شادی ایک ایسا بندھن ہے۔ جو دو گھرانوں کے ساتھ ساتھ دو دلوں کو جوڑنے کا موجب بھی بنتا ہے۔ دو لوگ جب ایک ساتھ زندگی کا سفر شروع کرتے ہیں۔ تو شادی شدہ زندگی کی ابتداء میں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

یہ مشکلات مختلف وجوہات کی بناء پر پیدا ہو سکتی ہیں۔جیسا کہ ایک دوسرے کو جاننے اور سمجھنے کے لئے درکار وقت، مالی معاملات، رشتے داروں سے روابط، کام کا دباؤ، مزاج و عادات میں فرق، خاندانی ترجیحات وغیرہ۔ نئے شادی شدہ جوڑوں کو ایک دوسرے کو جاننے اور سمجھنے کے لئے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ جتنا جلدی وہ ایک دوسرے کی عادات سے واقف ہو جائیں اتنا بہتر ہوتا ہے۔

اس سلسلے میں جہاں گھر والوں کا تعاون ضروری ہے۔ وہیں شوہر اور بیوی کو بھی ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا چاہئِے اور چند ایک ضروری امور پر ابتدائی دنوں میں ہی تبادلہ خیال کر لینا چاہئیے تا کہ آگے جا کر مسائل پیدا نہ ہوں ۔۔

شادی شدہ لوگوں کو جو مشکلات پیش آتی ہیں۔ ذیل میں ان پر تبادلہ خیال اور حل پیش کیا جا رہا ہے۔

مالی معاملات:

شادی شدہ زندگی کے ابتدائی دنوں میں شوہرحضرات عموما زیادہ اخراجات کرتے ہیں۔ بیوی کے لئے تحفے تحائف، سیر سپاٹا، باہر کھانا پینا۔ یہ سب چیزیں اپنے معمول سے ہٹ کر کرنے پرماہانہ تخمینہ بھی اوپر نیچے ہوجاتا ہے۔

بعض شوہر بیوی کے ساتھ مالی معاملات پر کھل کر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ یا شریک حیات کو اپنے بجٹ اور آمدنی سے آگاہ نہیں کرتے۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب شوہر اخراجات میں کمی کر کے معمول پر آنے کی کوشش کرتا ہے۔

اگر اس معاملے پر بیوی کے ساتھ ابتدا میں ہی بات کر لی جائے۔ اسے اپنے مالی معاملات سے آگاہ کر دیا جائے۔ اور مل کر اپنا ماہانہ بجٹ بنا لیا جائے۔ تو اس مسئلے کو باآسانی حل کیا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ شوہر کو چاہئیے کہ بیوی کو ماہانہ جیب خرچ ضرور دے۔ اس کی تمام ضروریات کا خیال رکھنا شوہر کا فرض ہے۔ لیکن یہ سوچ درست نہیں کہ ایک شادی شدہ عورت کو پیسے کس لئے چاہئیں۔ کیونکہ شوہر اس کی تمام ضروریات پوری کر رہا ہے۔

بیوی کو الگ سے جیب خرچ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے بھی اپنے والدین، بہن بھائیوں یا دوستوں پر خرچ کرنے کا حق ہے۔ اس لئے بہتر ہو اگر شوہر بیوی کے آتے ہی اس کا ماہانہ جیب خرچ باندھ دے۔ تا کہ چھوٹی چھوٹی ضروریات کے لئے بیوی کو بار بار شوہر سے رقم کا تقاضا نہ کرنا پڑے۔

رشتے داروں سے روابط:

بیوی کو چاہئیے کہ اپنے شوہر اور سسرال والوں سے بڑھ کر ان کے رشتہ داروں سے تعلق نہ رکھے۔ جس رشتہ دار سے شوہر اور اسکے گھر والوں کا جس حد تک ملنا ہے بیوی بھی اسی کی پیروی کرے۔ اور جن رشتہ داروں کے ساتھ اس کے سسرال والوں کا ملنا جلنا کم ہو ان سے وہ بھی کم ہی ملے۔

بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ نئے شادی شدہ جوڑے کو نت نئے مشورے دینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان مشوروں کی بدولت بعض اوقات پیچیدگیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ ہر ایک کا تجربہ اور حالات ایک سے نہیں ہوتے۔ کچھ رشتہ دار جو اپنی ازدواجی زندگی سے بیزار ہوتے ہیں۔ وہ ہر محفل اور موقع پر شادی کے نقصانات گنوانے سے باز نہیں آتے۔

اگر شوہر یا بیوی کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑے جو رشتہ داروں کی پیدا کردہ ہوں۔ تو انہیں چاہئیے کہ آپس میں بات چیت سے معاملے کو حل کر لیں۔ سنی سنائی باتوں پر یقین نہ کریں۔ رشتہ داروں کے ساتھ تعلق کی حد قائم کریں۔ اور ایک ایسی راہ نکالیں جس سے تعلقات میں کشیدگی بھی پیدا نہ ہو۔ اور سکون سے زندگی گزارے۔

وقت اور کام کی تقسیم:

شادی شدہ زندگی کے ابتدائی دن تو ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے، دعوتوں اور گھومنے پھرنے میں صرف ہوتے ہیں۔ لیکن زندگی معمول پر آنے کے بعد جب نئی نویلی دلہن پر گھر اور کام کی ذمہ داری پڑتی ہے تو وہ گھبرا جاتی ہے۔

شوہر اور گھر والوں کو چاہئیے کہ ایک فرد پر تمام کاموں کی ذمہ داری ڈالنے کی بجائے کام بانٹ لیا جائے۔ تا کہ کسی ایک شخص پر سارا بوجھ نہ پڑے۔ خاص کر نئی نویلی دلہن پر آہستہ آہستہ ذمہ داریاں ڈالنی چاہئیں۔ اسے موقع دیا جائے کہ وہ شوہر کے مزاج اور خاندان کے رسم و رواج کو بخوبی جان لے۔ یہ نہ ہو کہ وہ گھر کے کاموں میں اتنی مصروف ہو جائے کہ شوہر کو وقت نہ دے سکے۔

شوہر کو بھی چاہئیے کہ کام میں بیوی کا ہاتھ بٹائے ۔اس سے کام کا بوجھ کم ہونے کے ساتھ ساتھ دونوں میں ایک خوشگوار تعلق بھی قائم ہوتا ہے۔ بیوی کے لئے یہ احساس خوش کن ہوتا ہے۔ کہ شوہر اس کا خیال کرتا ہے۔ شوہر کو بھی چاہئیے کہ خود کو دفتری کاموں میں اتنا مصروف نہ کرے۔ کہ بیوی اور گھر کے لئے وقت نہ نکال سکے۔

مزاج آشنائی:

نئے شادی شدہ جوڑے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ گھر والوں کے مزاج سے آشنائی بھی بہت ضروری ہے۔ اس بات کا خیال رکھنا کا گھر کا ماحول کیسا ہے۔ گھر والوں کی عادات کیا ہیں۔ ان کا رہن سہن کیسا ہے۔ یہ بہت ضروری ہے۔

ہر انسان مختلف عادات کا مالک ہوتا ہے۔ اگر نیا شادی شدہ جوڑا ابتدائی دنوں میں ہی طبیعت اورعادات کو سمجھ لے۔ اورکسی اختلاف پران کو رعایت دے۔ تو تعلقات میں پختگی آئے گی۔ اسی طرح سسرال والوں کو بھی چاہئیے کہ لڑکی کی طبیعت اورعادات کے اختلاف پر اسے سرزنش کرنے کی بجائے ان سے سمجھوتا کیا جائے۔ یا پھر پیار سے انہیں تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔

خاندانی ترجیحات:

نئے شادی شدہ جوڑے کو چاہئیے کہ ایک دوسرے کی عادات کے ساتھ ساتھ دونوں خاندانوں کی ترجیحات کا بھی خیال رکھیں۔ گھر کے بزرگ نوجوان نسل سے کیا توقعات رکھتے ہیں۔ گھر آئے مہمانوں کی تواضع کس طرز پر کی جاتی ہے۔ رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات کیسے ہیں۔ ان سب باتوں کا جاننا بہت ضروری ہے۔

ابتدائی دنوں میں نئے شادی شدہ جوڑے کو باہر گھومنا پھرنا، کھانا کھانا اور ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا اچھا لگتا ہے۔ اس میں کوئی برائی نہیں۔ لیکن اس میں بھی توازن رکھنا نہایت ضروری ہے۔ گھر میں اگر چھوٹے بہن بھائی موجود ہیں۔ تو انہیں یا والدین کو بھی کبھی کبھار ساتھ لے جانے میں کوئی برائی نہیں۔ سب گھر والے مل کر کچھ وقت گزاریں۔ یا کہیں گھوم پھر لیں تو تعلقات اچھے ہوتے ہیں۔

شوہر اگراپنے گھر والوں پر کچھ خرچ کرے۔ تو بیوی کو اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہئیے۔ اس کے ماں باپ اور بہن بھائیوں کا بھی اس پر اتنا ہی حق ہے۔ جتنا کہ ایک بیوی کا۔ اسی طرح اگر بیوی اپنے والدین، بہن بھائیوں یا دوستوں پر کچھ خرچ کرنا چاہے۔ تو شوہر کو اعتراض نہیں ہونا چاہئِے۔

ماحول سے مطابقت:

لڑکی شادی ہو کے جب دوسرے گھر جاتی ہے۔ تو اس کے لئے ضروری ہے کہ گھر والوں کے ساتھ ساتھ وہاں کے ماحول کو بھی مد نظر رکھے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی لڑکی شہر سے شادی ہو کر گاؤں میں آتی ہے۔ تو یقینا اسے اپنے گھر اور وہاں کے ماحول میں تبدیلی محسوس ہو گی۔ اس لئے اسے وہاں کے رہن سہن اور رسوم و رواج کو قبول کرنا ہو گا۔

اگر کچھ باتیں ایسی ہیں جو اس کے لئے قابل قبول نہیں۔ یا ان رسومات کو اپنانا اس کے لئے مشکل ہے۔ تو بہتر ہوگا آہستہ آہستہ گھر والوں کو اعتماد میں لے۔ بجائے اس کے کہ ہٹ دھرمی سے اپنی بات منوانے کی کوشش کرے۔ یا اگر کوئی لڑکی گاؤں سے شادی ہو کر کسی شہر یا بیرون ملک چلی جاتی ہے۔ تو اس ماحول کے ساتھ مطابقت اختیا ر کرنے میں ہی خوشگوار زندگی کا راز پنہاں ہے۔

اپنی ذات سے لاپرواہی:

شادی شدہ زندگی کے آغاز میں شوہر اور بیوی دونوں بناو سنگھار کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا ہے۔ دونوں ہی اپنی ذات سے لا پرواہ ہو جاتے ہیں۔ جو درست عمل نہیں۔ اس کی ایک وجہ ذمہ داریوں کا بوجھ بھی ہوتا ہے۔ جن میں گھر کر وہ خود سے لاپرواہ ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات سستی بھی غالب آ جاتی ہے۔

شریعت میں بھی بیوی کو شوہر کے لئے بننے سنورنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسے چاہئیے کہ روزانہ اچھا لباس پہن کر، بناؤ سنگھا کر کے اور خوشبو لگا کر اپنے شوہر کا استقبال کرے۔ تاکہ اس کا شوہر اس سے خوش ہو۔

اسی طرح شوہر کو بھی چاہئیے کہ بیوی کے لئے اپنی صحت کا خیال رکھے۔ اچھا لباس پہنے۔ ایک شوہر کا بیوی کے لئے آرائش کرنا اپنے لباس اور جسمانی صفائی کا خیال رکھنا محبت میں اضافے کا باٰعث بنتا ہے۔

شادی شدہ زندگی میں پیش آنے والی یہ مشکلات بہت معمولی ہیں جن سے با آسانی نمٹا جا سکتا ہے۔ ایک خوشحال شادی شدہ زندگی کا راز باہمی رابطے، محبت، ایثار اور ایک دوسرے کو سمجھنے میں پنہاں ہے۔ ایک دوسرے کو اہمیت دینے، ساتھ وقت گزارنے اور باتوں میں دلچسپی لینے سے ہی زندگی خوشگوار گزرتی ہے۔

ازدواجی زندگی اور معاملات سے متعلق ہمارے دیگر بلاگز پڑھنے کے لئے آپ اس لنک پر کلک کیجئے۔ اور "سبسکرائب” کرنا مت بھولئیے۔  تا کہ ہمارے نئے آنے والے بلاگز کی اطلاع آپ کو بروقت مل سکے۔