افلاطون ایک قدیم یونانی فلسفی تھا جسے مغربی فلسفہ کی ایک اہم شخصیت کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ افلاطون کا فلسفہ تو رہا ایک طرف لیکن جس چیز نے نوجوان نسل میں مقبولیت حاصل کر لی وہ "افلاطونی محبت” کی اصطلاح تھی۔ حالانہ خود افلاطون نے اس اصطلاح کا کبھی استعمال نہیں کیا۔ اس سے مراد ایک ایسی محبت یا قریبی تعلق ہے۔ جس میں شہوت نہیں ہوتی۔ اورمحبت نفسانی خواہشات کی بجائے روح سے وابستگی رکھتی ہے۔ ایسی صمٌ بکمٌ محبت کو افلاطون کے نام سے موسوم کر دیا گیا ۔۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ افلاطون کے فلسفہ تو کیا خواب و خیال میں بھی کبھی یہ اصطلاح نہ گزری ہو گی۔ لیکن شادی عام طور پر اس سے متضاد چیز ہے۔ اسی وجہ سے شادی کی بنیاد محبت کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار مجبوری بھی بن جاتی ہے۔

جیسے ایک افلاطونی محبت ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح ایک افلاطونی شادی بھی ہوتی ہے۔ یہ اصطلاح خالصتا ہمارے بزرگوں کی ایجاد کردہ ہے۔ جس کا شکار آج کل کے ترقی یافتہ زمانے میں بھی ہمارے نوجوان ہو رہے ہیں۔ جیسے افلاطونی محبت کو رومانی محبت کی ضد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی ہم افلاطونی شادی کو رومانی یا محبت کی شادی کی ضد کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔

کچھ گھرانوں میں یہ وارداتِ عقد نومولود کی پیدائش کے وقت ہی وہاں موجود کسی چچا، خالہ، ماموں یا پھوپھو کے بیٹے کے ساتھ حاضرین کی موجودگی میں طے پا جاتی ہے۔ اور بعض اوقات تو جس کے ساتھ عقد طے کیا جاتا ہے۔ بقول مولانا ابو الکلام آزاد ان کے تہمتِ حیات سے مہتمم ہونے ( یعنی پیدا ہونے) میں بھی کچھ وقت باقی ہوتا ہے۔ اور سب کچھ بالا بالا طے کر لیا جاتا ہے۔

یعنی شادی کی بنیاد محبت کی بجائے بڑوں کا ذاتی مفاد بن جاتی ہے۔ بڑے ہونے کے بعد جب متاثرین پر یہ حقیقت کھلتی ہے کہ اس جنم میں ان کی قسمت حلقہ یاراں کی بجائے بصورتِ عم زاد  لکھ دی گئی ہے۔ تو بیشتر ستم زدہ اس مشیتِ مادری و پدری پرخون کے گھونٹ کو ہی صبر کے گھونٹ سمجھ کر پی جاتے ہیں۔ اس امید پر کہ صبر کا پھل تو بالآخر میٹھا ہی ہوتا ہے۔  ساحر لدھیانوی نے شاید ایسے ہی کسی موقع پر فرمایا تھا۔

یہ رسم انقطاع عہد الفت یہ حیات نو

محبت رو رہی ہے اور تمدن مسکراتا ہے

اور جو تیس مار خان صبر کی بجائے خون کے گھونٹ پینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس امید پر کہ وہ اپنی تقدیر بدل دیں گے۔ یا قسمت سے لڑ جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ ان کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو ایک بار عطا الحق قاسمی نے کہا تھا۔

"بات صرف ایک حد تک درست ہے۔ یعنی شادیاں طے دلہا دلہن کے والدین ہی کرتے ہیں۔ مگر طے کرنے سے پہلے دلہا دلہن کی رائے ضرور لے لیتے ہیں”

"انکار کر دیں تو کیا ہوتا ہے”  لڑکی نے اشتیاق سے پوچھا۔

"پھر بھی کر دیتے ہیں” عطا الحق قاسمی نے ٹھنڈی سانس بھر کر جواب دیا۔

ایسے باغی جوڑے اس شعر کی عملی تفسیر بنے نظر آتے ہیں۔

سودا گلے پڑے کا ہے اچھا ہے یا برا

ناچار ساتھ دیتے ہیں بختِ سیاہ کا

اس میں کوئی شک نہیں کی شادی کی بنیاد محبت ہو یا نہ ہو۔ لیکن رشتہ دارواں اور والدین کی وساطت سے طے شدہ رشتوں میں کامیابی کا تناسب نسبتا زیادہ ہے۔ ان معاملات میں قسمت اور قدرت کے بعد رشتہ داروں پر بھروسہ اخوت اور بھائی چارے کی عمدہ مثال سہی۔ لیکن بچوں کی صورت، سیرت، تعلیم اور مزاج  سے ناواقف ہوتے ہوئے ایسے فیصلے کر دینا ان کے مستقبل کے ساتھ کھیل ہے۔ جس پر والدین کو سوچنا چاہئیے۔

آج کی نوجوان نسل کا رجحان میرج بیورو کی جانب اسی لئے بڑھا ہے کہ وہ ایسی بے جوڑ شادیوں اور زبردستی کے بندھن سے نجات پا سکیں۔ کیونکہ معاشرے میں ہر شخص اپنے ہم خیال ، ہم مزاج، اور ہم زبان لوگوں کا ساتھ پسند کرتا ہے۔  فارسی کا ایک شعر جو اردو میں بطور ضرب المثل مستعمل ہے اس کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔

کند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر باز با باز

یعنی ایک کبوتر دوران پرواز کبوتروں کی معیت میں ہی رہنا پسند کرتا ہے۔ اسی طرح باز بھی اپنے ہم جنسوں کی صحبت میں  ہی رہتا ہے۔ یہی  نفسیات  انسان کی ہے کہ وہ اپنے ہم عمر اور ہم مزاج لوگوں کی صحبت میں زیادہ خوش اور مطمئن رہتا ہے۔ شادی کی بنیاد محبت نہ ہو۔ بلکہ اولاد پر زبردستی کوئی فیصلہ ٹھونس دیا جائے۔ ان کی خواہش اور منتخب کردہ جیون ساتھی کے ساتھ ان کی ذہنی مطابقت کا لحاظ نہ رکھا جائے۔ تو ایسے بے جوڑ یا جبری شادیوں کا شکار جوڑے اپنی گھریلو زندگی میں غیر مطمئن ہونے کے ساتھ ساتھ آنے والی نسل کو بھی ٹھیک سے پروان نہیں چڑھا پاتے۔
ہمیں اپنی روایات اور رسوم و رواج کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ ایسی شادیوں کی روک تھام اور معاشرے کو صحیح خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ اور جس اولاد کو نہایت محبت اور ارمانوں سے پال پوس کر بڑاکرتے ہیں ان کی شادی کرتے وقت ان کی رضامندی اور خوشی کو اہمیت دیں۔ شادی کی بنیاد محبت کو بنائیں تا کہ وہ خود اور ان کی آنے والی نسلیں ایک خوشگوار اور پرسکون زندگی گزار سکیں۔