شادی ایک ایسا رشتہ ہے جس کی بنیاد محبت، اعتماد اور ایک دوسرے کی سمجھ بوجھ پر قائم ہوتی ہے۔ اس رشتے کو مضبوط اور دیرپا بنانے کے لیے ذہنی ہم آہنگی کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ذہنی ہم آہنگی سے مراد یہ ہے کہ شادی کرنے والے دونوں افراد کے درمیان نہ صرف جذباتی تعلق ہو۔ بلکہ ان کی سوچ، اصول، زندگی کے اہداف اور طریقہ کار بھی ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوں۔ شادی سے پہلے ذہنی ہم آہنگی کس حد تک ضروری ہے اور اس کے کیا اثرات ہیں۔ یہ جاننا ازحد ضروری ہے۔
ذہنی ہم آہنگی کیا ہے؟
شادی سے پہلے ذہنی ہم آہنگی ضروری ہے یا نہیں۔ اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ذہنی ہم آہنگی آخر ہے کیا۔ ذہنی ہم آہنگی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دونوں افراد کو ایک دوسرے کی ہر بات پر مکمل اتفاق ہو۔ یا ان کی رائے ہمیشہ ایک جیسی ہو۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں میں اختلافات کو قبول کرنے اور ان کو مثبت طریقے سے حل کرنے کی صلاحیت موجود ہو۔
یہ صلاحیت دونوں افراد کے درمیان بات چیت، ایک دوسرے کے خیالات کو سننے اور سمجھنے سے پروان چڑھتی ہے۔ ذہنی ہم آہنگی وہ بنیاد فراہم کرتی ہے جس پر دونوں شریک حیات ایک دوسرے کے ساتھ مضبوط اور دیرپا تعلق قائم کرتے ہیں۔
شادی سے پہلے ذہنی ہم آہنگی کی ضرورت کیوں ہے؟
شادی محض ایک قانونی معاہدہ یا سماجی ذمہ داری نہیں ہے۔ بلکہ یہ زندگی کا ایک نیا باب ہے جہاں دو افراد مل کر اپنی زندگی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ شادی سے پہلے ذہنی ہم آہنگی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ دونوں افراد ایک ہی سمت میں سوچتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خیالات کی قدر کرتے ہیں۔ اور زندگی کے مسائل کا سامنا کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
شادی سے پہلے محض خیالات کی ہم آہنگی ضروری نہیں۔ بلکہ دونوں افراد اور خاندانوں کے رہن سہن، رسم و رواج، مذہب اور ثقافت پر بات چیت نہایت ضروری ہے۔ اور شادی سے متعلقہ کئی اہم پہلوؤں پر توجہ دینا ضروری ہے۔ تاکہ شادی کے بعد زندگی خوشحال اور کامیاب گزر سکے۔ ذہنی ہم آہنگی دونوں افراد کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے اور رشتہ کو مضبوط بناتی ہے۔ درج ذیل کچھ بنیادی چیزیں ہیں جن پر شادی سے پہلے ذہنی ہم آہنگی ضروری ہے۔
مذہبی اور ثقافتی ہم آہنگی
مذہب اور ثقافت انسانی زندگی کا اہم حصہ ہوتے ہیں۔ شادی سے پہلے ان معاملات کا واضح ہونا ضروری ہے۔ تاکہ دونوں افراد یا خاندان ایک دوسرے کے عقائد اور روایات کا احترام کرسکیں۔ اگر دونوں افراد کی مذہبی یا ثقافتی ترجیحات میں تضاد ہو تو بعد میں یہ چیز ذہنی تناؤ اور مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔
زندگی کے اہداف
معاشرہ جوں جوں ترقی کر رہا ہے۔ پرانے رواج ، رسوم اور ترجیحات میں واضح تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اب لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیاں بحِ اپنی تعلیم اور کیرئیر پر برابر توجہ دے رہی ہیں۔ لہذا ان تمام معاملات پر شادی سے پہلے ہم آہنگی ہونا نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ ہر فرد کے زندگی کے مختلف اہداف ہوتے ہیں جیسے کیریئر، فیملی، تعلیم وغیرہ۔
اگر شادی سے پہلے دونوں افراد ان اہداف پر بات کریں اور ایک دوسرے کی خواہشات کو سمجھیں تو بعد کی زندگی میں مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔ اگر دونوں شریک حیات کے اہداف ایک دوسرے سے مختلف ہوں اور ان میں سمجھوتہ کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو ذہنی تنازعہ پیدا ہوسکتا ہے۔
مثال کے طور پر لڑکی پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن جائے اور مستقبل میں ملازمت کرنا چاہتی ہو۔ لیکن شادی کے بعد پتا چلے کی سسرال والے روایتی سوچ کے مالک ہیں اور بہو کو گھریلو خاتون کے روپ میں ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ تو ایسے میں لڑکی کے خواب ٹوٹنے کے ساتھ ساتھ سمجھوتہ نہ کرنے کی صورت میں اس کا گھر ٹوٹنے کا اندیشہ بھی ہے۔
گھریلو ذمہ داریاں
گھر میں کام اور ذمہ داریوں کو کیسے بانٹا جائے گا؟ کیا دونوں افراد گھریلو کاموں میں تعاون کریں گے؟ یہ بھی ایک اہم موضوع ہے جس پر شادی سے پہلے ذہنی ہم آہنگی ہونا ضروری ہے۔ تاکہ شادی شدہ زندگی میں تنازعات سے بچا جا سکے۔ کیونکہ لڑکی اگر ملازمت پیشہ ہو گی تو اس کے لئے اکیلے گھر اور ملازمت کی ذمہ داریاں اٹھانا مشکل ہو گا۔ لہذا اس معاملے پر لڑکے اور لڑکی کو کھل کر بات کرنی چاہئیے۔
مالی معاملات
پیسہ اور مالی معاملات شادی میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ شادی سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ دونوں افراد کا مالیاتی رویہ کیسا ہے؟ وہ پیسہ خرچ کرنے، بچانے، اور سرمایہ کاری کرنے کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ مالیات کے بارے میں واضح ہم آہنگی ازدواجی زندگی کو مسائل سے بچا سکتی ہے۔
ہمارا مذہب مرد کو بیوی کے نان نفقہ کا ذمہ دار بناتا ہے۔ نکاح نامے میں اس کی باقاعدہ ایک شق شامل کی جا سکتی ہے۔ بیوی خواہ ملازمت کرتی ہو۔ خاوند نان نفقہ کی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہوتا۔ اس لئے ان معاملات پر بھی شادی سے پہلے ذہنی ہم آہنگی نہایت ضروری ہے۔
خاندانی نظام اور بچوں کی پرورش
شادی کے بعد لڑکی کو کس خاندانی نظام کا حصہ بننا ہو گا۔ جوائنٹ فیملی ہونے کی صورت میں کس کی کیا ذمہ داریاں ہوں گی۔ اگرچہ یہ موضوع شادی سے بعد ڈسکس کرنے والا ہے لیکن بچوں کی پرورش اور فیملی کے متعلق لڑکا اور لڑکی کی کیا سوچ ہے۔ شادی سے پہلے ہم آہنگی اس پر بھی ضروری ہے۔ بچوں کی تعداد، ان کی تعلیم، اور پرورش کا طریقہ، یہ سب اہم موضوعات ہیں جن پر کھل کربات چیت کرنا اہم ہے۔
شخصیت اور رویہ
دونوں افراد کی شخصیتوں میں ہم آہنگی بھی لازمی ہے۔ کیا وہ ایک دوسرے کے رویے، مزاج، اور طرز زندگی کے ساتھ مطمئن ہیں؟ اگر کسی کی شخصیت زیادہ جذباتی ہے اور دوسرے کی عملی تو دونوں میں ایک دوسرے کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔
معاشرتی اور سماجی توقعات
کیا دونوں افراد ایک جیسے سماجی حلقے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟ ایک دوسرے سے ان کی سماجی زندگی کی توقعات کیا ہیں؟ کیا دونوں شریک حیات گھلنا ملنا پسند کرتے ہیں یا تنہائی پسند ہیں؟ بظاہر یہ معمولی باتیں محسوس ہوتی ہیں۔ لیکن یہ چیزیں شادی شدہ زندگی میں ہم آہنگی پیدا کرنے میں مدد دیتی ہیں۔
دلچسپیاں اور شوق
یا دونوں افراد کی دلچسپیاں اور شوق ایک جیسے ہیں؟ شادی سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ وقت کیسے گزارنا چاہتے ہیں۔ اگر فریقین میں سے ایک کو گھومنا پھرنا، ملنا ملانا پسند ہو۔ اور دوسرے کو گھر پر وقت گزارن،ا تو انہیں اس پر بات چیت کرنی چاہیے۔ اگرچہ شادی کے بعد فریقین ایک دوسرے کی عادات ، دلچسپیوں اور شوق پر سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ لیکن اکثریت ایسا نہیں کرتی۔
شادی کے بعد اکثر خواتین کو گلہ ہوتا ہے کہ شوہر دوستوں کے ساتھ وقت نہ گزارے۔ شوہر کو اعتراض ہوتا ہے کہ بیوی اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے علاوہ کسی رشتے دار سے نہ ملے۔ لہذا لڑکے اور لڑکی دونوں کی دلچسپیوں، شوق اور ترجیحات پر بات چیت نہایت ضروری ہے۔
اگرچہ مشرقی معاشروں خاص کر پاکستان میں شادی سے پہلے ذہنی ہم آہنگی کو ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ لڑکے اور لڑکی کی ملاقات کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اکثریت کی یہی سوچ ہوتی ہے کہ شادی کے بعد سب ایڈجسٹ ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ درست عمل نہیں ۔ ہمارا مذہب بھی شادی سے پہلے لڑکی کی مرضی اور رائے کو اہمیت دیتا ہے۔
اگرچہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کی ملاقاتوں کا تصور آج کل کے حالات میں درست نہیں لگتا۔ لیکن معاشرہ جس تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ نوجوان نسل بات چیت کے مواقع اور ذرائع ڈھونڈ لیتی ہے۔ لہذا والدین کو بھی اس بات پر توجہ دینی چاہئیے کہ شادی سے پہلے ذہنی ہم آہنگی کا موضوع نہایت اہم ہے۔ اس کی ضرورت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ رشتہ کی بنیاد ہوتی ہے جو شادی کو مضبوط اور خوشحال بناتی ہے۔
ذہنی ہم آہنگی کے بغیر شادی میں مسائل پیدا ہوسکتے ہیں جو کہ شادی شدہ زندگی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ شادی سے پہلے متوقع شریک حیات حدود میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کو بہتر سمجھنے کے لیے وقت نکالیں۔ اور اپنی سوچ میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کریں۔