رشتہ دار، دوست احباب، خاندان تین اہم ترین جزو ہیں جو انسان کی کامیابی میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ "انسان ایک معاشرتی حیوان ہے” ۔ یہ اسی لئے کہا جاتا ہے کیونکہ بغیر کسی رشتے اور تعلق کے انسان کی زندگی بالکل ایک کٹی پتنگ کی مانند ہے۔ مشرقی معاشروں میں مشترکہ خاندانی نظام کو اسی لئے اہمیت دی جاتی ہے۔ تا کہ خاندان کی آنے والی نسلوں میں بھی رشتوں کی قدر و قیمت اور اہمیت کا احساس اجاگر رہے۔

گزشتہ دور میں رشتوں کی قدر و قیمت اور اہمیت:

پہلے ایک دور تھا جب سب سے زیادہ اہمیت رشتوں کو ہی دی جاتی تھی ۔ انسان کی پہچان اس کے خاندان سے ہوتی تھی ۔ گھر کے بڑے بزرگ یا فرد کو سربراہ جانا جاتا تھا۔ جس کو مکمل اختیار دیا جاتا تھا کہ اچھے برے سے اپنے اقارب کو آگاہ کرے۔ اوران کی بات کو اہمیت بھی حاصل تھی۔ اس کی مجموعی وجہ رشتوں کی قدر و قیمت ہی تھی۔ جس کو مدنظر رکھتے ہوئے بڑوں کی بات کو اہمیت دی جاتی تھی۔ جس کام سے وہ منع کرتے اسے نہ کیا جاتا۔ اور جس کام کی تلقین کرتے۔ اسے حکم کا درجہ دیا جاتا تھا۔ مگر وقت کی تیز رفتاری یہ اقدار و روایات اپنے ساتھ لے گئی ہے۔

موجودہ دور میں رشتوں کی اہمیت:

آج کل کے دور میں رشتوں سے زیادہ شان و شوکت کو لوگوں نے محور بنا لیا ہے۔ اور ہر کوئی دولت کمانے کی تگ و دو میں جت گیا ہے۔ اور رشتوں کی قدر و قیمت اور اہمیت کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔انسان کی پہچان محض رتبے اور پیسے کو بنا دیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ غریب رشتہِ داروں سے دوری اختیار کر لی جاتی ہے۔ ان سے رشتے قائم کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اور لوگ امیر اور دولت مند رشتوں کی تلاش میں رشتہ کروانے والوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور دھوکہ کھاتے ہیں۔

اقبال نے کیا خوب فرمایا تھا۔

"پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ”

جیسے پتے درخت سے جھڑنے کے بعد ہوا کے سپرد ہو جاتے ہیں۔ اور اپنی رنگت و خوبصورتی کھو دیتے ہیں۔ اسی طرح انسان رشتوں کی اہمیت کو کھو کر زرد پتوں کی مانند ہو جاتا ہے۔ جس زمانے کی ہوا اڑا کر زندگی کی تلخیوں کے حوالے کر دیتی ہے۔

ایک کامیاب زندگی کے لیے دولت کے ساتھ ساتھ رشتے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ رشتوں کی قدر و قیمت گزرتے وقت کے ساتھ  کم ضرور ہو رہی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ رشتے قائم ودائم اس وقت ہی رہ سکتے ہیں۔ جب ان کو اہمیت دی جائے۔ اپنی اقدار وروایات کو سمجھا جائے۔ آنے والی نسلوں کو باور کروایا جائے کہ کامیابی کا انحصار صرف محنت ہی نہیں۔ بلکہ اپنی اقدار وروایات سے جڑے رہنے اور رشتوں کی قدر و قیمت کا احساس کرنے اورانہیں اہمیت دینے میں بھی ہے۔

کوئی بھی معاشرہ تبھی بہترین معاشرے کی شکل اختیار کرتا ہے جب رشتوں کو اہمیت دی جائے۔ رشتوں کا معیار دولت کو نہیں بلکہ خلوص ومحبت کو متعین کیا جائے۔ کامیاب رشتے استوار کرنے کے لئے محبت اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر رشتہ خواہ وہ خون کا ہو یا دوستی کا، محنت طلب کرتا ہے۔

شادی کے بعد ایک لڑکی کو اپنے شوہر اور سسرالی رشتے داروں کے ساتھ زندگی گزارنا ہوتی ہے۔ اور وہ خوشگوار اور پرسکون اسی صورت میں ہو سکتی ہے۔ جب ہر رشتے کو اس کی حد میں رکھا جائے۔ احترام کیا جائے۔ اور ان کے حقوق پورے کئے جائیں۔ نہ کہ ایسا ہوکہ خود ان رشتوں کے قریب ہونے کی بجائے شوہر کو بھی ان سے دور کر دیا جائے۔ خاندان میں پھوٹ ڈلوا دی جائے۔

یہی اصول لڑکے پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ وہ شادی کے بعد لڑکی کو اپنے گھر لے آتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ لڑکی کا رشتہ یا تعلق اس کے والدین اور بہن بھائیوں سے ختم ہو جاتا ہے۔ یہ ایک شوہر کا فرض ہے کہ لڑکی کو اس کے والدین اور بہن بھائیوں سے ملاقات کرنے، ان کی خوشی اور غمی میں شریک ہونے کا حق دے۔

اگرچہ شادی کے بعد لڑکی اور لڑکے کا تعلق ایک دوسرے کے ساتھ سب سے زیادہ مظبوط ہونا چاہئیے۔ لیکن اس کے لئے دوسرے رشتوں کی قدر و قیمت سے روگردانی نہیں کرنی چاہئیے۔ آپ مشترکہ خاندانی نظام میں رہیں یا اکائی خاندانی نظام کے حق میں ہوں۔ اپنے قریبی رشتوں سے تعلق نہیں توڑ سکتے۔

رشتوں کی قدر و قیمت اور اہمیت اپنی جگہ۔ لیکن ہمیں چاہیے کہ شادی کے وقت لڑکے اور لڑکی کی رضامندی معلوم کی جائے۔ دونوں گھرانے ایک دوسرے کے رسم و رواج اور اقدار سے واقفیت اختیار کریں۔ اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کریں۔ اگرچہ اپنے خاندان میں شادی کرنے میں بھی کوئی ہرج نہیں۔ لیکن اگر اپنے قریبی رشتہ داروں یا دوست احباب میں کوئی مناسب رشتہ موجود نہ ہو تو اس کا بہترین حل یہ ہے رشتوں کی تلاش کے لیے قابلِ اعتبار ذرائع سے رجوع کیا جائے۔ تاکہ مضبوط اور مستحکم خاندان کی بنیاد رکھی جائے۔