یوں تو ہر دور میں معاشرے کو مختلف مسائل کا سامنا رہا ہے لیکن ایک مسئلہ جو آج کل کے دور میں والدین کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔ وہ ہے اچھے رشتے کی تلاش۔ رشتہ اور نسبت طے کرنا اور اسے بخیر و عافیت شادی تک پہنچانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

ٹیکنالوجی نے خاطر خواہ ترقی کر لی ہے۔ لیکن لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے اچھے اور مناسب رشتے ملنا اب بھی دشوار ہے۔ دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ انسان لمحوں میں دنیا کے دوسرے کونے میں موجود لوگوں سے رابطہ کر سکتا ہے۔ ان کے بارے میں جان سکتا ہے۔ لیکن رشتے کی تلاش اور شادی کا مسئلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔ لوگوں کی خواہشات اور ترجیحات میں اضافے کی بدولت اچھے رشتے جیسے کم یاب ہوتے جا رہے ہیں۔

وہ خوبیاں جو چند دہائیوں پہلے تک لڑکیوں سے منسوب تھیں۔ جیسا کہ سلیقہ مندی، ماہر امور خانہ داری، دیندار اور گھر کو چلانے والی، وہ تبدیل ہو گئی ہیں۔ اب والدین اور لڑکے کو پر اعتماد، اورملازمت پیشہ لڑکی کی تلاش ہے۔
کہا جاتا ہے کہ رشتے آسمانوں پر طے ہوتے ہیں۔ اور ہر انسان کا جوڑا لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ کس کو کیسا جیون ساتھی ملنا ہے۔ یہ اس کی تقدیر میں پہلے سے لکھا جا چکا ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انسان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے۔ اور یہ امید کرے کہ اس کا جوڑا اس تک خود بخود پہنچ جائے گا۔ بلکہ تدبیر اور حیلہ انسان نے ہی کرنا ہے۔ اسے شعور اسی لئے دیا گیا کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے کرے۔ فیصلے کے صحیح یا غلط ہونے کی بحث ایک الگ چیز ہے۔ بہ ہرحال انسان کو اختیارحاصل ہے کہ وہ تدبیراور دعا سے اپنی قسمت تبدیل کرسکتا ہے۔

لوگوں کی بڑھتی ہوئی خواہشات اور معیارمیں اضافہ ہوا ہے۔ اس میں کچھ ہاتھ میڈیا کی ترقی کا بھی ہے۔  جس نے والدین کے ساتھ لڑکی اور لڑکے کی سوچ کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔ وہ اپنے آئیڈیل سے کم کسی کو قبول کرنےپر تیار ہی نہیں ہوتے۔ جبکہ زندگی کی حقیقت اور سچائی کچھ اور ہے۔ اس کا اندازہ انہیں تب ہوتا ہے جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں۔

شادی کے بعد انہیں نہ صرف شوہر اور بیوی کے حقوق و فرائض پورے کرنے پڑتے ہیں۔ بلکہ رشتہ داریوں کو کیسے نبھانا ہے۔ ان میں توازن قائم کیسے رکھنا ہے۔ اس سب سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ جس پھولوں کی سیج کا تصور کئے اور خواب سجائے وہ زندگی کے اس نئے راستے پر قدم رکھتے ہیں۔ اس کی حقیقتوں کا اندازہ انہیں چند دن میں ہی ہو جاتا ہے۔ رشتے کی تلاش میں دولت، شان و شوکت اور ظاہری معیارکواہمیت دینے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

اچھے رشتے ملنا اور پھر انہیں نبھانا ایک توجہ طلب موضوع ہے۔ آج کل اکثریت کی خواہش ہوتی ہے کہ لڑکی خوبصورت ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ اور ٹرک بھر کر جہیز لائے۔ خواہ ان کا لڑکا اس کے معیار پر پورا اترتا ہو یا نہیں۔ بات صرف یہیں نہیں رکتی۔ بیٹے کو کاروبار شروع کروا کر دینے، پلاٹ، گھر اور گاڑی جیسی فرمائشیں عام ہو چکی ہیں۔ بہت سے رشتے ان وجوہات کی بناء پر ٹوٹتے دیکھے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ شادی کے بعد پوری نہ ہونے والی فرمائشوں پر نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔

لڑکا اگر ایسی خواہش نہ بھی رکھتا ہو تو اسے والدین کی جانب سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جنہوں نے برادری میں اپنی ناک اونچی رکھنی ہوتی ہے۔ لڑکی کے والدین جہیز جمع کرتے کرتے اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ اور کتنی ہی لڑکیوں کے سر میں چاندی اتر آتی ہے۔

سمپل رشتہ جو پاکستان کی ایک ابھرتی ہوئی رشتہ ویب سائٹ ہے۔ انکے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے۔ رشتے کی تلاش کرتے وقت بیشترلڑکوں کی خواہش ہوتی ہے کہ لڑکی امیر خاندان سے تعلق رکھتی ہو۔ خواہ طلاق یافتہ، بیوہ اور زیادہ عمر کی ہو۔ ایسے رشتے جوڑنے کے پیچھے محض دنیاوی فائدہ ہوتا ہے۔ جو جلد یا بدیر سامنے آ جاتا ہے۔  اور توقعات پوری نہ ہونے کی صورت میں رشتہ ختم ہونے کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔

لڑکوں کو برطانیہ یا امریکہ میں مقیم خاندان سے رشتہ چاہئیے ہوتا ہے۔ اورساتھ دینداری اور شرافت کی شرط رکھ دی جاتی ہے۔ ایسے مادر پدر آزاد معاشروں میں جہاں نوجوانوں کو خاص کر ہر قسم کی آزادی حاصل ہے۔ اور وہ اپنے فیصلے کرنے میں خود مختار ہوتے ہیں۔ اٹھارہ سال کی عمر سے ہی وہ اپنے ماں باپ سے الگ ہو کر اپنی دنیا بسا لیتے ہیں۔ انہیں رشتوں کی اہمیت اور نزاکت کا علم کیسے ہو سکتا ہے۔ وہ شادی کے بعد خاندان کو جوڑ کر رکھیں یا جوائنٹ فیملی میں رہنا قبول کریں گے۔ یا کسی ایسے شخص سے شادی کریں گے۔ جو زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے ان کے کاندھے کا سہارا ڈھونڈ رہا ہو۔ ان سے ایسی توقع رکھنا عبث ہے۔

بعض اوقات لڑکے کے دوست یارشتہ دار ہی اس کی مناسب عمر میں شادی میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ خاص کر وہ دوست جن کو قسمت سے کسی اچھے خاندان کا رشتہ مل جائے۔ یا بیرون ملک مقیم کوئی فیملی انہیں بیٹی سے شادی کے عوض باہر بلالے۔ ایسے لوگ اپنے دوستوں یا رشتہ داروں کے لئے ایک آئیڈیل کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ اور پھر ہر لڑکے کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی جادو کی چھڑی گھمائے۔ اور انہیں بھی ویسا رشتہ مل جائے۔

بہت سے لوگ وقتی رشتے کی تلاش کے لئے ان ویب سائٹس کا انتخاب بھی کرتے ہیں۔ جو یورپی ممالک میں خالصتا اس مقصد کے لئے بنائی گئی ہیں۔ کہ جہاں محض تعلق قائم کرنے اور وقت گزاری کے لئے لوگ ساتھی تلاش کرتے ہیں۔ اس آزاد ماحول سے متاثرہ نوجوان مشرقی معاشروں میں ایسے جیون ساتھی کی تلاش شروع کر دیتے ہیں۔ جو ملنا نہایت مشکل ہے۔

دوسرا ایک نہایت اہم مسئلہ یہ ہے کہ رشتہ دیکھنے گھر کے بہت زیادہ لوگ چلے جاتے ہیں۔ ہر کوئی اپنے نقطہ نظر سے لڑکی یا لڑکے کو جانچتا ہے۔ اور اکثر معمولی باتوں کو بنیاد بنا کر رشتے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ جیسے کہ لڑکی کی آنکھیں چھوٹی ہیں۔ ناک موٹی ہے، چائے اچھی نہیں تھی۔ لوازمات پیش کرنے کا سلیقہ نہیں تھا۔ کھانے میں نمک مرچ بہت کم تھی۔ یا لڑکے کا قد چھوٹا ہے۔ سرکاری نوکری نہیں ہے۔ گھر کرائے کا ہے۔ لڑکا نظر کا چشمہ لگاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

اایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ والدین ہونا جرم ہے۔ پے در پے رشتوں سے انکار پر اکثر خاندان مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور پھر والدین پریشان ہو کر کسی بھی آنے والے رشتے کے لئے ہاں کر دیتے ہیں۔ اور اسے نصیب اور قسمت سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات خاندان والوں کے دباؤ کا شکار ہو کر والدین کوئی غلط فیصلہ کر لیتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سب سے پہلے رشتے کی تلاش میں اپنے معیار کو تبدیل کیا جائے۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ  دینی تعلیم کو اہمیت دی جائے۔

ایسے رشتے تلاش کئے جائیں جو دینی و دنیاوی دونوں لحاظ سے بچوں کے حق میں بہتر ہوں۔ تعلیمی قابلیت، عمر اور رتبہ میں انیس بیس کے فرق کو کھلے دل سے قبول کیا جائے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیاں اگر ملازمت بھی کرنے لگیں تو اکثر والدین ان پر مالی انحصار کرنا شروع کردیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے لڑکیوں کی شادی میں تاخیر ہوتی چلی جاتی ہے۔ یا پھر ان کے لئے اتنا ہی تعلیم یافتہ لڑکا ڈھونڈنے میں عمر ضائع کر دی جاتی ہے۔

شادی میں تاخیر کرنا انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر مناسب نہیں۔ کچھ باتوں پر سمجھوتہ کر کے رشتہ قائم کرلینا ہی دانشمندی ہے۔ اس کےلیے معاشرے میں شعور اجاگر کرنا نہایت ضروری ہے۔ سمپل رشتہ اگرچہ ایک رشتہ ویب سائٹ ہے۔ لیکن معاشرتی مسائل پرخاص کر رشتے کی تلاش میں حقیقت پسندانہ سوچ اختیار کرنے تلقین بھی کرتےہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے بزرگوں، اساتذہ، سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں کو اس کی آگاہی دینی ہو گی۔ اور خاص کر پرنٹ، الیکٹرانک اور خاص کر سوشل میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

ہماری آج کی بحث یہیں پر ختم ہوتی ہے۔ لیکن لاتعداد سوال اپنے پیچھے چھوڑ رہی ہے۔ "کہ رشتوں کہ مسائل کا سامنا ہمیں کیوں اور کب تک رہے گا۔” آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں تو ہمیں کمنٹ باکس میں آپ کی آراء کا انتظار رہے گا۔

اور اگر آپ کو ایک اچھے رشتے کی تلاش ہے تو سمپل رشتہ سے بہتر انتخاب کوئی نہیں۔