نکاح ایک مرد اورعورت کے درمیان دائمی رشتہ اور تعلق قائم کرتا ہے۔ اللہ نے نکاح کو عبادت کا درجہ دیا ہے۔ اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے۔ اس سے نہ صرف نسل انسانی آگے بڑھتی ہے۔ بلکہ یہ ایک مسلمان کے ایمان کی تکمیل کا باعث بھی ہے۔ نکاح کا اہم مقصد جہاں عفت وعصمت کی حفاظت ہے۔ وہیں یہ انسانی زندگی کی اہم ترین ضرورت ہے۔ تاکہ انسان جائز طریقے سے اپنی خواہشات پوری کر سکے۔ ذیل میں نکاح کی اقسام بیان کی گئی ہیں۔ نیز نکاح کی شرائط کیا ہیں وہ واضح کی گئی ہیں۔ جن کا جاننا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔ 

نکاح کی اقسام 

نکاح کی درج ذیل اقسام ہیں۔ سب سے پہلی نکاح مسنون، دوسری شغار، پھر نکاح حلالہ، اور متعہ یا مسیار   

۱- نکاح مسنون 

ولی کی سرپرستی میں زندگی بھر ساتھ نبھانے کی نیت سے کیا گیا عقد نکاح مسنون کہلاتا ہے۔ نکاح خوان یا لڑکی کا کوئی قریبی رشتہ دار لڑکی سے نکاح کی اجازت لے آئے۔ اس کے بعد کم ازکم دو مسلم گواہوں کے سامنے نکاح کا خطبہ پڑھا جائے اور لڑکے سے ایجاب و قبول کروایا جائے۔ جو حق مہر مقرر کیا جائے نکاح خواں اس کا اعلان بھی کرے۔ یعنی خطبہ مسنونہ میں نکاح کے کلمات کے ساتھ حق مہر کا اعلان بھی ہو۔  

نکاح مسنون کا ایک اہم حصہ نکاح کوآسان بنانا ہے۔ یعنی اعتدال میں رہتے ہوئے، فضول خرچی اور اسراف سے بچ کر نکاح کو انجام دیا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ 

 ان اعظم النکاح ایسرہ مؤنۃ 

 بابرکت نکاح وہ ہے جس کا خرچ کم سے کم اور ہلکا ہو۔ 

بہترین طریقہ یہ ہے کہ نکاح کا ارادہ رکھنے والا شخص یا اس کے گھر والے لڑکی کے گھر والوں سے مل کر تمام معاملات پر بات چیت کر لیں۔ پھر انتہائی سادگی سے مسجد میں نکاح کو انجام دیا جائے۔ لڑکا اپنی حیثیت کے مطابق حق مہر مقرر کرے۔ ولیمہ بھی نمائش یا نام و نمود کی نیت سے نہ کیا جائے۔ بلکہ اس کا مقصد اتباع سنت ہو۔ کیونکہ شادی جتنی سادگی سے کی جائے اس میں اتنی ہی خیر و برکت ہو گی۔ 

۲- نکاح شغار 

نکاح شغار اس نکاح کو کہتے ہیں جس میں ایک شادی کو دوسری سے مشروط کیا جائے۔ یعنی وٹہ سٹہ کی شادی ہو۔ لیکن یہاں وٹہ سٹہ سے مراد وہ روایت نہیں ہے جو ہمارے ہاں عام ہے۔ بلکہ کوئی شخص اپنی بیٹی یا اپنے زیر ولایت کسی لڑکی کا نکاح اس شرط پر کرے کہ بدلے میں اسے بھی رشتہ دیا جائے گا۔ اور دونوں کے لئے کوئی حق مہر مقرر نہیں کیا جائے گا۔ صرف لڑکیوں کا تبادلہ ہو گا۔ ایسا نکاح حلال نہیں۔ اگر کر دیا جائے تو وہ فسخ ہو جائے گا۔ 

اس نکاح کی ممانعت اس لئےہے کہ ایک لڑکی کو دوسری لڑکی کے عوض بیاہ دیا گیا۔ اور دونوں کو حق مہر نہ ملا۔ بلکہ حق مہر ان کے ولی کے مفاد میں چلا گیا۔ کیونکہ اسے اپنی بیٹی یا زیر ولایت بچی کے بدلے رشتہ مل گیا۔ 

نکاح شغار کے جائز نہ ہونے کا حکم صرف بیٹی یا بہن پر ہی نہیں ہے۔  بلکہ اس میں وہ تمام لڑکیاں شامل ہیں جو کسی شخص کی زیرِ ولایت  ہوں۔ اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ بھتیجی، بھانجی، پھوپھی یا چچا کی بیٹیاں، نیز لونڈیوں کے لئے بھی یہی حکم ہے۔ کہ ایسا نکاح فسخ ہو جاتا ہے۔  

البتہ حنفی فقہائے کرام نکاح ہو جانے پر اسے برقرار رکھتے ہیں۔ اوردونوں لڑکیوں کیلیے مہر مثل واجب ٹھہراتے ہیں۔ یعنی ان کے نزدیک اگر حق مہر ادا کر دیا جائے تو پھر یہ نکاح شغار نہیں رہتا۔ اور جائز ہو جاتا ہے۔ 

جبکہ مالکی فقہائے کرام کے مطابق اگر خلوت اور صحبت قائم نہیں ہوئی۔ تو ایسے نکاح کو فسخ کرنا مستحب ہے۔ لیکن اگر صحبت قائم ہو گئی تو نکاح کے صحیح ہونے کا حکم لگایا جاتا ہے۔ اوراس میں مہر مثل ہو گا یا مقرر کردہ مہر ہو گا۔ 

۳- نکاح متعہ یا نکاح مسیار 

متعہ، نکاح کی ایک قسم ہے جو اسلام سے پہلے رائج تھی۔ یہ دراصل وقتی نکاح تھا۔ جو بعد میں بالاجماع حرام ٹھہرا دیا گیا۔ نکاح کی اقسام بیان کرتے ہوئے نکاح متعہ کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ یہ دراصل وقتی شادی ہے۔ جو احکام کے اعتبار سے دائمی شادی کی طرح ہی ہے۔ لیکن اس کے بعض مسائل مختلف ہیں۔  

نکاحِ متعہ میں نکاح کی مدت اور دیگر شرائط پر اتفاق کیا جاتا ہے۔ اور یہ نکاح چند گھنٹوں سے لے کر کئی سالوں تک کے لیے ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان نکاحِ متعہ کے حوالے سے تضاد پایا جاتا ہے اہل تشیع کا ماننا ہے کہ اس کی اجازت مذہب میں دی گئی ہے۔ اور وہ اسے جائز سمجھتے ہیں۔  ایران اور عراق کے کچھ علاقوں کے علاوہ یورپ میں اس کا رواج کسی حد تک موجود ہے۔ جبکہ اہل سنت کا کہنا ہے کہ یہ حرام ہے۔  

نکاح مسیار کی بات کی جائے تو مسیار ‘سیر’ سے نکلا ہے۔ جو شخص اکثر سفر میں رہتا ہے اسے مسیار کہا جاتا ہے۔ مسیار اس نکاح کو کہتے ہیں جس نکاح میں آسانی ہو۔ دو فریقین کچھ شرائط کے تحت نکاح کر لیں۔ لیکن شرائط غیر شرعی نہ ہوں۔ مثال کے طور پر کوئی مرد تعلیم یا کام کی غرض سے کسی دوسرے ملک میں رہائش پذیر ہے۔ اپنی جسمانی اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے اس شرط پر نکاح کرنا چاہے کہ وہ بیوی کے نان و نفقہ کی ذمہ داری نہیں اٹھائے گا۔ یا کوئی عمر رسیدہ عورت اپنے حقوق سے دستبردار ہونے کی شرط پر کسی مرد سے نکاح کر لے۔ اہل سنت میں مصر، مراکش، تیونس کے علاوہ یورپ میں بھی اس نکاح کا رواج موجود ہے 

بعض افراد نکاح متعہ اور نکاح مسیار کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔ لیکن ان میں یہ فرق ہے کہ متعہ میں طلاق کا وقت پہلے سے ہی مقرر ہوتا ہے کہ اتنے مہینوں تک نکاح رہے گا اس کے بعد طلاق دے دی جائے گی۔ جبکہ نکاح مسیار میں وقت کی قید نہیں ہوتی۔  

شریعت میں ان دونوں نکاح کی ممانعت ہے۔ کیونکہ نکاح ایک دائمی رشتہ ہے۔   صرف نکاح کا مقصد محض جنسی تسکین نہیں۔ بلکہ یہ ایک مکمل معاہدہ ہے۔ جس میں مرد کسب معاش، نان و نفقہ، سکونت اور لباس کی فراہمی کا ذمہ دار ہے۔ جبکہ عورت کے ذمہ حمل ورضاعت اور اولاد کی تربیت ہے۔ 

نکاح شوہر اور بیوی کو پابند کرتا ہے کہ دونوں مل جل کر زندگی کے تمام معاملات، خوشی غمی، عُسریُسر، شادابی و تابانی اور سرد و گرم حالات کا سامنا کریں۔ ایسے میں نکاح متعی یا مسیار کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔ جو صرف عارضی فائدہ حاصل کرنے کے لئے کیا جائے۔ اسلام کی واضح تعلیمات کے باوجود آج بھی چند نکاح کی اقسام ایسی ہیں جو دین کے سراسر خلاف ہیں۔ لیکن پھر بھی رائج ہیں۔ ان نکاح کی اقسام میں متعہ اور مسیار بھی شامل ہیں۔  

۴- نکاح حلالہ 

حلالہ سے مراد ہے کسی چیز کو شرعا اپنے لئے حلال یا جائز بنا لینا۔ نکاح حلالہ کا مطلب یہ ہے کہ ایک طلاق یافتہ عورت نکاح حلالہ مکمل ہونے کے بعد اپنے سابق شوہر کے لیے دوبارہ حلال ہو سکتی ہے۔ 

شریعت کے مطابق ایک شخص اگر دو بار اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو واپس رجوع کر سکتا ہے۔ لیکن تیسری بار طلاق دینے کی صورت میں اس کی بیوی اس کے لئے حلال نہیں رہے گی۔ اس سے دوبار شادی اسی صورت میں ہو سکتی ہے۔ اگر وہ عورت کسی دوسرے مرد سے شادی کرے۔ شادی کی تمام شرائط پوری کرے۔ اور اس کی نیت فوری طلاق لے کر پہلے شوہر سے شادی ہرگز نہ ہو۔ پھر اگر اس کا دوسرا شوہر وفات پا جائے یا کسی وجہ سے اسے طلاق دے دے۔ تو وہ اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے۔  

بالفرض دوسرا شوہر نکاح کے بعد جنسی تعلق قائم کرنے سے پہلے ہی وفات پا جائے۔ یا صحبت سے پہلے ہی طلاق دے دے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اور وہ عورت اس صورت حال میں پہلے شوہر سے شادی نہیں کر سکتی۔ یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ حلالہ  کرنے کی شرط  پر نکاح کرنا تو مکروہ تحریمی ہے۔ اور نکاحِ حلالہ اکثر اہل علم کے مطابق حرام اور باطل ہے۔  

نکاح کی شرائط 

نکاح کی اقسام جاننے کے بعد یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ نکاح کی شرائط کیا ہیں۔ 

۱- نکاح کی پہلی شرط یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں نکاح کے لئے راضی ہوں۔ ایجاب و قبول کریں۔ اور یہ ایجاب و قبول ایک ہی محفل میں ہو۔ 

۲- نکاح کے لئے حق مہ لازم ہے۔ اور لڑکے کی حیثیت کے مطابق رکھا جائے۔ اسلام میں کوئی شرعی حق مہر نہیں ہے۔ بلکہ یہ لڑکے کی آمدنی کے متناسب مقرر کیا جائے۔ جو نہ بہت قلیل ہو اور نہ ہی حد سے متجاوز ہو۔ 

۳- نکاح کے لئے مرد اور عورت دونوں کی طرف سے دو عاقل و بالغ مسلمان گواہان کی موجودگی ضروری ہے۔  

۴- نکاح علی الاعلان ہو۔ چھپ کر کئے جانے والا نکاح یا خفیہ نکاح کا اسلام میں کوئی تصور نہیں۔  

دور جاہلیت میں رائج نکاح کی اقسام 

دور جاہلیت میں جنسی تسکین کے کئی طریقے رائج تھے۔ جو نکاح کی فہرست میں شامل تھے۔ لیکن حقیقت میں وہ نکاح کی معنویت سے خالی تھے۔  

۱- نکاح مقت 

مقت کے معنی ناپسندیدگی کے ہیں۔ یا ایسی نفرت اور بغض جو کسی گناہ یا شک کی بدولت مغبوض سے رکھا جائے۔ اس نکاح میں باپ کے طلاق دینے یا وفات پا جانے کے بعد بیٹا اپنے باپ کی بیوہ سے نکاح کر لیتا تھا۔ علامہ زبیدی کے مطابق باپ کی منکوحہ سے نکاح دور جاہلیت میں مذموم اور مغبوض تھا۔ 

۲- نکاح الخدن 

دور جاہلیت میں رائج نکاح کی اقسام میں سے ایک یہ ھی تھی کہ مرد کسی عورت کو اپنے گھر بغیر نکاح، خطبہ اور مہر کے رکھ لیتا۔ اور اس سے ازدواجی تعلقات قائم کر لیتا۔ اور بعد ازاں یہ تعلق باہمی رضا مندی سے ختم ہو جاتا۔ اس میں کسی قسم کی طلاق کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر اولاد پیدا ہو جاتی تو وہ ماں کی طرف منسوب ہوتی۔ 

۳- نکاح الضغینہ 

 دور جاہلیت میں جنگ کے بعد فاتح کے لیے مفتوح کی عورتیں، مال وغیرہ سب مباح ہوتا تھا۔ قیدی عورتیں فاتح کی ملکیت ہو جاتیں۔ وہ چاہتا تو انھیں بیچ دیتا۔ یا یونہی چھوڑ دیتا ۔ اور چاہتا تو ان سے جسمانی تعلق قائم کرتا یا کسی دوسرے شخص کو تحفہ میں دے دیتا۔ اس نکاح میں کسی خطبہ، مہر یا ایجاب و قبول کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ 

۴- نکاح الاستبضاع 

اس نکاح میں ایک شخص اپنی بیوی کو کسی دوسرے خوبصورت مرد کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کرنے کے لیے بھیج دیتا اور خود اس سے الگ رہتا۔ جب تک کہ مطلوبہ شخص سے حمل نہ قرار پا جاتا۔ حمل ظاہر ہونے کے بعد وہ چاہتا تو اس سے جماع کرسکتا تھا۔ اس نکاح کا مقصد خوبصورت نسل اور عمدہ نسب کا حصول تھا۔ 

۵- نکاح الرہط 

نکاح کی اقسام میں سے ایک قسم نکاح الرہط بھی تھی۔ یہ ایک قسم کا اجتماعی نکاح تھا۔اس میں اندازا دس مرد ایک ہی عورت کے لیے جمع ہوتے۔ اور ہر ایک اس سے جنسی تعلق قائم کرتا۔ جب اس کے ہاں اولاد ہوتی تو وہ عورت ان سب مردوں کو بلاتی۔ اور جسے چاہتی اس بچے کا وارث قرار دے دیتی۔ اور بچے کا نام رکھنے کو کہتی۔ وہ مرد بھی کسی پس و پیش کے بغیر اسے قبول کر لیتا۔ 

۶- نکاح البغایا 

یہ نکاح بھی نکاح رہط سے ملتا جلتا ہے۔ مگر اس میں فرق یہ تھا کہ اس میں دس سے زیادہ افراد بھی ہو سکتے تھے۔ دوسرے یہ کہ ان مردوں سے بچہ منسوب کرنا عورت کا کام نہیں ہوتا تھا۔ بعض روایات کے مطابق کچھ فاحشہ عورتوں کے دروازوں پر جھنڈے لگے رہتے تھے۔ مرد ان سے تعلق قائم کرتے۔ جب ان کے یہاں بچہ پیدا ہوتا تو قیافہ شناس کو بلایا جاتا تھا۔ اور وہ اپنے قیافہ سے کسی ایک مرد کی نشاندہی کرتا تھا اور مرد اس سے انکار نہیں کر سکتا تھا۔ 

جنسی خواہشات کی تسکین انسان کی فطری ضرورت ہے۔ جسے پورا کرنے کے لئے اللہ نے انسان کو چند حدود و قیود کا پابند کیا۔ شریعت نے انسان کو اپنی فطری خواہشات کی تکمیل کی اجازت تو دی لیکن اسے نکاح کا پابند کر دیا۔ تا کہ جنسی خواہشات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ توالد و تناسل کا سلسلہ بھی قائم رہے۔ آپ ﷺ نے نکاح کرنے کو اپنی سنت اور نکاح نہ کرنے کو رہبانیت قرار دیا ہے۔ نیز نکاح میں بہت سے دینی و دنیاوی فائدے ہیں۔ لہذا ایک پرسکون زندگی کے لئے نکاح ضروری ہے۔ 

Simple Rishta

Simple Rishta

We are available from : 10:00 AM to 10:00 PM (Monday to Friday)

I will be back soon

Simple Rishta
Hey there 👋
How can we help you?
Messenger