یوں تو زندگی کئی ادوار پر مشتمل ہے۔ لیکن اگر اسے دو حصوں میں تقسیم کرنا ہو تو دو ادوار ہی قابل ذکر ہوتے ہیں۔ ایک شادی سے پہلے اور ایک شادی کے بعد کا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ قابل ذکر دور تو شادی کے بعد کا ہی ہوتا ہے۔ اس سے پہلے تو بچپنا ہوتا ہے۔ لیکن اسی بچپنے میں نوجوان یہی راگ الاپتے کہ ” میری شادی کب ہو گی؟ ” شادی کی دہلیز تک پہنچ جاتے ہیں۔
سندھی زبان کے ایک مزاح نگار حلیم بروہی کا کہنا ہے کہ "اگر عشق کیا ہے تو پھر شادی نہ کرنا"۔
وہ لوگ جو شادی کا لڈو چکھ چکے ہیں۔ شاید اس بات سے اتفاق کریں گے۔ کیونکہ شادی اور اس کے بعد کے دور کے بارے میں تو ایک شادی زدہ ہی بہتر جانتا ہے۔ وہ سکے کے دونوں رخ دیکھ چکا ہوتا ہے۔ شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کی زندگی کیسی ہوتی ہے۔ اس کا تجربہ کر چکا ہوتا ہے۔
میری شادی کب ہو گی؟
ایک شادی شدہ انسان کی زندگی کیسی ہوتی ہے۔ کنوارے شاید اس حالت اور کیفیت کو نہ سمجھ سکیں۔ کیونکہ وہ تو ابھی ” میری شادی کب ہو گی؟ ” کے خواب دیکھنے میں مگن ہوتے ہیں۔ انہیں علم ہی نہیں ہوتا کہ شادی شدہ زندگی ایک ترازو کی مانند ہے۔ جس کے دونوں پلڑوں میں توازن قائم کرتے ان کی ساری عمر گزر جانی ہے۔
” میری شادی کب ہو گی؟ ” کا راگ الاپنے والے نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ شادی کے بعد وہ اپنی ایک دنیا بنائیں گے۔ جہاں صرف محبت ہی محبت ہو گی۔ لیکن شادی کے بعد انہیں پتا چلتا ہے کہ جس شادی کو وہ آرٹ سمجھ رہے تھے۔ وہ دراصل مارشل آرٹ ہے۔ بقول عطاء الحق قاسمی ” جب آدمی شادی کرتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ اصل خوشی کیا ہے۔ مگر تب تک دیر ہو چکی ہوتی ہے"۔
بقول شخصے۔۔
شادی کے جو فسانے ہیں رنگین بہت ہیں
لیکن جو حقائق ہیں وہ سنگین بہت ہیں
مزاح برطرف لیکن شادی ایک نہایت سنجیدہ معاملہ ہے۔ وہ نوجوان جن کے ذہنوں میں یہ جملہ گردش کرتا رہتا ہے کہ میری شادی کب ہو گی؟ قصور وار وہ نہیں۔ بلکہ ہمارا معاشرہ ہے۔ جہاں بچے کے بلوغت میں قدم رکھتے ہی گھر کے بڑے بزرگ خواہ مذاق میں ہی سہی۔ لیکن ان کی شادی کا تذکرہ شروع کر دیتے ہیں۔
بچیوں کی مائیں ان کے بڑے ہوتے ہی جہیز کی فکر میں لگ جاتی ہیں۔ لڑکوں کو اٹھتے بیٹھتے یہی بات کہی جاتی ہے کہ پڑھ لکھ کر کوئی اچھی نوکری ڈھونڈ لو۔ ورنہ کسی نے رشتہ نہیں دینا۔ خاندان میں کسی کی شادی کم عمری میں ہو جائے تو باقی سب کو فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ کہ ہمارے بچوں کی شادی کب ہو گی۔ ان حالات میں نوجوان اگر شادی کو ہی زندگی کا اوڑھنا بچھونا سمجھنے لگیں تو کچھ غلط نہیں۔
دیکھا جائے تو والدین کی فکر بے جا بھی نہیں۔ معاشرہ بہت سی تبدیلیوں کا شکار ہو چکا ہے۔ جہاں ایک طرف تعلیم کی اہمیت بڑھی ہے۔ وہیں دوسری طرف شادی دیر سے کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ لڑکی ہو یا لڑکا، تعلیم کے بعد ملازمت کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔ اس سب کے باوجود یہ تمنا کہ ” میری شادی کب ہو گی؟ ” اپنی جگہ پر قائم ہے۔ لیکن زیادہ تر نوجوان حقیقت پسند بنتے ہوئے اپنا مستقبل محفوظ کرنے کی پلاننگ کرتے ہیں۔
شادی سے پہلے عملی اقدامات
نکاح اور شادی محض چند دنوں کی تقریب نہیں بلکہ زندگی بھر کی ذمہ داری ہے۔ ایک عہد ہے جس میں فریقین زندگی بھر ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ آپ ایک صحت مند زندگی کی بنیاد رکھنے کے لئے تیار ہیں۔ اس کے لئے ان اقدامات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
تعلیم اور ملازمت
شادی شدہ زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے برسر روزگار ہونا نہایت ضروری ہے۔ آپ خواہ اعلی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یا بنیادی تعلیم حاصل کر کے کوئی کام یا ملازمت شروع کرنا چاہتے ہیں۔ اس بارے میں مکمل سوچ بچار اور والدین سے مشورہ نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ شادی کے بعد اہل و عیال آپ کی زمہ داری ہوں گے۔ آپ کے والدین کی نہیں۔ لڑکی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرے کیونکہ انے والی نسل کے لئے پہلی درسگاہ ماں کی گود ہی ہوتی ہے۔
قریبی رشتوں کا مشاہدہ
اپنے آس پاس موجود رشتوں کا مشاہدہ کریں۔ ازدواجی زندگی میں کیا مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ لوگ ان سے کیسے نمٹتے ہیں۔ شادی میں کیا توقعات رکھی جائیں۔ مختلف حالات میں کیسے گزارہ کیا جائے۔ اس سب کا مشاہدہ شادی سے پہلے ضرور ہونا چاہئیے۔
رشتوں میں توازن برقرار رکھنا
تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کا طریقہ سیکھیں۔ زندگی کے دوسرے پہلوؤں کے ساتھ رشتوں اور تعلقات کو متوازن رکھنا بہت ضروری ہے۔ اپنے وقت، توانائی اور جذبات کا مؤثر طریقے سے اظہار اور انتظام کرنا سیکھیں۔ سمجھوتہ، گفت و شنید اور باہمی احترام کی اہمیت کو سمجھنا آپ کے تعلقات میں ہم آہنگی کو برقرار رکھنے میں مدد کر سکتا ہے۔ ذاتی اور مشترکہ ذمہ داریوں کو متوازن کرنے کے قابل ہونا ہی ایک کامیاب شادی کی کلید ہے۔
مالی استحکام
مالی استحکام ایک مضبوط شادی کا سنگ بنیاد ہے۔ شادی سے پہلے اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ مالی طور پر اس قابل ہیں کہ شادی کی ذمہ داریاں اٹھا سکیں۔ کچھ بچت کر سکیں۔ کیونکہ مالی استحکام غیر ضروری تناؤ اور تنازعات سے بچنے میں بھی مدد کرتا ہے۔
اپنی ترجیحات کو سمجھیں
شادی سے پہلے اپنی سوچ، خواہشات اور ترجیاحت کے بارے میں جان لیں۔ آپ کو کیسا شریک حیات چاہئیے۔ آپ ہونے والے شریک حیات میں کیا خوبیاں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اپنے والدین کو اپنی ترجیحات سے اگاہ کریں۔ شادی خواہ والدین کی پسند سے ہو یا آپ کی۔ ترجیحات واضح ہونا ضروری ہیں۔ ممکن ہے آپ کے والدین آپ کی شریک حیات کو لے کر کچھ اور خواہشات رکھتے ہوں۔ اس لئے شادی سے پہلے اس پر بات کرنا نہایت ضروری ہے۔
ذاتی مسائل حل کریں
شادی سے پہلے ہر قسم کے مسائل، چاہے وہ جذباتی ہوں، نفسیاتی یا جسمانی، ان کا حل ضروری ہے۔ علاج یا مشاورت اس عمل میں فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔ شادی کے بعد تعلقات کسی پیچیدگی کا شکار نہ ہوں۔ اس کے لئے اس نکت ہر غور کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔
گفتگو میں مہارت
اچھی اور موثر گفتگو کرنے والے لوگ سب کے آئیڈیل ہوتے ہیں۔ اپنے خیالات اور احساسات کو واضح طور پر بیان کرنا سیکھیں۔ اچھی بات چیت تنازعات کو حل کرنے، اعتماد پیدا کرنے اور آپ کے تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد کرتی ہے۔ باہمی افہام و تفہیم کو یقینی بنانے کے لیے کھلی اور ایماندارانہ گفتگو کی مشق ہر رشتے کے لئے نہایت ضروری ہے۔
حقیقت پسندانہ توقعات
کوئی بھی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا ہے۔ اپنے جیون ساتھی کے لیے حقیقت پسندانہ توقعات رکھیں۔ اس بات کو قبول کریں کہ شادی شدہ زندگی میں اتار چڑھاؤ ہوں گے۔ اور ان کے حل کے لیے ذہنی طور پر خود کو تیار کریں۔ غیر حقیقی توقعات مایوسی اور تعلقات میں تناؤ کا باعث بن سکتی ہیں۔
یہ چند نکات اور اقدامات ہیں جوایک کامیاب شادی کی بنیاد قائم کرنے میں مدد دے سکتےہیں۔ لہذا جب آپ کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ ” میری شادی کب ہو گی؟ ” تب ان نکات کو ذہن میں لائیں اور خود کو شادی کے لئے عملی طور پر تیار کریں۔