برطانوی میڈیا کے مطابق چند ماہرین نے "گھوسٹ بوٹ” کے نام سے ایک ایپلی کیشن تیار کی ہے جووفات پا جانے والے افراد کی تصاویر، آواز، سوشل میڈیا پوسٹ کے علاوہ ان کے ٹو دی اور تھری ڈی ماڈل بھی بنائے گی۔ دیکھنے اور سننے والوں کو یوں محسوس ہو گا کہ وہ شخص واقعی سکرین پر ان کے ساتھ بات کر رہا ہے۔ اس سے جو بات کی جائے گی وہ اس کا جواب بھی دے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ایپ کے ذریعے لوگ اپنے مرحوم  دوستوں اور رشتہ داروں سے بات کر سکیں گے۔ دیکھا جائے تو رشتے بھی اب ٹیکنالوجی کے محتاج ہو گئے ہیں۔

ایک طرف ایسے لوگ ہیں جو اپنے مرحوم رشتہ داروں کو دل میں بسائے ہوئے ہیں اوربذریعہ نت نئی ایجادات، ان سے بات کرنے اور ان تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف وہ ہیں، جن کی نظر میں اپنے قریب  موجود زندہ رشتوں کی بھی کوئی اہمیت نہیں۔

دور حاضر میں ٹیکنالوجی کی اہمیت:

گزشتہ کچھ عشروں میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں بے شمار ایجادات دیکھنے کو ملی ہیں۔ جنہوں نے گھر، تعلیمی اداروں اور دفاتر کا نظام یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ طب، مواصلات، دفاع غرض تمام شعبہ ہائے زندگی میں ٹیکنالوجی کی بدولت بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔

جدید ٹیکنالوجی نے جہاں دنیا بھر کے ممالک کی سیاسی، معاشی اور سماجی ترقی میں بہت زیادہ مدد کی ہے۔ وہیں موبائل فون کے بے تحاشا استعمال اور انٹرنیٹ تک آسان رسائی نے نوجوانوں کے لیے رشتے ناطے، زندگی کا مفہوم اور رابطے کے ذرائع تبدل کر دئیےہیں۔ دیکھا جائے تو یہ ایک بڑی سہولت ہے۔ انٹرنیٹ نے لوگوں کو با اختیاربنا دیا ہے۔ اور ان کے لئے معاشی مواقعوں کو بھی بڑھا دیا ہے۔

ٹیکنالوجی اور رشتے :

ماہرین کی نت نئی ایجادات اور انٹرنیٹ کے عام ہونے سے دنیا بھرمیں جہاں انقلابات برپا ہوئے۔ برقیاتی رابطے میں آسانی ہوئی۔ سوشل میڈیا اور ویب سائٹس سے سماجی اور بین الاقوامی تعلقات میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو ملا۔ وہیں اس کا نتیجہ رشتوں میں دراڑوں کی صورت نکلا ہے۔

ٹیکنالوجی میں اتنی ترقی سے پہلے جب یہ موبائل فون، ای میل، فیس بک یا واٹس ایپ وغیرہ نہیں تھے۔ خط و کتابت کے ذریعے دور دراز رشتے داروں کی خبر گیری کی جاتی تھی۔ یا ملاقاتوں کا اہتمام ہوتا تھا۔ لیکن اب اس کی جگہ سوشل میڈیا نے لے لی ہے۔

اہم تقریبات کے دعوت نامے بھیجنے ہوں۔ کسی کی تعزیت کرنی ہو یا عیادت۔ سب برقی پیغامات کے ذریعے ہو رہا ہے۔ رشتے کی تلاش ہو یا شادی ، سب کام ان لائن ہو رہے ہیں۔

 نجی زندگیوں پر ٹیکنالوجی کے اثرات:

لیکن اس ٹیکنالوجی نے میلوں کے فاصلے کم کرنے کے ساتھ ساتھ دلوں میں دوریاں بھی پیدا کردی ہیں۔ اس سے پہلے رشتوں میں اتنی پیچیدگیاں بھی نہیں تھیں۔ کوئی مشکل درپیش آتی تھی تو معاملہ گھر کے بڑے اور قریبی رشتہ حل کر لیا کرتے تھے۔ یوں گھر کی بات گھر میں ہی رہ جاتی تھی۔ لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔

ذرا سی رنجش کی اطلاع فیس بک یا واٹس ایپ کے ذریعے دور دراز کے رشتہ داروں تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ اور نت نئے مشورے ملنے اور ان پر عمل کی صورت میں معاملہ بعض اوقات بگڑ جاتا ہے۔

رشتے داروں کے ہر معاملے یا مسئلہ پر تبادلہ خیال کرنا ہر کوئی اپنا فرض سمجھتا ہے۔ متاثرین کو سمجھانے کے بجائے ایسے مشوروں سے نوازا کیا جاتا ہے کہ جو ان کی زندگی میں نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ اوراکثر تو یہ سلسلہ تب تک جاری رہتا ہے۔ جب تک طلاق یا خلع کی صورت رشتہ ختم نہ ہو جائے۔ نوبیاہتا جوڑوں کی زندگی پر خاص کر اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

خاندان میں کسی بچی یا بچے کے لئے ضرورت رشتہ کی بات ہوتی تو گھر کے بڑے بزرگ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ان کا مناسب رشتہ تلاش کرتے۔ اورشادی تک کے تمام انتظامات اور اخراجات میں بھرپو مدد کرتے۔ لیکن آج کل اصراف اور نمود و نمائش اس قدر بڑھ گئی ہے۔ کہ گھر کے بزرگوں کو پرانے خیالات کے حامی قرار دے کر تمام معاملات سے الگ کر دیا جاتا ہے۔

ٹیکنالوجی کی اس ترقی نے ہماری زندگیوں پرجہاں مثبت اثرات ڈالا ہے۔ وہیں منفی اثرات بھی دیکھنے کو ملے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ہاتھوں مغلوب ہماری نوجوان نسل ان میں مصروف ہو کر اپنے خونی اور قریبی رشتوں سے الگ ہو چکی ہے۔ اس سوشل میڈیائی دور میں ماں باپ کے پاس بچوں کے لئےوقت نہیں۔ اور بچوں کے پاس اپنے والدین کے لئے۔ نفسا نفسی کے اس دور میں رشتوں کا لحاظ، ادب، پاس سب ختم ہو چکا ہے۔

رشتہ ماں باپ کا اولاد سے ہو، بہن کا بھائی سے یا شوہر کا بیوی سے، ہماری پہچان ہیں۔ اور ان سے منہ نہیں موڑا جا سکتا۔ یہ رشتے ہماری زندگی میں سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

لیکن آج کل لوگ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی بھول بھلیوں میں اتنا کھو گئے ہیں کہ کسی کے پاس بات یا ملاقات تو کجا، سوچنے کی بھی فرصت نہیں رہی۔ ان ایجادات پر ایک کلک اگر ہمیں ہزاروں لاکھوں انجان لوگوں سے ملا رہا ہے۔ تو دوسری طرف اپنوں سے دور بھی کر رہا ہے۔

سوشل میڈیا نے لوگوں کو اظہاررائے کی آزادی دی تو ہر کوئی اپنے محدود علم کے ساتھ دانشور بننے کی کوشش میں ہے۔ جس کا نتیجہ لوگوں میں اختلافات اور دوریوں کی صورت نکل رہا ہے۔

ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کی بدولت اپنے پیاروں سے دوری اور تنازعات بھی ایک تلخ حقیقت ہے۔ جس سے نہ صرف رشتے اور تعلق بلکہ بعض اوقات زندگیاں بھی خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔ ایجادات کی بھرمار، اسلامی اقدار سے دوری، اور والدین کی عدم توجہی اور حقائق سے چشم پوشی کی بدولت کم عمر بچوں کے ذہن میں منفی خیالات اور جذبات پرورش پا رہے ہیں۔ جس کا عملی مظاہرہ ہم جرائم میں اضافے، انتہا پسندی اور اخلاقی بے راہ روی کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔

ماضی میں لوگوں کے درمیان محبت اور احترام کا مضبوط رشتہ قائم تھا۔ لوگ اپنے پیاروں پر اعتبارکرنے، کسی بھی مشکل میں انکی مدد کرنے اور ان کے دکھ درد میں شریک ہونا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ اپنے تو اپنے، غیروں کے لئے بھی ہمدردی، ایثار اور قربانی سے دریغ نہیں کیا جاتا تھا۔ کٹھن وقت میں بنا کہے سب ایک دوسرے کی مدد کے لئے سب تیار ہوتے تھے۔ لیکن جوں جوں دنیا ترقی کی منازل طے کرتی جا رہی ہے، رویے تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ لوگ اپنی زندگیوں میں اس قدر مصروف ہوچکے ہیں کہ ان کے متعلقین اور رشتہ دار کسی الجھن یا پریشانی میں مبتلا ہیں۔ اس بات کی انہیں خبر ہی نہیں ہوتی۔ یہ ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہے۔

حاصل بحث:

حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی ایجاد بری نہیں ہوتی۔ بس اس کا بے محابا استعمال نقصان دہ ہوتا ہے۔ ہماری نوجوان نسل جو اعلی تعلیم اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا رہی ہے۔ اس بات کو مدنظر ضرور رکھے کہ اپنی ان کامیابیوں اور زمانے کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے کی خواہش میں کھو کرکہیں اپنا اصل نہ کھو دے۔ اور اپنے پیاروں سے دور ہو کر تنہا نہ رہ جائے۔

اگر آپ ایک اچھے رشتے کی تلاش میں ہیں تو سمپل رشتہ پر رجسٹریشن آپ کی یہ مشکل دور کر سکتی ہے۔ نیچے دئیے گئے لنک پر کلک کریں اور رجسٹریشن کا آغاز کریں۔