زوجین میں باہمی الفت و محبت ایک اچھی ازدواجی زندگی کا جزو ہے۔ لیکن بعض اوقات ایسے حالات و واقعات پیش آ جاتے ہیں۔ کہ ساری زندگی ایک ساتھ گزارنے کے عہد و پیمان کرنے والوں کو جدا ہونا پڑتا ہے۔
کبھی یہ صورتحال ایک ساتھی کی دائمی جدائی کے سبب پیش آتی ہے۔ اور کبھی دونوں کو ناگزیر وجوہات کی بناء پر باہمی فیصلہ کر کے الگ ہونا پڑتا ہے۔ لیکن زندگی کی دوڑ میں اکیلے بھاگنا ممکن نہیں۔ مرد ہو یا عورت اسے ہر موڑ پر سہارے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس لئے دوسری شادی کا فیصلہ نا گزیر ہو جاتا ہے۔
دوسری شادی اور ہمارا معاشرہ
شریعتِ مطہرہ میں مرد کو بیک وقت چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے۔ اگر کوئی مرد ایک سے زائد بیویوں کے جسمانی اور مالی حقوق ادا کرنے اور ان کے درمیان برابری رکھنے کی استطاعت رکھتا ہے تو اس کے لیے دوسری شادی کرنا شرعاً جائز ہے۔ لیکن اگر کوئی مرد برابری کی اہلیت نہ رکھتا ہو، اس میں جسمانی یا مالی طاقت نہ ہو کہ وہ بیویوں کا نان نفقہ پورا کر سکے۔ یا عدل نہ کر سکتا ہو تو ایک پر اکتفا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس صورت میں دوسری شادی درست عمل نہیں۔ کیونکہ دوسری شادی جذباتی اور جسمانی سہارے کے لئے کی جاتی ہے۔ جب یہ دونوں توقعات پوری نہ ہوں تو شادی کا مقصد مفقود ہو جاتا ہے۔
دوسری شادی کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں۔ جن میں سے ایک تو شرعی حکم پر عمل کرنا، پہلی بیوی کا جسمانی طور بچے جننے کا اہل نہ ہونا، مرد کا جنسی طور پر دوسری بیوی کا حاجت مند ہونا، میاں بیوی کے درمیان ناچاقی یا عدم مطابقت۔ اس کے علاوہ کچھ لوگ محض خاندانی رسم و رواج کے باعث بھی ایک سے زیادہ شادیوں کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ جبکہ کچھ لوگ کثرت اولاد کی وجہ سے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا پسند کرتے ہیں ۔
پاکستانی معاشرے میں دوسری شادی کو سماجی طور پر ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ اسے اپنی شریک حیات کے ساتھ غداری یا بے وفائی کے زمرے میں لیا جاتا ہے۔ حالانکہ دوسری شادی کوئی گناہ نہیں۔ لیکن اس سے جڑی سماجی بدنامی اتنی مضبوط ہے۔ کہ یہ نہ صرف دوسری شادی کرنے والے شخص بلکہ اس کی فیملی کے لئے بھی مسائل پیدا کر دیتی ہے۔ ان پر تنقید ہوتی ہے۔ انہیں سماجی تنہائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ جذباتی پریشانی کا شکار رہتے ہیں۔
عرب معاشرے پر نظر ڈالی جائے تو وہاں ایک سے زیادہ شادیاں عام ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پانچ لاکھ سے زائد سعودی ایک سے زیادہ بیویاں رکھتے ہیں۔ جبکہ امریکہ اور یورپ وغیرہ میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ وہاں ایک ہی بیوی رکھنے کی اجازت ہے۔ اور اس کے حقوق اتنے ہیں کہ طلاق کی صورت میں آدھی جائیداد بیوی کے نام کرنا ہوتی ہے۔
عرب ممالک میں میں دوسری شادی کی بہتات ہے۔ کیونکہ وہاں دوسری شادی کا مطلب ہے کہ دو ایک جیسی عورتیں۔ عرب خواتین جانتی ہیں کہ وہاں مردوں کے لئے دوسری شادی کرنا عام ہے۔ اس لئے شوہر کا ان پر سوتن لا کے بٹھانے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ان کی بے عزتی ہوئی ہے۔
مرد کی دوسری شادی
ہمارے معاشرے میں مرد کی دوسری شادی کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ ضرور پہلی بیوی میں کوئی کمی ہو گی۔ وہ اپنے شوہر کو خوش رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ تبھی شوہر کو دوسری شادی کرنا پڑی۔ اور یہ بات پہلی بیوی کے لئے قابل قبول نہیں ہوتی۔ کہ جس گھر کی وہ مالکن ہے۔ اسی گھر میں کسی دوسرے کو حصے دار بنا دیا جائے۔
دراصل ہمارے معاشرے کی بنیادیں صدیوں پرانی ثقافت پر استوار ہیں۔ ہم ہندووں سے الگ تو ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک ان کے رسم و رواج اور ثقافت سے چھٹکارہ حاصل نہیں کر سکے۔ پاکستان میں دوسری شادی کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ پہلی بیوی کے حقوق کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ اس وجہ سے پہلی بیوی کو ترس اور ترحم بھری نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ کیونکہ عام طور پر مرد اسی بات کا عملی ثبوت دیتا ہے کہ جوش میں آ کر اعلانیہ یا خفیہ دوسری شادی تو کر لی۔ لیکن بعد میں عدل اور برابری نہیں کر پایا۔
ایک عورت بھی اپنے شوہر کی دوسری شادی پر اسی لئے رضامند نہیں ہوتی کہ عام طور پر خاوند دونوں بیویوں کے درمیان میانہ روی قائم نہیں رکھ پاتا۔ گھر اور بچوں کی تربیت اور ذمہ داری سے غافل ہو جاتا ہے۔ حالانکہ حدیث میں واضح طور پر کہا گیا ہے۔
عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من كانت له امرأتان، فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة وشقه مائل ( سنن أبي داؤد 3 / 469)
ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ کسی ایک کی جانب جھک جائے۔ تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی ایک جانب فالج زدہ ہوگی۔
عام طور پر لوگ مشہور شخصیات کی پیروی میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے عام ہونے پر میڈیا کے بہت سے حلقوں سے وابستہ افراد کی نجی زندگیوں کے بارے میں لوگ زیادہ جاننے لگے ہیں۔ معروف اینکر اقرار الحسن نے تین شادیاں کر کے ایک مثال قائم کی۔ جسے بعض حلقوں میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ جبکہ کچھ حلقوں میں اسے ایک اچھی مثال قرار دیا گیا۔
کیا پہلی بیوی کی حیثیت دوسری کی نسبت زیادہ ہے؟
ہمارے ہاں عام طور پر دوسری بیوی کو پہلی کی نسبت کم درجہ دیا جاتا ہے۔ اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ پہلی بیوی کا حق زیادہ ہے۔ یا پہلی بیوی کے بچوں کو دوسری بیوی کے بچوں پر برتری حاصل ہے۔ یہ بات سراسر غلط ہے۔ شوہرپر لازم ہے کہ وہ دونوں بیویوں میں انصاف کرے۔ کسی ایک کو کسی دوسری پر فوقیت نہ دے۔ وقت، لباس اور اشیاء خورد و نوش کے فراہم کرنے میں بیویوں میں برابری کرے۔ اگر کسی بھی چیز میں کسی ایک کی حق تلفی کرے گا تو گناہ گار ہو گا۔
عورت کی دوسری شادی
عورت کی دوسری شادی خواہ وہ بوجوہ بیوگی ہو یا طلاق اسے پاکستانی معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ خاص کر طلاق یافتہ خواتین کو بعض اوقات بدسلوکی یا ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ زیادہ تر لوگ شادی کو ایک سرمایہ کاری کے طور پر دیکھتے ہیں۔ والدین بیٹی کی شادی پر پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ اگر بد قسمتی سے بیٹی طلاق لے کر واپس آجائے تو یہی خیال کیا جاتا ہے کہ پیسہ ضائع گیا۔ حالانکہ بات ایک جیتے جاگتے انسان کی ہوتی ہے۔ یہ سوچ خواتین میں شناخت اور شخصیت کا بحران پیدا کرتی ہے۔ جس سے نفسیاتی مسائل جنم لیتے ہیں۔
چونکہ ہمارے معاشرے میں شادی کو ہی لڑکی کی اصل کامیابی مانا جاتا ہے۔ اگر وہ اس امتحان میں کامیاب نہ ہو پائے تو اس کی ناکامی کا ذمہ دار زیادہ تر اسے ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔ خواہ حالات و واقعات کچھ بھی ہوں۔ خواتین کی دوسری شادی نہ ہونے میں ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دوسری شادی کرنے والی لڑکی کو خاص کر اگر وہ طلاق یافتہ ہے۔ تو اسے کھلے دل سے قبول نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ دیکھا جائے تو طلاق صرف عورت کو نہیں ہوتی۔ بلکہ دو افراد کے درمیان ہوتی ہے۔ جس کے ذمہ دار دونوں ہوتے ہیں۔ لیکن مرد کی شخصیت اور زندگی پر اس کا اتنا گہرا اثر نہیں پڑتا، جتنا عورت کی زندگی پر پڑتا ہے۔
خواتین اداکاراوں کی بات کی جائے تو پاکستان اور دوسرے ممالک میں بہت سی ایسی مثالیں مل جاتی ہیں۔ جہاں خواتین نے دوسری شادی کر کے ایک اچھی مثال قائم کی۔ ان میں نادیہ خان، جویریہ عباسی، ماہرہ خان، اور دیگر بہت س اداکارائیں شامل ہیں۔ لوگ چونکہ کسی عام شخص کی مثال اور تقلید کو قابل غور نہیں جانتے۔ اس لئے میڈیا سے متعلق افراد کا حوالہ اس حوالے سے کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔
جیون ساتھی داغِ مفارقت دے جائے تو بیوی معاشرے کے رحم و کرم پررہ جاتی ہے۔ حالانکہ ایک عورت کو عقد میں لانے کے بعد اس کے شوہر سمیت پورے خاندان پر اس کے حقوق و فرائض کا تعین کردیا جاتا ہے۔ شوہر کے داغ مفارقت دے جانے کے بعد اس کی کمی تو کوئی پوری نہیں کرسکتا۔ البتہ بیوہ کے حقوق و فرائض کی ادائیگی میں تعاون کرنا سب کا فرض ہے۔ اور ایسی خواتین کا نکاح ثانی انسانیت کے اعلیٰ ترین تقاضوں میں سے ایک ہے۔
بیوہ عورت سے نکاح کرنا بھی کوئی عیب نہیں۔ بلکہ کارِ ثواب ہے۔ ایک عورت کے جذبات و خواہشات کو فنا کے گھاٹ اتار کر اس کی زندگی کو یاس و حسرت یا رنج و الم کی بھینٹ چڑھا دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔ اسلامی تعلیمات سے نا واقفیت کی بناء پر کچھ لوگ بیوہ کے نکاحِ ثانی کو معیوب سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ زمانہ جاہلیت کی رسم تھِی۔ قرآن کریم نے اس رسم کو توڑا اور دوسرےنکاح کی اجازت دی۔
سورۂ بقرۃ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
” اور جو لوگ تم میں سے وفات پاجاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں۔ وہ بیویاں اپنے آپ کو (نکاح) روکے رکھیں، چار مہینے اور دس دن۔ پھر جب اپنی میعاد (عدت) ختم کرلیں۔ تو تم کو کچھ گناہ نہ ہوگا ایسی بات میں، کہ وہ عورتیں اپنی ذات کے لیے کچھ کاروائی (نکاح) کریں۔ قاعدے کے مطابق۔ اور اللہ تعالیٰ تمہارے تمام افعال کی خبر رکھتے ہیں۔
دوسری شادی کی ترویج میں رشتہ ویب سائٹس کا کردار
تمام تر مشکلات، رسم و رواج اور ثقافتی پابندیوں کے باوجود معاشرہ اب اس بات کو تسلیم کر رہا ہے۔ کہ دوسری شادی بھی زندگی کا ایک لازمی جزو ہے۔ تعلیمی و معاشی ترقی یا دیگر وجوہات کی بناء پرآج کل لوگ خاص کر خواتین معاشرتی اور خاندانی دباؤکے باوجود دوسری شادی کا فیصلہ کر رہی ہیں۔
میٹریمونیل ویب سائٹس کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان کو استعمال کرنے والوں میں تقریباً 70 فیصد مرد ہیں۔ جو ایک خوش آئند بات اس لئے ہے کہ خواتین کو آن لائن رشتوں کی ایک بڑی تعداد دستیاب ہیں۔ انہیں رشتے کی تلاش میں گھر سے نکلنا نہیں پڑتا۔ بلکہ گھر بیٹھے وہ اپنی مرضی کا رشتہ حاصل کر سکتی ہیں۔ امیدوار سے بات چیت کر کے اس کا نقطہ نظر جان سکتی ہیں۔
وہ خواتین ہیں جو طلاق یافتہ یا بیوہ ہیں۔ لیکن معاشرتی رویوں، شرم یا جھجک کے باعث دوسری شادی کے لیے ساتھی ڈھونڈنے میں انہیں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ وہ اب با آسانی میٹریمونئیل ویب سائٹس پر رجسٹر کر کے رشتے دیکھ سکتی ہیں۔ سمپل رشتہ ایک ایسی ہی ویب سائٹ ہے جو مرد اور خواتین دونوں کو پہلی کے ساتھ ساتھ دوسری شادی کی سہولت بھی فراہم کر رہی ہے۔
اگر کوئی شخص دوسری شادی کے لیے جسمانی و مالی طاقت رکھتا ہے۔ اور دوسری شادی کے بعد دونوں بیویوں کے حقوق خوش اسلوبی سے عدل و انصاف کے ساتھ ادا کرسکتا ہے۔ تو اسے دوسری شادی کرنی چاہئیے۔ بشرطیکہ اس کے والدین اور پہلی بیوی کو اس پر اعتراض نہ ہو۔ ورنہ مستقبل پرسکون ہونے کی بجائے ذہنی پریشانیوں میں گزرے گا۔
یہاں پہلی شادی مشکل ہے۔ دوسری شادی کی مشکلات کا تو کیا ہی کہنا۔