گزشتہ دنوں ایک سروےنظر سے گزرا جس کے مطابق جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ایشیائی ممالک کے مرد جہاں اقتصادی خوشحالی دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ ہے، شادی کے لئے نسبتاﹰ غریب ممالک کی لڑکیوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ان ممالک میں لڑکیوں کا معاشی طور پر خود مختار ہونا ہے۔ ان کے معیار پر کوئی مرد پورا نہیں اترتا۔ اس لئے وہ تنہا زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس وجہ سے وہاں کے مردوں میں غیر ملکی خواتین سے شادی کے رجحان میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اور یہ لوگ دلہن کی تلاش میں چین اور فلپائن کا رخ کر رہے ہیں۔ شادی کی راہ میں رکاوٹ جہاں دیگر وجوہات کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ وہاں اس وجہ کو بھی اہم خیال کیا جا رہا ہے۔

دوسری طرف ایسی خواتین جو اپنی اور اپنے اہل خانہ کی مالی اور سماجی حالت بہتر بنانے کی متمنی ہوتی ہیں۔ اور اس کے لئے وہ غیر ملکیوں سے شادی کر نے میں عار محسوس نہیں کرتیں۔ اس صورتحال کا سامنا صرف جاپان اور کوریا جیسے ترقی یافتہ ممالک کو ہی نہیں۔ بلکہ پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈیا جیسے ترقی پذیر ممالک میں بھی یہ صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے۔ حالانکہ میرج بیورو ویب سائٹ کے استعمال میں اضافےکے بعد والدین کی پریشانیوں میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اور بھارت جیسے ملک میں تو زیادہ تر رشتے میرج بیورو کے ذریعے ہی طے پاتے ہیں۔

لڑکی کی شادی کی راہ میں رکاوٹ والدین کے لئے ایک نہایت اہم مسئلہ ہے۔ جسے کبھی تعویز گنڈوں سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ کبھی نظر بد سے۔ لیکن اس کی اصل وجوہات پر نظر نہیں ڈالی جاتی۔ چند سال پہلے تک پاکستان میں رشتہ ویب سائٹس کے استعمال کا اتنا رجحان نہیں تھا۔ لیکن جیسے جیسے لوگوں کی خواہشات اور مطالبات بڑھ رہے ہیں۔  ویسے ویسے وہ میرج بیورو کا رخ کر رہے ہیں۔ کیونکہ اپنے خاندان میں انکے میعار پر پورا اترنے والے رشتے انہیں کم ہی ملتے ہیں۔ اور دوسری طرف خواتین برسر روزگار ہوں تو ان کا معیار اور ترجیحات بھی لازمی طور پر بدل جاتی ہیں۔
یوں بھی آج کل لڑکیاں لڑکوں کی نسبت زیادہ تعلیم یافتہ ہوتی جا رہی ہیں۔  اس وجہ سے بھی ان کے رشتوں میں مشکلات اور شادی کی راہ میں رکاوٹ آ رہی ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ وہ کیا وجوہات ہیں جو لڑکوں کو تعلیم سے دور کر رہی ہیں۔ اور کیا واقعی ایسا ہے کہ تعلیم یافتہ اور ملازمت پیشہ لڑکی کو رشتے کی تلاش میں مسائل کا سامنا ہے۔

دیکھا جائے تو آبادی میں اضافہ بھی لڑکوں کی تعلیم پر اثر انداز ہوتا ہے۔ کنبہ بڑا ہونے کی وجہ سے گھر کا کفیل اکیلے سب کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا ۔ اس لئے گھر کے بیٹوں کو کم عمری میں ہی پڑھائی سے ہٹا کر کام پر لگا دیا جاتا ہے۔ بہت کم والدین اور لڑکے ایسے ہیں۔ جو تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے کام کے ساتھ پڑھائی کو جاری رکھتے ہیں۔ زیادہ تر اپنے گھر والوں کی کفالت کی ذمہ داری اٹھا کر تعلیم کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔

دوسری وجہ لڑکوں کا پڑھائی کی جگہ دوسرے مشاغل میں دلچسپی لینا ہے۔ ان کی صحبت اور دوستی ایسے بچوں کے ساتھ ہو جو پڑھائی میں دلچسپی نہ لیتے ہوں۔ تو اس وجہ سے بھی بہت سے بچے پڑھائی میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اور ایک وقت آتا ہے جب انہیں اور انکے گھر والوں کو محسوس ہوتا ہے کہ پڑھنا اب ان کے بس کی بات نہیں۔ سومجبورا انہیں کسی نہ کسی کام پر لگانا پڑتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں جب سے نمود ونمائش اور مقابلے بازی کا رجحان بڑھا ہے۔ تب سے ہر فرد خاص کر مردوں کے دل میں جلد سے جلد امیر ہونے کا احساس جگہ بنا رہا ہے۔ اور یہ چیز انہیں اپنا ملک چھوڑ کر بیرون ملک جانے اور دولت کمانے پر مائل کرتی ہے۔
خواتین کا مادی اشیاء اور تعیشات کو خواشگوار زندگی کا معیارسمجھنا اور مردوں کو دولت کمانے کے لئے بیرون ملک جانے پر راغب کرنا اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نہج پرسوچتے ہیں۔ زیادہ تر لڑکے تعلیم ادھوری چھوڑ کر اپنے خوابوں کے تعاقب میں بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔

دوسری طرف خواتین کو دیکھا جائے۔ تو اب شہروں کے علاوہ دیہی علاقوں کی خواتین بھی معاشرتی اور معاشی طور پر زیادہ خود مختار ہوتی جارہی ہیں۔ اور اپنے خاندان کی کفالت کر رہی ہیں۔ یہ وجہ بھی ہے کی خواتین کی مناسب وقت پر شادی میں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ ملازمت ان کی شادی کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بن رہی ہے۔ بہت سے والدین خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اور ایسی بچیاں جو گھرانے کا "کماو پوت” ہوتی ہیں، انکی شادی میں تاخیر کی جاتی ہے۔ تا کہ دوسرے بہن بھائیوں کی تعلیم اور دیگر ذمہ داریوں سے نبرد آزما ہوا جا سکے۔

کچھ خواتین جب معاشی طور پر مضبوط اور خوشحال ہو جاتی ہیں۔ تو ان کی سوچ حاکمانہ ہو جاتی ہے۔ انہیں محسوس ہوتا ہے کی وہ خود مختار ہیں۔ اور انہیں کسی سہارے کی ضرورت نہیں۔ اسی خواتین عام طور پر غیرشادی شدہ رہنا ہی پسند کرتی ہیں۔ بہت سی خواتین جو کسی اعلی عہدے پرپہنچ جاتی ہیں۔ انہیں شادی کے لئے اپنے سے بلند معیار اور معاشی طور پر مضبوط شریک حیات کی خواہش اور تلاش ہوتی ہے۔ وہ اپنے ذہن میں بنائے گئےآیڈئیل سے ہٹ کر کچھ سوچنے کو تیار نہیں ہوتیں۔ اور معاشرہ بھی انہیں اس ڈگر سے ہٹ کر سوچنے نہیں دیتا۔ تو یہ چیز بھی ان کی شادی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسی خواتین شادی کی مناسب عمر گزار دینے کے بعد کسی بے جوڑ رشتہ کو قبول کر لیتی ہیں یا پھر تا حیات کنواری رہنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ معاشی طور پر مضبوط خاتون کی شخصیت میں خود اعتمادی اور مضبوطی آ جاتی ہے۔ اور وہ ہر مقام پر مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہے۔

کچھ مرد اور گھرانے ایسی خود مختار خواتین سے شادی کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ کیونکہ ان کے خیال میں ایسی خواتین گھراورگھریلو ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نہیں نبھا سکتیں۔ اگر ایسی خود مختار خواتین شادی کے بندھن میں بندھ بھی جاتی ہیں۔ تو ان پر ملازمت اور گھر دونوں ذمہ داریاں ڈال دی جاتی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کی ملازمت پیشہ خواتین کے ساتھ ان کے گھر اور سسرال والے ہر معاملے میں تعاون کریں۔ تا کہ زندگی خوشگوار گزر سکے۔ ایک ایسی خاتون جو محنت کر کے اور اپنی خوشیاں داو پر لگا کرکسی مقام پر پہنچی ہے۔ اور لمحہ لمحہ اپنے گھر والوں کے آرام اور سکون کا خیال رکھا ہے۔ انہیں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ ایسی خواتین کے آرام کا احساس بہت کم لوگوں کو ہوتا ہے۔
ہمیں اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہر شخص خواہ وہ مرد ہو یا خاتون کو اپنی ذمہ داریاں پہچاننے کی ضرورت ہے۔ بے جا توقعات رکھنے اور تعیشات کے پیچھے بھاگنے کی بجائے مناسب عمر میں شادی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ تا کہ شادی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے تمام مسائل کا حل نکالا جا سکے۔ اور سب سے زیادہ ضرورت جس چیز کی ہے۔  وہ ہے احساس اور تعاون۔ خواہ آپ ایک مرد ہیں یا عورت۔ خاتون خانہ ہیں یا ملازمت پیشہ۔ ہر رشتہ، محبت، تعاون، اور احساس کے بغیر ادھورا ہے۔ جس رشتے اور خاندان میں ان باتوں کا احساس کیا جائے گا۔ وہی زندگی میں کامیاب ہوں گے۔

سمپل رشتہ ایک ایسا ادارہ ہے جو ملازمت پیشہ خواتین اور انکے والدین کی مجبوریوں کو سمجھتا ہے۔ اور ان کی شادی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے عناصر کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں مناسب رشتہ کی تلاش میں مدد دیتا ہے۔ سمپل رشتہ کے آن لائن پلیٹ فارم نے والدین کی پریشانی ختم کر کے انہیں گھر بیٹھے رشتے دیکھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔