا کرتے ہیں۔ شادی محض ایک بندھن نہیں ہے کہ جائز اور حلال طریقے سے اپنی فطری خواہشات پوری کر لی جائیں۔ بلکہ یہ دو خاندانوں کا ملاپ اور ایک ذمہ داری ہے۔ لیکن آج کل رشتوں میں درپیش مسائل نے سب کو پریشان کیا ہوا ہے۔ مناسب رشتوں کا نہ ملنا یا شادی میں تاخیر جیسے مسائل معاشرے میں عام ہو چکے ہیں۔ جن کی چند ایک وجوہات یہ ہو سکتی ہیں۔
عمر کی زیادتی
رشتوں میں درپیش مشکلات کی بات کی جائے تو عمر ایک اہم مسئلہ بن کے سامنے آتی ہے۔ کم عمر لڑکیاں ہر دور میں لڑکے والوں کی ترجیح رہی ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی لڑکیوں میں ہر طرح کے ماحول میں ڈھلنے کی صلاحیت نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔ زمانے کے چال چلن سے زیادہ واقف نہ ہونے اور کم تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے ان کی خواہشات اور ترجیحات بھی کم ہوتی ہیں۔ اور وہ نئے گھر اور نئے لوگوں میں جلدی گھل مل جاتی ہیں۔ اگر لڑکی اعلی تعلیم اور اس کے بعد نوکری کر کے معاشی طور پر مضبوط ہونے کی خواہش رکھتی ہو تو اس مقام تک پہنچتے پہنچتے اس کی عمر زیادہ ہو جاتی ہے۔ جس وجہ سے رشتہ کی تلاش میں مشکلات آتی ہیں۔
معاشی طور پر کمزور خاندان
اگر لڑکی کا خاندان معاشی طور پر زیادہ مضبوط نہ ہو تو اس وجہ سے بھی رشتوں میں درپیش مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور شادی میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ لڑکے والوں کے بڑھتے ہوئے مطالبات اور خاندان میں اپنا بھرم قائم رکھنے کی کوشش میں لڑکیوں کی شادی کی عمر نکلتی چلی جاتی ہے۔ معاشی بحران کے اس دور میں جہیز کی تیاری جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ جہیز کی وہ مقدار جو معاشرے میں بلا مطالبہ ایک معیار کے طور پر رائج ہو چکی ہے۔ وہ متوسط اور نچلے طبقے کی پہنچ سے باہر ہے۔ جہیز جمع کرنے اور شادی کے دیگر اخراجات کی بڑھتی ہوئی فہرست لڑکی کے بالوں میں چاندی کے تار لے آتی ہے۔
رشتوں کا محدود دائرہ
رشتوں میں درپیش مشکلات کا ایک اہم سبب رشتوں ک ادائرہ محدود کر لینا ہے۔ ذات پات، برادری اور قومیت آج بھی کچھ خاندانوں کے لیے اصل معیار ہیں۔ ان سے باہر کتنے ہی اچھے رشتے مل رہے ہوں ۔لیکن لوگ اس دائرہ سے باہر نکلنا پسند نہیں کرتے۔ جن دو خاندانوں میں رشتہ ہونے جا رہا ہوتا ہے۔ ان کا رہن سہن ہم آہنگ ہونے سے لڑکی اور لڑکے کے لئے مشکلات نسبتاً کم ہو جاتی ہیں۔ اور یہ بات قابلِ اعتراض بھی نہیں۔
خوشگوار مستقبل اور ذہنی ہم آہنگی کے لیے ایسا کرنا ایک درست عمل ہے۔ مگر یہ چیز اس وقت قابل مذمت ہوجاتی ہے جب اسے رشتے کا معیار قرار دے دیا جائے۔ اور دوسری سب باتوں کو نظر انداز کر کے صرف ذات، برادری اور قومیت کی بنیاد پر کسی رشتہ سے انکار کیا جائے۔ چاہے اس کا نتیجہ شادی کی عمر نکل جانے یا بے جوڑ شادیوں کی صورت ہی کیوں نہ نکلے۔
بڑھتے مطالبات
معاشی طور پر مستحکم خاندان میں بیٹی کا رشتہ طے کرنا معاشرے میں قابلِ ترجیح صورت اختیار کر چکا ہے۔ اور یہ چیز رشتوں میں درپیش مشکلات میں اضافہ کرتی ہے۔ لڑکا کم عمر بھی ہو اور اچھی ملازمت یا کاروبار کا مالک بھی۔ یہ شرائط صرف متمول خاندانوں کے چشم و چراغ ہی پوری کرسکتے ہیں۔ ایک عام شخص کو کسی بلند مقام تک پہنچنے کے لئے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ نوجوانی کی عمر گزر جاتی ہے۔
دوسری طرف لڑکے والوں کو بھی خاندان میں اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے کم عمر، تعلیم یافتہ، خوشحال خاندان کی خوبصورت لڑکی چاہئیے ہوتی ہے۔ ان میں سے کسی ایک کمی پر بھی وہ سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ ان باتوں کی وجہ سے نوجوان نسل میں نفسیاتی مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔
شادی سے متعلق غلط تصورات
ہمارے معاشرے میں نکاح کو اس کے فطری مقام سے ہٹادیا گیا ہے۔ اللہ نے غذا، پانی اور لباس کی طرح نکاح کو بھی انسان کی ایک بنیادی ضرورت بنایا ہے۔ یہ ہر نوجوان لڑکے اور لڑکی کی فطری ضرورت ہے جس پر کسی دوسری چیز کو ترجیح نہیں دی جانی چاہئے۔ بلوغت کی عمر کو پہنچنے پر اولاد کا نکاح والدین کی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں شادی سے متعلق جو چند غلط تصورات فروغ پا گئے ہیں، ان کا تدراک بھی ضروری ہے۔
جیسے کہ عمومی خیال ہے اگر لڑکی پڑھ رہی ہے تو اس کی تعلیم مکمل ہونے سے پہلے شادی نہیں ہو سکتی۔ لیکن تعلیم مکمل ہونے تک کچھ لڑکیوں کی عمر زیادہ ہو جاتی ہے۔ جو بیشتر لڑکے والوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوتی۔ یا جس گھر میں ایک سے زیادہ بیٹیاں موجود ہیں۔ تو جب تک بڑی بیٹی کی شادی نہ ہو جائے چھوٹی بیٹیوں کے بارے میں سوچنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بڑی کے لئے رشتے کے انتظار میں چھوٹی بیٹیوں کی شادی کی عمر بھی نکل جاتی ہے۔
کچھ خاندانوں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب تک گھر میں موجود بیٹیوں کی شادی نہ ہو جائے، بیٹے کی شادی نہیں کی جاتی۔ اور یوں بیٹیوں کے رشتے اور رخصتی ہو جانے تک لڑکے کی شادی بھی موخر کر دی جاتی ہے۔ اس صورتحال میں رشتوں میں درپیش مشکلات کم ہونے کی بجائے بڑھ جاتی ہیں۔
آن لائن شادی ویب سائٹ اور شادی دفاتر سے استفادہ نہ کرنا
معاشرہ جتنی بھی ترقی کر جائے لیکن کچھ معاملات ایسے ہیں جن میں لوگوں کی سوچ روایتی ہی رہتی ہے۔ شادی جیسے معاملات میں بھی وہ شادی دفتر یا آن لائن خدمات سے استفادہ نہیں کرنا چاہتے۔ اگرچہ اب بہت سے با اعتماد ادارے اور پرخلوص لوگ اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں۔ لیکن اکثریت ان پر عدم اعتماد کا اظہار کرتی نظر آتی ہے۔ اور شادی بیاہ کے لئے وہی روایتی طریقے اپناتی ہے۔ جس کی وجہ سے دستیاب رشتوں کا دائرہ کار محدود ہو جاتا ہے۔
آج کل معاشرے میں غیر ضروری تعیشات، بڑھتے مطالبات اور رسم و رواج غیر معمولی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ نکاح کی اہمیت اور ضرورت کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اچھی ملازمت، روپیہ پیسہ اور دیگر اشیائے تعیشات کو ہی معیار سمجھ لیا گیا ہے۔ ان تعیشات کے پیچھے بھاگتے بھاگتے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایک پاکیزہ، مستحکم پر لطف زندگی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ معاشرے میں بگاڑ اور بےچینی پیدا ہوتی ہے۔ ضروری ہے کہ مصنوعی طرز زندگی اور غیر ضروری رسوم و رواج کو ترک کر دیا جائے۔ اور مناسب عمر میں نکاح کو فروغ دیا جائے۔ جب لوگ اس بات کو سمجھ لیں گے۔ تو شادی اور رشتوں میں درپیش مشکلات اور مسائل کا خود ہی خاتمہ ہوجائے گا۔
وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق جہاں سب گھرانے اورکچھ حالات میں بہت سے ادارے اس کام کو انجام دے رہے ہیں وہیں سپمل رشتہ بھی والدین کواس ذمہ داری سے بخوبی نبرد آزما کرنے کا عزم لئے کوششیں کر رہا ہے۔ جس کا ثبوت ان کا پر اعتماد عملہ، جدید طریقہ کار سے رشتوں کی تلاش اور سب سے بڑھ کر مکمل تصدیق شدہ رشتے فراہم کرنا ہے۔ ہم بچوں کے رشتوں میں درپیش مشکلات کو ختم کرنے کے لئے پر عزم ہیں۔ اور امید کرتے ہیں کہ آپ بھی ہمارا ساتھ دیں گے۔
درست نشاندہی کی آپ نے۔۔ اللہ سب بیٹی کا نصیب اچھا کرے۔ آمین
Ab to lerkon ki shaadi bhi mushkil ho gayi hai.