شادی ایک ایسا جامع نظام معاشرت ہے۔ جو ہر بالغ مرد اورعورت کو فواحش ومنکرات سے بچاتا ہے۔ اور ایک فطری اور طبعی اعتدال کے ساتھ نسل انسانی کی بقاء ودوام پر معمور کرتا ہے۔

اس معاملے میں دونوں انتہاؤں سے گریز ہی اس کی کامیابی کا ذریعہ ہے۔ نہ تو شادی اتنی کم عمری میں کر دی جائے کہ لڑکا یا لڑکی اپنی ذمہ داریوں اور حقوق و فرائض سے نا آشنا ہوں۔ اور نہ ہی اس میں اتنی تاخیر کی جائے کہ عمر میں اضافے کے ساتھ جذبات و خواہشات میں کمی دیکھنے کو ملے۔

نوجوان اپنی زندگی کے سنہرے سال تنہا اور خواہشوں کے بوجھ تلے گزار دیں۔ اور جب ازدواجی زندگی شروع ہو تومستقبل کے اندیشے اور بڑھتی عمر کے مسائل انہیں اس کی خوبصورتی سے حظ نہ اٹھانے دیں۔ اس لئے ہر صورت اعتدال سے کام لینا چاہئیے۔

سمپل رشتہ ایک ایسا ادارہ ہے جو رشتہ کی تلاش میں والدین کی مدد تو کرتا ہی ہے لیکن اس کے ساتھ معاشرے میں شعور پیدا کرنے کے لئے اپنا بنیادی کردار بھی ادا کر رہا ہے۔ ان کا مقصد محض لوگوں کو شادی اور ضرورت رشتہ کے لئے مدد فراہم کرنا نہیں بلکہ انہیں ان کے حقوق و فرائض اور ذمہ داریوں سے روشناس کروانے کے ساتھ ساتھ حقیقت پسندی کی جانب مائل بھی کرنا ہے۔

اس بلاگ میں بھی ایک سماجی مسئلے کی نشاندہی، اس کے اسباب اور حل پر بحث کی گئی ہے۔ آئیے پڑھتے ہیں۔

شادی میں تاخیر کی وجوہات:

بچوں کو تعلیم کے بوجھ تلے دبا کر شادی جیسے اہم فریضے میں تاخیرایک درست عمل نہیں۔ خاص کر لڑکیاں جو معاشی بوجھ سے آزاد ہیں۔ ان کے فرض کی ادائی میں محض اس لئے تاخیر کرنا کہ وہ اعلی تعلیم حاصل کر کے برسر روزگار ہو جائیں، ٹھیک نہیں۔

ہمارے مذہب نے معاش کی ذمہ داری مرد پر ڈالی ہے۔ خواتین اگر تعلیم حاصل کرنا چاہیں یا ملازمت کی خواہشمند ہوں۔ تو شادی کے بعد اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ اگر وہ سمجھتی ہیں کہ گھریلو ذمہ داریاں اور شوہر کے حقوق پورے کرنے کے بعد وہ اس قابل ہیں کہ مزید تعلیم یا ملازمت کے لئے وقت نکال سکتی ہیں۔ تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

لیکن محض اس ضد میں شادی دیر سے کرنا کہ پہلے تعلیم مکمل کر کے ملازمت ڈھونڈنی ہے۔ پھر شادی کرنی ہے۔ یہ عقلمندانہ فیصلہ نہیں۔ ملازمت پیشہ خواتین کو بہت سی مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

شادی میں تاخیر کی جہاں بہت سی وجوہات ہیں۔ وہاں ایک یہ بھی ہے کہ لڑکے والوں کی طرف سے بہت زیادہ جہیزکی فرمائش کر دی جاتی ہے۔ کار، گھر، پلاٹ، کے علاوہ لڑکے کے خاندان والوں کے لئے بیش قیمت تحائف، شامل ہیں۔

دوسری طرف لڑکی کے والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ لڑکا اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ برسر روزگار بھی ہو۔ خاص کر اگر بزنس کرتا ہو یا گورنمنٹ کی ملازمت ہو تو ایسے لڑکوں کو ان پر ترجیح دی جاتی ہے جو پرائیوٹ ملازمت کرتے ہیں۔

آج کل لڑکے سے زیادہ اس کے گھر والوں نے خوبصورتی کو اپنا معیار بنا لیا ہے۔ ساس کو ایسی بہو چاہئیے جو چاند چہرہ ہونے کے ساتھ گھریلو امور میں بھی طاق ہو۔ نند کو ایسی بھابی چاہئیے جس کو وہ فخریہ اپنی دوستوں سے متعارف کروا سکے۔ لڑکے کو بیوی ایسی چاہئیے جو اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکے۔

ایک وجہ یہ بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ ماں اپنی بیٹی کا رشتہ تو خاندان میں بخوشی کرنے کو تیار ہے۔ لیکن جب اپنے بیٹے کی شادی کا معاملہ آتا ہے تو خاندان کی لڑکیوں کو رد کرتے ہوئے کوئی باہر کی لڑکی بیاہ لی جاتی ہے۔

اس کا اثر ان کے گھرانے پر پڑے یا نہیں۔ لیکن خاندان کی لڑکیوں پر ضرور منفی اثر پڑتا ہے۔ لوگ خوامخواہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ضرورلڑکی میں کوئی کمی ہو گی۔ یا کوئی ٹھوس وجہ ہے جو اس لڑکی کا رشتہ اپنے ہی خاندان میں نہیں ہوا۔

بے جا رسومات بھی شادی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ جن پر بے تحاشا فضول خرچی کا لوگوں نے ایک معیار بنا لیا ہے۔ من پسند خواہشات، سسرال کی طرف سے فرمائشیں۔ اور دوسروں سے مقابلے کی ہوس نوجوانوں کو بعض اوقات احساس کمتری کا شکار کر دیتی ہے۔

شادی میں تاخیر کی بدولت پیش آنے والے مسائل:

۱- شادیوں میں تاخیر کی وجہ سے نوجوانون میں اخلاقی خرابیاں پیدا ہورہی ہیں۔

۲- ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر نوجوان خودکشی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

۳- بین المذاہب شادیوں کو فروغ مل رہا ہے۔

۴- شادیوں میں بے جا رسومات اور اخراجات کی بدولت ایک خطیر غیر ضروری کاموں پر خرچ ہو رہا ہے۔ اور والدین اور بھائیوں پر معاشی بوجھ  بڑھ رہا ہے۔

۵- لڑکیوں کو جہیز دینے اور وراثت کے حق سے محروم کرنے کے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔

۶- بہت سے والدین شادیوں کے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے قرض لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جو بعض اوقات انہیں سود پر ملتا ہے۔ جو بذات خود ایک بڑی پریشانی ہے۔

۷- آج کل کی شادیاں وقت کا ضیاع ہیں۔ ایک ایک ہفتے پر محیط رسومات اور تقاریب پیسے کے ساتھ وقت کی بھی بربادی ہیں۔

۸- زمانہ جاہلیت کی طرح بہت سے والدین لڑکیوں کی پیدائش کو ایک بوجھ سمجھنے لگے ہیں۔ جس کی وجہ سے لڑکیوں پر لڑکے پیدا کرنے کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اور لڑکی کی پیدائش کی صورت میں ان کی گھریلو زندگی خراب ہو رہی ہے۔ اور اکثر تو بات طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔

۹- شادیاں آج کل شوہر اور بیوی کے درمیان تنازعات کا سبب بھی بن رہی ہیں۔ اگر والدین کے ساتھ بیٹے بھی بہنوں یا چھوٹے بھائوں کی شادی کے اخراجا ت میں حصہ دار بنیں۔ تو ان کا بجٹ متاثر ہوتا ہے۔ اور اس بناء پر شوہر اور بیوی کے درمیان بھی چپقلش بڑھتی ہے۔

جہاں اولاد کی پرورش، تربیت اور مناسب تعلیم والدین کی ذمہ داری ہے۔ وہیں بروقت اچھے رشتے کی تلاش اورشادی بھی والدین کا ایک اہم فریضہ ہے۔

بروقت شادیوں کا حل:

بروقت شادی اور رشتہ کی تلاش کا مناسب حل یہی ہے کہ بزرگ اپنے خاندان کو ایک باقاعدہ تنظیم کی شکل دیں۔ خاندان کے چند معزز اور سمجھدار لوگوں پر مشتمل ایک ٹرسٹ قائم کیا جائے۔ سال میں دو یا تین بار یہ تنظیم اجتماع کروائے۔ جہاں تمام شرکاء کے لئے اصلاحی پروگرام ترتیب دئیے جائیں۔

رشتے کی تلاش سے لے کر جہیز اورشادی کی تقاریب سے متعلق آگاہی فراہم کی جائے۔ خاندان کے مشترکہ مسائل زیر غور لائے جائیں۔ کسی گھرانے کو معاشی یا دیگر مسائل درپیش ہوں تو مشترکہ فنڈ یا خاندان کے بااثر افراد کے تعاون سے ان کے حل کی راہ نکالی جائے۔

ممکن ہو تو خاندانی سطح پر اجتماعی شادیوں کو فروغ دیا جائے۔ ایسے اجتماع نوجوانوں کی اصلاح و تربیت کا ذریعہ بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔

سادگی سے شادی کا مطلب صرف تقریب کا آسان ہونا نہیں ہے۔ بلکہ اس کی راہ میں درپیش سماجی، تہذیبی اور قانونی رکاوٹوں کا ہر ممکن ازالہ بھی شامل ہے۔ دوسری شادی، مطلقہ یا بیوہ کے نکاح میں اس کے گھر والے یا بچے رکاوٹ نہ بنیں۔ خاندان والے انہیں طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنائیں۔

پہلی شادی ہو یا دوسری، رشتے کے انتخاب کا دائرہ وسیع ہو۔ ذات پات، معاشی حیثیت، تعلیم کا معمولی فرق، سرکاری یا غیر سرکاری نوکری، معیار زندگی۔ یہ تمام مادہ پرست تصورات رشتوں کے انتخاب کو محدود کرتے ہیں۔ اورشادی میں تاخیر کی وجہ بھی ہیں۔

ہمیں اس روش کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ والدین اپنے بچوں کی شادیوں میں بلا وجہ تاخیر نہ کریں۔ ورنہ بچوں کی نفسیات متاثر ہونے کی وجہ سے معاشرے پر اس کا اچھا اثر نہیں پڑے گا۔ بہت سے معاشرتی اور سماجی مسائل پیدا ہوں گے۔