انسان کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لے۔ کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھا لے۔ دوسرے سیاروں تک رسائی حاصل کر لے۔ لیکن شادی کے معاملے میں زیادہ تراس کی سوچ روایتی ہی ہے۔ اور اس میں کوئی خاص تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی۔ مردوں نے آج بھی آئیڈیل شریک حیات کا انتخاب کرنا ہو۔ تو ایک نازک اندام، دبلی پتلی پرکشش لڑکی ہی ان کا انتخاب ٹھہرتی ہے۔ اورایک لڑکی کے لئے آئیڈیل مرد وہ ہے۔ جو معاشی طور پر مستحکم ہو۔

لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے۔ کہ شریک حیات کا انتخاب کرتے وقت ان خصوصیات کو زیادہ تر وہ مرد و خواتین ترجیح دیتے ہیں۔ جو زندگی کی بنیاد مادی خواہشات پر رکھنا چاہتے ہیں۔ اکثرخواتین کو کم عمری کے باعث دولت مند عمر رسیدہ مردوں سے شادی کرتے دیکھا گیا ہے۔ یا اکثر نوجوان جو اپنے خاندان یا ملک میں کسی سفید پوش خاندان کی خوبصورت اور تعلیم یافتہ لڑکی کو ٹھکرا دیتے ہیں۔ بیرون ملک مقیم کسی بڑی عمر کی عورت سے شادی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔

مذہب کی رو سے دیکھا جائے تو ان خصوصیات کی بنیاد ہر شریک حیات کا انتخاب غلط نہیں۔ لیکن یہ صرف اس صورت میں جائز یا مناسب ہو گا۔ اگر آپ نیک نیتی سے کام لیتے ہوئے ایسا قدم اٹھائیں۔ اگر کوئی شخص دنیاوی فائدوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا فیصلہ کرتا ہے۔ تو اسے کبھی نہ کبھی پچھتانا ضرور پڑتا ہے۔ بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جو معاشی خوشحالی  اور ترقی کی حسرت لے کرایسے ہی کسی بے جوڑ رشتے میں بندھے۔ اور کامیاب زندگی گزاری۔ زیادہ تر یہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ کہ عادات اور عمروں کا فرق کسی نہ کسی موڑ پر آ کر ایسے شادی شدہ جوڑوں کواپنے راستے الگ کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

شادی اور شریک حیات کا انتخاب کرنا زندگی کا ایک اہم فیصلہ ہے۔ اور اس کی بنیاد ظاہری اور مادی خواہشات کو مدنظر رکھ کر نہیں رکھنی چاہئیے۔ جو دو لوگ ایک ساتھ اپنی پوری زندگی گزارنا چاہ رہے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کی اقدار، عقائد، خاندان اور رسوم و رواج سے واقف ہوں۔

لیکن فکر کی بات یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل میڈیا سے متاثر ہے۔ انہیں اپنا شریک حیات ویسا ہی چاہئیے جیسا ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے۔ اگر ہم بات کریں کہ شریک حیات کے انتخاب میں اکثر لوگ کیا غلطی کرتے ہیں تو اس میں درج ذیل باتوں کو مدنظر رکھنا چاہئیے۔

شریک حیات کا انتخاب اور عمروں کا فرق:

شادی کے لئے لڑکی اور لڑکے کے درمیان عمر کا فرق سماجی ماہرین کے درمیان ہمیشہ موضوع بحث رہا ہے۔ حالانکہ شادی کی کامیابی کا انحصار ذہنی ہم آہنگی، دونوں کے درمیان مشترکہ امور اور افہام و تفہیم پر ہے۔ اور ذہنی و فکری پختگی کسی بھی عمر میں حاصل ہو سکتی ہے۔ اس کا تعلق نہ جنس سے ہے نہ عمر سے۔

ایک لڑکے اور لڑکی کے لئے عمروں کا فرق اہمیت نہ بھی رکھتا ہو لیکن خاندان والوں کے لئے اس بات کو قبول کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ انہیں اپنے بیٹے کے لئے ہمیشہ ہم عمر لڑکی ہی چاہئیے ہوتی ہے۔  شوہر اور بیوی فکری طور پر ہم آہنگ ہوں تو عمروں کا فرق اہمیت نہیں رکھتا۔ اس لئے عمر کے فرق کو بنیاد بنا کر کسی اچھے رشتے سے انکار نہیں کرنا چاہئِے۔

اس ضمن میں لڑکے اور لڑکی کی رضامندی ضرور معلوم کر لینی چاہئِے۔ ہو سکتا ہے شریک حیات کا انتخاب کرتے ہوئےعمر کے فرق پر والدین کو کوئی اعتراض نہ ہو لیکن لڑکی یا لڑکا جس نے ساری زندگی گزارنی ہے وہ اس کا دل اس بات پر راضی نہ ہو۔

معاشی حیثیت:

خوشگوار ازدواجی زندگی گزارنے کے لئے دونوں گھرانوں کی حیثیتوں کا ایک جیسا ہونا بعض اوقات ضروری ہوتا ہے۔ طبقاتی فرق کی وجہ سے نہ صرف شوہر اور بیوی بلکہ ان دونوں کے تعلقات اپنے سسرال والوں سے بھی خراب ہونے کا اندیشہ ہوتاہے۔ اگر دو خاندان معاشی لحاظ سے ہم پلہ نہیں ہیں۔ تو یہ بات رشتے لے جاتے وقت واضح کر لینی چاہئِے۔ اگر دونوں گھرانوں کو اس بات پر اعتراض نہ ہو تو بات آگے بڑھائِ جائے۔ اس سلسلے میں غلط بیانی سے ہرگز کام نہ لیا جائے۔ کیونکہ شادی چند دنوں کا کھیل نہیں ہے۔

ہمارے معاشرے میں رائج بہت سے رویے، اصول اور رسوم و رواج بھی طبقاتی تقسیم کو فروغ دینے کا باعث بنتے ہیں۔ جیسا کہ آج کل شادی بیاہ کی بہت سی اضافی رسمیں رائج ہو گئی ہیں۔ پھر سالگرہ اور اسی ہی دیگر تقاریب بڑے پیمانے پر منائی جانے لگی ہیں۔ جن خاندانوں میں ایسی تمام رسومات کو وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھا جاتا ہو۔ ان کے بچوں کو ان گھروں میں ایڈجسٹ ہونے میں مشکلات درپیش آتی ہیں۔ جہاں ایسی چیزیں روزمرہ زندگی کا حصہ ہوں۔

 اقدار کا فرق:

شادی دو لوگوں نہیں بلکہ دو گھرانوں کا ملاپ ہے۔ شریک حیات اکا انتخاب کرتے وقت اور ساری زندگی ایک ساتھ گزارنے کے عہد کو قائم کرنے سے پہلے دونوں گھرانوں کو کھل کر بات کرنی چاہئیے۔ اور متوقع جوڑے کو انفرادی اقدار اور عقائد ، جیسے مذہب ، خاندانی رسومات ، یہاں تک کے سیاسی نظریات وغیرہ پر بھی بات کرنی چاہئیے۔ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن پر آپ ہمیشہ اتفاق نہیں کرسکتے ہیں۔ لیکن ایک دوسرے کے نقطہ نظر کا احترام کرنا ضروری ہے۔

تعلیم کا فرق:

معاشرہ جیسے جیسے ترقی کرتا جاتا ہے لوگوں کی سوچ، خواہشات اور ترجیحات میں تبدیلی آتی جاتی ہے۔ آج کل کے نوجوان جب شریک حیات کا انتخاب کرتے ہیں۔ تو تعلیم پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔

سمپل رشتہ ایک رشتہ ویب سائٹ ہے ان کے اعداد و شمار کے مطابق زیادہ تر لڑکوں کی طرف سے جو مطالبہ کیا جاتا ہے وہ لڑکی کا تعلیم یافتہ اور مالی طور پر مستحکم ہونا شامل ہوتا ہے۔ زیادہ تر لڑکوں کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں ایسی لڑکی مل جائے جو کسی دوسرے ملک کی شہریت رکھتی ہو اور راتوں رات ان کا مستقبل بدل دے۔ اس کے لئے وہ عمر، تعلیم اور کبھی کبھار تو مذہب کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔

یہاں والدین کا کردار شروع ہوتا ہے کہ وہ ایسے نوجوانوں کو اپنے تجربے کی بنا پر حقیقت سے روشناس کروائیں۔ اور ان کے لئے جو لڑکی منتخب کریں اس کی اور لڑکے کی تعلیم میں زیادہ فرق نہ ہو۔ موجودہ نسل میں مفاہمت کی کمی ہے۔ ورنہ پہلے وقتوں میں لڑکیوں کاتعلیم یافتہ ہونا ضروری خیال نہیں کیا جاتا تھا۔ بلکہ انہیں محض بنیادی اسلامی تعلیم اور گھرداری سکھا ئی جاتی تھی۔ اور تعلیم یافتہ لڑکے ایسی خواتین کے ساتھ بہت اچھا نباہ بھی کر لیتے تھے۔ اب حالات مختلف ہیں۔ اب لڑکی ہو یا لڑکا تعلیم کو ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ شریک حیات کا انتخاب کرتے وقت تعلیمی معاملات میں بھی لڑکی اور لڑکے کی رضامندی لے لینی چاہئیے۔

خیالات کا فرق:

سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے معاش کے نئے میدان وجود میں آئے ہیں۔ خواتین کو بھی مواقع میسر آئے اورلڑکیوں کی بڑی تعداد برسرروزگار ہونے لگی۔ ان کا لائف اسٹائل اور سوچ تبدیل ہونے لگی۔ معمولی سی ملازمت کرنے والی لڑکی بھی امیر کبیر خاندان میں شادی کے خواب دیکھنے لگی۔

دوسری طرف لڑکوں نے بھی ملازمت پیشہ خواتین سے شادی کو فوقیت دینا شروع کر دی۔ اس کے علاوہ بھی نوجوانوں کی سوش میں بہت تبدیلی آئی ہے۔ اور اب شادی سے پہلے ایک دوسرے کی شخصیت کو سمجھنے اور جاننے کی خواہش رکھنا عام ہوتا جا رہا ہے۔

اس سلسلے میں والدین کو بھی بچوں کے لئے آسانی دیکھنی چاہئیے کہ وہ جیسی شخصیت کے مالک ہیں ان کے لئے ویسے ہی شریک حیات کا انتخاب کریں۔ اگر کوئی لڑکا یا لڑکی نہایت روشن خیال ہے تو اس کے لئے ویسا ہی جیون ساتھی منتخب کریں۔ مذہبی سوچ رکھنے والے گھرانوں کو بچوں کی شادیاں بھی اپنے ہم خیال گھرانوں میں ہی کرنی چاہئیں۔ ورنہ بعد میں بہت مسائل پیش آتے ہیں۔

دیگر اہم نکات:

شریک حیات کا انتخاب کرتے وقت چند چیزیں اور بھی ہیں۔ جن کا شادی سے پہلے تعین ضروری ہے۔ اور ان معاملات پر دونوں گھرانوں کو مفصل بات کر لینی چاہئیے۔ جیسا کہ لڑکی اگر ملازمت پیشہ ہو۔ اور شادی کے بعد بھی ملازت جاری رکھنا چاہتی ہو تو جس لڑکے کے ساتھ اس کا رشتہ طے ہونے جا رہا ہے۔ اس سے واضح بات کی جائے۔ اور اس کی اس بارے میں رائے لی جائے۔ بجائے اس کے کہ بعد میں اس مسئلہ پر اختلافات پیدا ہوں۔ اس بارے میں پہلے کی بات کر لی جائے۔

دوسرا یہ کہ لڑکا اگر بیرون ملک رہائش پذیر ہے۔ تو وہ بیوی کو ساتھ لے جائے گا یا اپنے گھر والوں کے ساتھ رکھے گا۔ یہ ایک نہایت حساس مسئلہ ہے۔ بہت سی لڑکیاں اور گھرانے بیرون ملک رہائش پذیر لڑکے کو دیکھ کر شادی کی ہامی بھر لیتے ہیں۔ یہ سوچ کر کے وہ ان کی بیٹی کو ساتھ لے جائے گا۔ لیکن لڑکے سے اس موضوع پر پہلے ہی بات چیت کر لی جائے۔ تا کہ شادی کے بعد لڑکی یا اس کے گھر والوں کو کوئی سرپرائز نہ ملے۔ اور معاملات خراب ہوں۔

برادری یا مسلک کا فرق بھی بعض گھرانوں کے لئے نہایت سنجیدہ مسئلہ ہوتا ہے۔ اس معاملے میں بھی دھوکہ دہی سے گریز کرنا چاہئیے۔ اگر آپ لڑکی والے ہیں۔ تو لڑکے سے اس کے مستقبل، ملازمت، مستقبل کے اہداف کے بارے میں گفتگو کریں۔ کہ وہ زندگی میں آگے کیا کرنا چاہتا ہے۔ ۔ اس شادی کی صورت میں اس کے اہداف متاثر تو نہیں ہوں گے۔

لڑکی سے بھی یہ سوال پوچھا جانا نہایت ضروری ہے کہ وہ خاتون خانہ بن کے زندگی گزارنا چاہے گی۔ یا ملازمت کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر لڑکی ڈاکٹر بن رہی ہے۔ تو لازمی طور پر اس کی خواہش ہو گی کہ وہ نوکری کرے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کسی شعبے میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد لڑکی کو حق حاصل ہے۔ کہ اپنی صلاحیتوں سے دوسروں کو فائدہ پہنچائے۔

کسی بھی معاملے میں یہ سوچ کر خاموشی اختیار نہ کی جائے۔ کہ ہم لڑکی والے ہیں تو یہ بات کیسے پوچھیں۔ یا ہم لڑکے والے ہیں تو اپنی خواہش کیسے بتائیں۔ بعد میں معاملات بگڑنے سے بہتر ہے کہ پہلے ہی ان سب چیزوں کو مدنظر رکھ کر سچ کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے۔  یہ چند ایک نکات ہیں۔ جن کو اگر شریک حیات کا انتخاب کرتے وقت مدنظر رکھ لیا جائے۔ اور رشتہ دیکھتے وقت ہی تمام اہم معاملات پر تبادلہ خیال کر لیا جائے۔ تو ہمارے معاشرے میں خوش باش گھرانوں اضافہ ہو گا جو مجموعی طور پر کسی معاشرے یا ملک کے لئے ایک مثبت تبدیلی کا باعث بنے گا۔