سائنسی ترقی نے جہاں نت نئے تجربات سے دنیا کی کایا پلٹی ہے۔ علوم کو نئے زاویے عطا کئے ہیں۔ تحقیق کی دنیا میں انقلاب برپا کیا ہے۔ پیچیدہ اور ناممکن سمجھے جانے والے امراض کا علاج دریافت کیا ہے۔ وہیں کچھ قدرتی عوامل کے سامنے سائنس آج بھی بے بس دکھائی دیتی ہے۔ جہاں کہیں کزن میرج کی بات آتی ہے وہاں اس کا حل صرف احتیاط ہی تجویز کیا جاتا ہے۔ کزن میرج کے کیا فوائد و نقصانات ہیں۔ کزن میرج اور اسلام سے متعلق حقائق کیا ہیں۔ آئیے جانتے ہیں۔
پاکستان میں زیادہ تر رشتے خاندان میں ہی کئے جاتے ہیں۔ اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کا رواج کافی حد تک کم ہوا ہے۔ لیکن آج بھی چند خاندان اسی کو فوقیت دیتے ہیں کہ بچون کی شادی خاندان میں ہی کی جائے۔ مغربی ممالک نے تو اس کی روک تھام کے لئے قوانین وضع کر لئے ہیں لیکن پاکستان میں فی الحال ایسی کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ چند تنظمیں اپنے طور میڈیا پر اس کی آگاہی پھیلاتی ہیں لیکن حکومتی سطح پر ایسا کوئی قانون نہیں بنا جو کزن میرج کی ممانعت کرے۔
کیونکہ اگر کوئی قانون وضع کرنے کا سوچا گیا تو دینی طبقہ کزن میرج اور اسلام سے متعلق ایسی کوئی اصلاحات کرنے کے حق میں نہیں ہو گا۔ ان کے پاس دلائل میں پیش کرنے کو مختلف مثالیں ہوں گی۔ جنہیں کوئی نہیں جھٹلا سکتا۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے اپنی پھوپھی زاد حضرت زینب بنت جحش سے شادی کی۔ جو آپ ﷺ کی کزن لگتی تھیں۔ اسی طرح حضرت عمر نے بھی اپنی چچا زاد عاتکہ بنت زید سے شادی کی تھی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی بھی خاندان میں ہی ہوئی تھی۔
کزن میرج اور اسلام
دین اسلام زندگی کے ہر پہلو کی رہنمائی فرماتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
اے نبی! ہم نے تمہارے لئے حلال کر دیں تمہاری وہ بیویاں جن کے مہر تم نے ادا کئے ہیں۔ اور وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے تمہاری ملکیت میں آئیں۔ اور تمہاری وہ چچا زاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد اور خالہ زاد بہنیں جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی ہے۔ (الاحزاب: ۵۰)
اس آیت میں ان تمام رشتوں کا بیان ہے جو ہمارے لئے حلال ہیں۔ اگر طبی نقطہ نظر سے ان میں کوئی خرابی ہوتی تو اللہ تعالیٰ حضرت محمد ﷺ کو اس سے منع کر دیتے۔ اور امت پر بھی پابندی لگا دیتے۔ لیکن قرآن میں اس کی ترغیب دی گئی ہے۔
وہ رشتےجن میں کوئی اخلاقی یا روحانی خطرہ تھا۔ ان پر پابندی لگائی گئی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ نے پھوپھی اور بھتیجی، نیز خالہ اور بھانجی کے علاوہ دو حقیقی بہنوں کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنے کو حرام قرار دیا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے۔
اوریہ کہ تم دو بہنوں کو جمع کرو (النساء)
لہذا کزن میرج کی وجہ سے جن خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ان کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں۔ لیکن دوسری جانب اس بات سے بھی انکارممکن نہیں کہ بعض موروثی امراض والدین سے اولاد میں منتقل ہوتی ہیں۔
کزن میرج اور اسلام کا ذکر آئے تو ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔ قبیلہ بنی سائب کے لوگ صرف قریبی رشتہ داروں ہی میں شادی بیاہ کرتے تھے۔ سیدنا عمر فاروق نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا۔
اے بنی سائب! کیا ماجرا ہے کہ تم بڑے کم زور اور دبلے پتلے ہو گئے ہو؟ اجنبی لوگوں میں شادی کیا کرو کہ تمھاری نسل کم زور نہ رہے۔
امام شافعیؒ کا مقولہ ہے کہ جو لوگ اپنے قبیلے یا خاندان سے باہر اپنی عورتیں بیاہتے ہیں۔ اور نہ اپنے مردوں کے لیے باہر سے رشتے لیتے ہیں۔ ان کے ہاں احمق اولاد پیدا ہو گی۔
(الإنتقاء في فضائل الأئمة الثلاثة الفقهاء ص: ۹۸)
غامدی صاحب سے ایک بار کزن میرج اور اسلام کے حوالے سے پوچھا گیا کہ اسلام میں کزن میرج کی ممانعت نہیں ہے۔ نہ تو اسے منع کیا گیا ہے۔ نہ اس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ غامدی صاحب اپنے علمی بل بوتے پراس کی یہ توجیہہ پیش کرتے ہیں کہ اسلام کا موضوع اخلاقی نقصانات ہیں۔ طبی نقصانات نہیں۔ جس کام میں اخلاقی قباحت ہے۔ اس کے بارے میں قرآن بیان کرتا ہے۔ طبی معاملات کا فیصلہ ڈاکٹر کو کرنے دیں۔ مذہب میں جو چیزیں حرام کی گئی وہ اسی اصول کے تحت ہیں۔
کزن میرج سے متعلق طبی حقائق
مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور شمالی افریقہ کے چند ممالک میں کزن میرج عام ہے۔ ایک سروے کے مطابق دنیا کے تقریباً دس فیصد خاندان ایسے جوڑوں پر مشتمل ہیں۔ جو ایک دوسرے کے کزن ہیں۔ اور یہ دنیا کے سات سو پچاس ملین سے زیادہ افراد ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں کزن کے درمیان شادی بہت عام ہوا کرتی تھی۔ چارلز ڈارون، ایڈگر ایلن پو اور البرٹ آئن سٹائن جیسے لوگوں نے کزن میرج کی تھی۔ لیکن پھر امریکہ کی بعض ریاستوں میں کزن میرج پر قانونی پابندی عائد کر دی گئی۔ کیونکہ ان کے نزدیک ایسا کرنا بیماریوں کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
پاکستان میں چند سال پہلے ہونے والے ایک سروے کے مطابق کزن میرج کرنے والی خواتین میں انتیس فیصد کی شادی اپنے والد کے خاندان میں جبکہ اکیس فیصد کی شادی اپنی والدہ کے خاندان میں ہوئی۔
طبی تحقیق سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ کزن میرج سے پیدا ہونے والے بچوں کو طبی اور جینیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد کی جب شادی ہوتی ہے تو ان کے باہمی ملاپ سے خون میں موجود جینیاتی خصائص ذہنی یا عضلاتی بیماریوں کی وجہ بن سکتے ہیں۔ ایسے شوہر اور بیوی جو فرسٹ کزنز ہوں، ان کی اولاد میں جینیاتی خصائص نمودار ہونے کی شرح چار فیصد زیادہ ہوتی ہے۔
انسان کا جین یا جینیاتی کوڈ جسے ڈی این اے کہا جاتا ہے۔ سائنس نے اس پر کافی ریسرچ کی ہے۔ تحقیق کے مطابق بہت سے امراض والدین سے بچوں میں مخصوص ڈی این اے کے باعث منتقل ہوتے ہیں۔ جیسے سیکھنے میں مشکلات اور ذہنی معذوری وغیرہ ۔
دراصل ایک خراب جین کسی بیماری یا مسئلے کا سبب نہیں بنتا۔ لیکن جب دو خراب جینز آپس میں ملتے ہیں تواس کے برے نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ جو والدین اور بچوں کے لئے زندگی بھر کی آزمائش کا باعث بن سکتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ خاندان میں کزن میرج کی بدولت جینز کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اور جب مزید کزن میرجز ہوں تو ان کمزور جینز کے ملاپ سے بچوں میں مختلف مسائل اور بیماریاں پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
یاد رہے اولاد میں جینیاتی مرض اس وقت منتقل ہوگا۔ جب والدین کے جینز میں مسئلہ ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر شوہر اور بیوی کے جینز میں کسی بیماری کے جینز موجود ہیں۔ تو پچیس فیصد امکان موجود ہے کہ وہ بیماری ان کے بچوں میں بھی آئے گی۔ اگر شوہر اور بیوی آپس میں کزنز ہیں۔ اور دونوں کی جنیز میں کوئی خرابی یا مسئلہ نہیں تو پھر یہ شادی ویسی ہی ہو گی جیسے کوئی بھی عام شادی۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پاکستان میں اس وقت جینیاتی بیماری کے شکار مریضوں کی تعداد سولہ ملین ہے۔ انٹرنیشنل ذیا بیطس فاؤنڈیشن کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں شوگر کے مریضوں کی سب سے بڑی تعداد پاکستان میں ہے۔ ہماری کل آبادی کا تیس فیصد اس وقت ذیابیطس کے مرض کا شکار ہے۔ اورایک حالیہ سروے میں یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ بچوں میں منتقل ہونے والی ستر فیصد بیماریاں موروثی ہیں۔
کسی جوڑے کو شادی کی صورت میں کون سے خطرات درپیش ہو سکتے ہیں۔ اس کا تعین کرنے کے لئے ماہر جینیات سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔ تا کہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا ان دونوں کزنز کے جینیات کیسے ہیں۔ شادی کی صورت میں کوئی مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہے یا نہیں۔
کزن میرج کی صورت میں دوران حمل ایک جنین جب رحم میں بڑھتا ہے۔ تو ایسے بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں جو جینز میں تبدیلی اور خرابی پیدا کر دیں۔ مثال کے طور پر پیدائشی بے ضابطگیاں ہو سکتی ہیں۔ جسم کا کوئی حصہ متوقع طریقے سے بڑھ نہیں پاتا۔ اس کی ایک مثال پیدائشی طور پر پھٹا یا کٹا ہوا ہونٹ ہے۔ بچوں کو تھیلیسیما کا مسئلہ لاحق ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ کزن میرج کے نتیجے میں جن بیماریوں کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ ان میں بے اولادی، بچے کی پیدائش کے فوری بعد موت ، وقت سے پہلے ڈیلیوری، تھیلیسیمیا، مرگی، گونگا بہرہ پن، دل کے امراض، ذیابیطس اور بائی پولر ڈس آڈر سمیت کئی بیماریاں شامل ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر کزن میرج کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کسی مسئلے کا شکار ہو۔ لیکن ایسے جوڑوں کی اولاد میں پیدائشی مسائل سامنے آنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
کزن میرج کے فوائد
کزن میرج میں جہاں چند مسائل کا سامنا ہے۔ وہیں اس کے بہت سے فوائد بھی ہیں۔
۔ کزن میرج کی صورت میں خاندان کے حوالے سے چھان بین اور تحقیقات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دونوں خاندان یہاں تک کہ لڑکا اور لڑکی بھی ایک دوسرے کی طبیعت، مزاج اور فطرت سے واقف ہوتے ہیں۔ اور ایک دوسرے کے رسم و رواج کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔
۔ کزنز کے درمیان ذہنی ہم آہنگی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ میں شادیوں کے ٹوٹنے کی شرح بیالیس فیصد ہے۔ جن میں کزن میرج ٹوٹنے کی شرح صرف بیس فیصد ہے۔ جو متاثرکن ہے۔
۔ ہمارے ہاں یہ سوچ عام ہے کہ اگر بیٹی کی شادی خاندان میں کی جائے گی تو وہ چونکہ اس کا اپنا خاندان ہوگا۔ لہذا اس کے لئے وہاں ایڈجسٹ کرنا مشکل نہیں ہو گا۔ یہی خیال بیٹے کی خاندان میں شادی کرتے وقت زیرغور ہوتا ہے۔
۔ بعض علاقوں او خاندانوں میں وٹے سٹے کی شادیاں کافی کامیاب دیکھی گئی ہیں۔ کیونکہ مشترکہ پس منظر، اقدار اور رسم و رواج ہونے کی وجہ سے رشتوں میں مطابقت بڑھ جاتی ہے۔
۔ دیکھا گیا ہے کہ کزن میرج کی وجہ سے طلاق کی شرح میں کمی ہوتی ہے۔ آپس میں محبت بڑھتی ہے۔ اور رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔ کیونکہ ایک سے زیادہ رشتوں کے آپس میں جڑے ہونے کی وجہ سے مصالحت اور کمپرومائز کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔
۔ کزن میرج کی وجہ سے رشتوں کو ایک مضبوط نیٹ ورک فراہم ہوتا ہے۔ خاندان کے لوگ کسی بھی مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔
کزن میرج کے نقصانات
۔ کزن میرج میں سب سے بڑا خطرہ جینیاتی عوارض کا ہے۔ مشترکہ جین کی وجہ سے وراثت میں متواتر جینیاتی عوارض کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اس سے اولاد میں صحت کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ جن میں جینیاتی بیماریاں اور پیدائشی نقائص شامل ہیں۔
۔ خاندان میں شادی کرنا آپ کو محدود کرتا ہے۔ خاندان سے باہر شادی کی صورت میں ذاتی روابط بڑھتے ہیں۔
۔ کزن میرج بعض اوقات خاندان میں پیچیدگیوں اور رنجشوں کا باعث بنتی ہے۔ رشتوں میں تنازعات اور تناؤ پیدا ہوتا ہے۔ خاندان دو حصوں میں بٹ جاتے ہیں۔
۔ خاندان میں شادی کرنے کا دباؤ بعض اوقات نفسیاتی یا جذباتی مشکلات کا باعث بن جاتا ہے۔ خاص کر اگر بچے پسند کی شادی کرنا چاہتے ہوں۔ لیکن والدین خاندان مں ہی شادی پر بضد ہوں۔ تو یہ بچوں کو جسمانی اور نفسیاتی طور پر متاثر کرتا ہے۔
۔ کزن میرج سے ڈی این اے شیئر کرنے کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ اور جتنا زیادہ ایک دوسرے سے ڈی این اے شیئر کریں گے۔ اتنے ہی زیادہ جینیاتی امراض جیسے تھیلیسیمیا اور دیگر بچوں میں سامنے آنے کا امکان بڑھتا ہے۔
۔ کچھ ممالک میں کزن میرج پر قانونی پابندی عائد ہے۔ یہ ان جوڑوں کے لیے مشکلات اور نقصان کا باعث ہو سکتی ہے جو کزنز ہوں اور آپس میں شادی کرنا چاہتے ہوں۔ کیونکہ اس صورت میں انہیں قانونی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا ہو گا۔
۔ بہت سی ثقافتوں یا ممالک میں کزن میرج کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ جیسے ہندو میرج ایکٹ کے تحت فرسٹ کزن سے شادی ممنوع ہے۔ اگرچہ مقامی فرقوں کو ان کے مذاہب یا علاقائی رسم و رواج کے تحت اس کی اجازت ہے۔ اسی طرح عیسائوں کے مختلف فرقوں میں بھی کزن میرج کے حوالے سے قوانین بدلتے رہے ہیں۔ موجودہ دور میں رومن کیتھولک فرقے میں فرسٹ کزن سے شادی ممنوع جبکہ دور کے قرابت دارروں میں شادی کی اجازت ہے۔ سو آپ کسی ایسی کمیونٹی کے رہائشی ہیں جہاں مختلف مذاہب اور فرقوں کے لوگ آباد ہیں۔ وہاں کزن میرج کرنا جوڑے یا اس کی فیملی کی سماجی حیثیت اور کمیونٹی کے ساتھ ان کے تعلقات کو متاثر کرسکتا ہے۔
۔ کزنز کی آپس میں شادی ان کی اولاد میں مختلف ذہنی امراض جیسے ڈپریشن یا ذہنی بے چینی وغیرہ کا خطرہ تین گنا تک بڑھا سکتی ہے۔ آئرلینڈ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق کے مطابق عام افراد میں ڈپریشن کا خطرہ زندگی میں دس فیصد تک ہوتا ہے۔ لیکن کزن میرج کی صورت میں یہ خطرہ تیس فیصد تک پہنچ جاتا ہے۔
ہر ملک میں کزن میرج کے جواز یا ممانعت میں مذہبی احکامات یا طبی امراض کے علاوہ بھی کئی عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ جیسے معاشی یا معاشرتی مسائل اور رسم و رواج وغیرہ۔ موجودہ طبی مسائل کے تناظر میں یہ بحث بڑھتی جا رہی ہے کہ کزن میرج کی وجہ سے جینیاتی، عضلاتی اور ذہنی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سو کزن میرج کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے اس سے احتراز برتا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ کزن میرج کے حوالے سے لاحق خدشات کے باوجود اب بھی بہت سے گھرانے خاندان میں ہی شادی ترجیح دیتے ہیں۔ ایک طبقہ ایسا ہے جو نسل در نسل کزن میرج کا حامی ہے۔ اور دلیل کے طور پر قرآنی آیات اور مثالیں پیش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ایک حلال کام سے احترز برتنا گویا اللہ کے احکامات سے روگردانی ہے۔
جبکہ کزن میرج سے اختلاف کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ وہ مثال کے طور پر امام غزالی کا قول دہراتے ہیں کہ "قرابت قریبہ والی سے نکاح مت کرو۔ اولاد ضعیف پیدا ہوتی ہے"
اس کے علاوہ یہ دلیل بھی پیش کی جاتی ہے کہ شافعی اور حنبلی خاندان سے باہر نکاح کو ترجیح دیتے ہیں اور قریبی رشتہ داروں سے نکاح کو مکروہ قرار دیتے ہیں۔
کزن میرج اور اسلام کے حوالے سے دیکھا جائے تو قرآن و حدیث کی نصوص سے کزن میرج کی اجازت تو ثابت ہوتی ہے۔ لیکن وہیں یہ مدنظر رکھا جانا بھی ضروری ہے کہ اسے فرض قرار نہیں دیا گیا۔ لہذا اگر کوئی خدشہ ہو تو اس سے احتراز برتا جا سکتا ہے۔
کزن میرج اور اسلام کے حوالے سے بات کی جائے تو انسان کے لئے شریعت کے پانچ مقاصد ہیں۔ تحفظ دین، جان، مال، عقل اور تحفظ نسل۔ جو امر ان پانچ اصولوں پر مشتمل ہو گا، وہ مصلحت ہو گا۔ اور جو امر ان اصولوں پر مشتمل نہ ہو گا، وہ مفسدہ کہلائے گا۔
مصلحت کی بات کہ جائے تو العز بن عبدالسلام کے مطابق مصالح کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم حقیقی، وہ ہے فرحت اور لذت۔ دوسری قسم مجازی، اور وہ ہیں ان کے اسباب۔ بعض اوقات مصالح کے اسباب مفاسد ہوتے ہیں۔ ان کے کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ یا انہیں مباح قرار دیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ وہ مفاسد ہیں۔ بلکہ اس وجہ سے کہ وہ مصالح کے حصول کے ذرائع ہیں۔ مثلا کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جائے جس میں جسم کا کوئی حصہ کاٹنا مقصود ہو۔ یا جہاد کے لئے انسانی جان کو خطرے میں ڈالنا۔اسے موت کے منہ میں بھیجنا۔ یہ دراصل مفاسد ہیں۔ لیکن ان کا مقصد مصالح کا حصول ہے۔
دوسری طرف انسانی جان کو بچانے کے لئے حرام شے کا بقدر استعمال بھی جائز قرار دیا گیا ہے۔ سو اگر انسانی جان بچانے کے لئے ایک حرام شے کا بطور غذا استعمال جائز ہے۔ تو تحفظ انسانی نسل کے لئے بھی اس کے ضابطوں میں تخفیف ممکن ہے۔ لہذا حلال رشتوں سے شادی میں احتراز کیا جا سکتا ہے۔ بجائے اس کے کہ جانتے بوجھتے ایک انسان یا نسل کو بیماریوں میں مبتلا کیا جائے۔ قرآن مجید میں اللہ فرماتا ہے۔
یرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ
اللہ تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوا ہے۔
وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ
اور اس (اللہ تعالیٰ) نے تم پر دین میں کسی قسم کی تنگی نہیں کی۔
لہذا اگر کوئی شخص کزن میرج کے حق میں نہیں۔ یا اس سے پرہیز کرتا ہے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ سو کزن میرج اور اسلام کے حوالے سے جہاں بھی بات ہو۔ یہ بات قابل غور ہے کہ نکاح کا مقصد یہ ہے کہ نسل انسانی باقی رہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں اضافہ ہو۔ امت کے افراد اسی صورت میں قابل فخر ہو سکتے ہیں۔ جب وہ ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند ہوں۔
اقدامات
۔ علماء اور فقہاء کی مشاورت سے قانون سازی کی جائے۔ لوگوں کو کزن میرج اور اسلام کے حقائق سے روشناس کروایا جائے۔انہیں باور کروایا جائے کہ کزن میرج سے اجتناب کسی گناہ یا روز قیامت مواخذے کا باعث نہیں۔
۔ شادی سے پہلے جوڑے کا طبی معائنہ لازم قرار دیا جائے۔
۔ طبی ماہرین کی زیر نگرانی تعلیمی اداروں میں آگاہی کے لئے پروگرام منعقد کروائے جائیں۔
۔ میڈیا پر اس سے متعلق آگاہی مہم شروع کی جائے۔
۔ نصاب اور حفظان صحت کے مظامین میں اس موضوع کو شامل کیا جائے۔
۔ شادی شدہ جوڑوں کو جینیاتی مشاورت کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔
شادی کا فیصلہ کرنے سے پہلےیہ بات مدنظر رکھی جائے کہ نسل در نسل کزن میرج سے صحت مند اولاد کا حصول مشکل نہ ہو جائے۔ کیونکہ ذہنی و جسمانی معذور اولاد نہ صرف خاندانی بلکہ معاشرتی سطح پر بھی مشکلات کا باعث ہے۔ اس لئے اس سےاجتناب میں کوئی شرعی قباحت نہیں۔ اگر کسی وجہ سے کزن میرج لازمی کرنی ہے تو پھر شادی سے پہلے اور حمل کے بعد طبی معائنہ لازمی کروائیں۔ تا کہ آنے والی نسل کو ذہنی اور جسمانی معذوری سے بچایا جا سکے۔