آج کے ڈیجیٹل دور میں کسی کو بھی سوشل میڈیا کی اہمیت و افادیت اور ضرورت سے انکار نہیں ہو گا۔ اس کے جہاں بے شمار فوائد ہیں۔ وہیں کچھ نقصانات بھی ہیں۔ سوشل میڈیا نے ہمیں جہاں انجانے لوگوں سے ملایا ہے وہیں ہمارے حقیقی رشتوں کی اہمیت بھی کم کر دی ہے۔ 

ایک طرف ہماری زندگی کے تمام معاملات آن لائن ہو رہے ہیں۔ تو دوسری طرف قریبی اور حقیقی رشتے آف لائن ہو تے جا رہے ہیں۔ آج ہمارے لئے رشتوں کی اہمیت وہ نہیں رہی جو چند پہلے سال تک تھی۔ وہ لوگ جن سے ہمارا تعلق اور نسبت ہے۔ ہم سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔  

آف لائن رشتوں کی اہمیت میں کمی 

ماہرین کے مطابق جب ہم سوشل میڈیا پر نئے اور انجان لوگوں سے ملتے ہیں اور تعلق بڑھاتے ہیں۔ تو ان کے بارے میں جاننے کے لئے بے چین ہو جاتے ہیں۔ ان کی پسند ناپسند اور ذاتی زندگی میں اتنی دلچسپی لینے لگ جاتے ہیں۔ کہ ہمارے قریبی رشتے جو ہماری اصل توجہ کے حقدار ہوتے ہیں۔ وہ نظر انداز ہوتے چلے جاتے ہیں۔   

آج کے دور میں والدین اور بچے اپنی الگ الگ دنیا میں مصروف ہو گئے ہیں۔ اپنے قریبی رشتوں کی اہمیت و محبت کو بھولتے جا رہے ہیں۔  

شوہر اور بیوی کے رشتے کو دیکھیں تو وہ ایک ہی کمرے میں موجود ہونے کے باوجود اپنے اپنے فون یا لیپ ٹاپ پر مصروف ہوتے ہیں۔ ان کے لئے باقی رشتوں کی اہمیت تو جو ہے۔ لیکن وہ اپنی ازدواجی زندگی اور تعلق کو بھی اس طرح سے وقت نہیں دے پاتے۔ جیسے چند دہائیاں پہلے کے جوڑے دیتے تھے۔ انہیں اس سنہرے وقت کی اہمیت کا احساس ہی نہیں۔ کہ یہی وقت وہ ایک دوسرے کی صحبت یا بچوں کی تربیت میں گزار سکتے ہیں۔ رشتوں کی اہمیت کا یہ عالم ہو چکا ہے کہ لوگ جسمانی طور پر تو ساتھ ہوتے ہیں لیکن ذہنی طور پر نہیں۔   

سوشل میڈیا کے دور میں حقیقی رشتوں کی اہمیت  

ماہرین کے مطابق اگر ان رویوں پر نظر ثانی کی جائے اور سوشل میڈیا کو ضرورت سے زیادہ اہمیت نہ دی جائے۔ تو رشتوں کی اہمیت سے کم از کم موجودہ نسل کو روشناس کروایا جا سکتا ہے۔ ان میں محبت، عزت اور احترام جیسے جذبات جو ناپید ہو چکے ہیں۔ ان کی اہمیت کا احساس دلایا جا سکتا ہے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے اب کوئی چاہ کر بھی جان نہیں چھڑا سکتا۔  

آج اسمارٹ فون استعمال کرنا ہر ایک کے لئے ناگزیر ہو چکا ہے۔ لیکن رشتوں کی اہمیت باور کروانے کے لئے ضروری ہے کہ جب آپ اپنے اہل خانہ یا اپنے کسی دوست کے ساتھ ہوں۔ تو موبائل پر توجہ دینے کے بجائے ان کے ساتھ وقت گزاریں۔ اور انہیں اہمیت دیں۔  

کوشش کریں کہ اگر آپ اپنے شریک حیات کے ساتھ کسی ایسی محفل میں ہیں۔ جہاں سب دوست احباب موجود ہیں۔ تو موبائل فون کا استعمال ہرگز نہ کریں۔ ممکن ہو تو اسے بند کردیں۔  

سونے کے اوقات میں بھی موبائل فون کا استعمال درست نہیں۔ آپ کی اس عادت کا بچوں پر بھی برا اژر پڑتا ہے۔ ان کے دل میں آپ کے ساتھ دوسرے قریبی رشتوں کی اہمیت بھی ختم ہوتی چلی جاتی ہے۔   

چند دہائیاں پہلے تک جب فون اور انٹرنیٹ کا استعمال اتنا عام نہیں تھا، زندگی یکسر مختلف تھی۔ لوگ وقت گزاری کے لئے کتب کا مطالعہ کرتے تھے یا اپنےعزیز رشتے داروں کے ساتھ وقت گزارتے تھے۔ ان کی خوشی غمی میں شریک ہوتے تھے۔ آج کل تو تعزیت یا عیادت کے لئے کسی کے پاس جانے کی زحمت بھی نہیں کی جاتی۔ بلکہ چند جملوں کا میسج ٹائپ کر کے اس فرض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ بقول شاعر۔  

اب دل سے دل کا ملنا کیا بس ہاتھ ملانا کافی ہے  

دیرینہ طور طریقوں نے چلتے چلتے دم توڑ دیے  

کیا ملنا جلنا آپس میں یہ سب کہنے کی باتیں ہیں  

ہم دیکھ چکے اس دور نے تو دل توڑ دیے سر جوڑ دیے   

وہ دور بھی اب قصہ پارینہ ہوئے جب لوگوں کو رشتوں کی اہمیت کا احساس ہوا کرتا تھا۔ ان میں پیار، محبت، خلوص ہوا کرتا تھا۔ گھر چھوٹے لیکن دل بڑے تھے۔ لوگ میلوں کا سفر طے کرکے ایک دوسرے سے ملنے آتے تھے۔ تب اگرچہ وسائل کی کمی تھی۔ لیکن ان رکاوٹوں اور مشکلات سے رشتے کم ہی متاثر ہوتے تھے۔  

پھر دیکھتے ہی دیکھتےزمانےنے کروٹ لی۔ ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہوا۔ وہ ٹیکنالوجی جسے انسان نے مشکلات اور فاصلے کم کرنے کے لئے ایجاد کیا تھا۔ وہی انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی رشتوں میں فاصلے پیدا کرنے کا سبب بن گیا۔  

پچھلے چند سالوں میں خاص کر کرونا کے بعد سب کچھ آن لائن ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا نے  ایک طرف ہمیں بہت سارے لوگوں سے جوڑا ہے تو دوسری طرف اپنوں سے دور بھی کر دیا ہے۔ آج کا دور مشینوں کا ہے۔ لیکن یہ مشینیں رشتوں کی اہمیت کیا جانیں۔۔ 

 اس ورچوئل اورغیر حقیقی دنیا میں داخل ہوکر ہم اپنے حقیقی رشتوں کی اہمیت بھلا بیٹھے ہیں۔ ہم دنیا کے لئے تو آن لائن ہیں۔ لیکن لیکن اپنے حقیقی رشتوں کے لئے، ان کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی آف لائن ہیں۔ 

اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ انسانی معاشرے کی اساس تعلق اور رشتوں کے قیام پر ہے۔ لیکن آج کے اس پر آشوب دور میں نفسا نفسی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ لوگ تعلقات کو بوجھ سمجھتے ہوئے ان سے فرار حاصل کر رہے ہیں۔ اور اپنی آن لائن زندگی پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ انہیں حقیقی رشتوں کی اہمیت اور ان کے آف لائن ہونے کی خبر تک نہیں۔   

ٹیکنالوجی کے ذریعے پوری دنیا ہم سے محض ایک کلک کے فاصلے پر آ گئی ہے۔ لیکن اس ٹیکنالوجی نے ہمیں بھری محفل میں بیٹھے بھی تنہا کر دیا ہے۔ فیس بک ،ٹوئیٹر، انسٹا گرام اور دیگر سوشل میڈیا سائٹس پر موجود ہمارے ہزاروں لاکھوں فالوورز ہمارے حقیقی رشتوں کا متبادل ہرگز نہیں ہو سکتے۔ وہ وقتی طور پر آپ کے زخموں پر مرحم رکھ سکتے ہیں۔ آپ کے غم میں آنسو بہا سکتے ہیں۔ لیکن ان دکھوں کا مداوا صرف ہمارے کے قریبی رشتے ہی کر سکتے ہیں۔