انسانوں کے باہمی تعلقات  میں جو تعلق سب سے خاص نوعیت اور اہمیت کا حامل ہے۔ وہ ہے ازدواجی تعلق۔ شوہر اور بیوی کا رشتہ۔ اگر یہ کہا جائے کہ زندگی کا سکون اور دلی اطمینان بڑی حد تک اس رشتے سے وابستہ ہے۔ تو غلط نہ ہو گا۔ ایک مرد اور عورت جب شادی کے بندھن میں بندھتے ہیں تو شریعت کی رو سے اسی وقت شوہر پر بیوی اور بیوی پر شوہر کے حقوق عائد ہو جاتے ہیں۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ 

"کسی بشر کیلئے درست نہیں ہے کہ وہ کسی بشر کو سجدہ کرے۔ اگر کسی بشر کا کسی بشر کے لئے سجدہ کرنا درست ہوتا  تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ اس لئے کہ اسکا حق بہت بڑا ہے" 

شوہر کے حقوق  

نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا۔  

"اے عورتو! اللہ پاک سے ڈرو۔ اور اپنے شوہروں کی رضا کو لازم پکڑ لو۔ اگر عورت جان لے کہ شوہر کا حق کیا ہے تو وہ صبح و شام کا کھانا لیکر کھڑی رہے” [کنز العمال] 

ایک بیوی پر شوہر کے حقوق بہت سے ہیں۔ جن کا ہم باری باری تذکرہ کریں گے۔  

جسمانی و طبعی حقوق 

اسلام نے مرد و عورت کا فطری توازن قائم کیا۔ کسی پر بے جا ذمہ داری نہیں ڈالی۔ اور دونوں کے حقوق و فرائض کی تقسیم کی۔ ایک شوہر کے جسمانی اور طبعی حقوق پورے کرنا اس کی بیوی کا فرض ہے۔ 

اطاعت و محبت 

بیوی کے لئے لازم ہے کہ اپنے خاوند سے محبت میں مخلص ہو۔ بیوی پراس کے شوہر کے حقوق بہت زیادہ ہیں۔ جن کی ادائیگی شکر سے وہ عاجز ہے۔ بیوی پر اپنے شوہر کی اطاعت اور فرمانبرداری واجب ہے۔ 

روایت میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کے گھر سے نکلنے پر پابندی لگا دی۔ اس عورت کا باپ بیمار ہوا تو اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پیغام بھیج کر دریافت کیا۔ کہ وہ اپنے والد کے پاس جائے یا خاوند کی فرماں برداری کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاوند کی اطاعت کا حکم دیا۔ کچھ عرصہ بعد اس کے باپ کا انتقال ہو گیا ہے۔ تو اس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیجا۔ جس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے شوہر کی اطاعت کی وجہ سے تمہارے باپ کی  مغفرت فرما دی ہے۔  

یہ حدیث یوسف بن عطیة عن ثابت عن أنس کے طریق سے مروی ہے۔ جبکہ علامہ بوصیری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ یوسف بن عطیہ ضعیف روای ہیں۔ واللہ اعلم 

شوہر کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ بیوی کو اس کے والدین سے ملنے سے روک دے۔ اور قطع تعلق کرادے۔ لیکن اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر شوہر بیوی کو کسی بات سے منع کردے تو بیوی پر اس کی بات کا ماننا لازم ہے۔ یہاں بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگر شوہر بیوی کو اس کے والدین سے ملنے سے منع کرے۔ اور بیوی اس کی اجازت کے بغیر ان سے مل لے۔ تو اس صورت میں شرعاً بیوی شوہر کی نافرمان نہیں کہلائے گی۔ 

بالاتری  

اللہ تعالی نے مرد کوعورت پرحاکم مقررکیا ہے۔ شوہر کے ذمہ بیوی کا خیال رکھنا اور اس کی راہنمائی ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالی نے مرد کوکچھ جسمانی اورعقلی خصائص سے نوازا ہے۔ اوراس پر کچھ مالی امور بھی واجب کئے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے۔ 

الرجال قوامون علی النساء {النساء : 34 

مرد عورتوں پر حاکم ہیں۔ 

رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ 

"عورت کیلئے جائز نہیں کہ وہ شوہرکی اجازت کے بغیر روزہ رکھے۔ اور نہ یہ جائز ہے کہ وہ اس کے گھر میں اس کی اجازت کے بغیر کسی کو داخل ہونے دے” [ بخاری و مسلم] 

امانت کی حفاظت 

شوہر کا مکان، سامان، مال و متاع سب شوہر کی امانت ہیں۔ اور بیوی ان کی امین ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک بیوی اپنے خاوند کے اعتماد، عزت و عصمت اور اولاد کی محافظ بھی ہوتی ہے۔ اگر عورت جان بوجھ کر خاوند کا کوئی نقصان کرے تو اس کا مطلب اس نے خیانت کی۔ حضرت ابن عباسؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا۔ 

"چار چیزیں ایسی ہیں کہ جس کو وہ مل جائیں تو دین و دنیا کی بھلائی اس کو نصیب ہو جائے۔
  شکر گزار دل، ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنے والی زبان، بلاؤں پر صبر کرنے والا جسم، وہ عورت جو اپنی ذات اور اپنے شوہر کے مال میں خیانت نہ کرے”  

حدیث میں بہترین عورت کی دو صفات بیان ہوئی ہیں۔ 

أَحْنَاہُ عَلٰی وَلَدٍ فِی صِغَرِہٖ وَأَرْعَاہُ عَلٰی زَوْجٍ فِی ذَاتِ یَدِہٖ‘[بخاری] 

"اپنے بچوں پر جب کہ وہ کم عمر ہوتے ہیں، بڑی مہربان اور شفیق۔ اور اپنے خاوندوں کے معاملات میں ان کے مفادات کا بہت خیال رکھنے والی۔ 

احترام 

مرد چونکہ گھر کا حاکم و نگران ہے۔ سو اس کی اطاعت اور احترام عورت پر لازم ہے۔ شوہر کے حقوق میں شامل ہے کہ بیوی اس کا احترام اور تعظیم کرے۔  بات بیوی کو چاہئیے کہ شوہر سے بات چیت کرتے وقت الفاظ، آواز اور لب و لہجے میں ادب کو ملحوظ رکھے۔اگر شوہر کو یہ پسند نہ ہو کہ بیوی اس کا نام لے کر پکارے تواس بات کا لحاظ رکھے۔ یہ بات ملحوظ خاطر رکھی جائے کہ شادی کے بعد بیوی کے لیے شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ لکھنے یا استعمال کرنے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں۔ حضرت امّ سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا۔ 

"جس عورت نے اس حالت میں وفات پائی کہ اس کا شوہر اس سے راضی تھا۔ وہ جنّت میں داخل ہوگی" 

 شوہر کی اطاعت جنت میں اعلیٰ مقام کے حصول کا ذریعہ ہے۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں بیان ہوا ہے کہ 

"عورت جب پانچ وقت کی نماز پڑھے۔ مہینے بھر کے روزے رکھے۔ اپنی عفّت و عصمت کی حفاظت کرے۔ اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے۔ تو پھر اسے حق ہے کہ وہ جنّت کے جس دروازے سے چاہے اس میں داخل ہوجائے" 

استمتاع ممکن بنانا 

یہ شوہر کے حقوق میں شامل ہے کہ وہ بیوی سے نفع حاصل کرے۔ بیوی کے لئے لازم ہے کہ اپنے جسم، لباس اور گھر کی صفائی کا خیال رکھے۔ اور شوہر کے لئے بناؤ سنگھار کرے۔ تاکہ شوہر کا دل خوش رہے۔ کیونکہ شادی کی حکمت اور مصلحت میں سے ایک جنسی اور نفسانی خواہشات اور ضرورت کو پورا کرنا بھی ہے۔اس لئے عورت پر شوہر کا یہ حق ہے کہ بیوی اس کی ان ضرورت کا خیال رکھے۔ شوہر کی موجودگی میں عورت کیلئے نفلی روزے رکھنا ممنوع ہے۔ نیز شوہر جس وقت بیوی کو اپنی ضرورت کے لئے طلب کرے اس کے حکم کو پورا کرنے کی عورت کو تاکید کی گئی ہے۔ 

شکرگزاری 

جیسے جیسے ہمارے معاشرے پر مغربی روایات اور اقدار کا قبضہ ہو رہا ہے۔ خواتین کو ان کے شوہروں کے حقوق کی ادائیگی سے بھی متنفر کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ایک مرد عورت کا نگہبان، مالک اور حاکم ہے۔ اور جتنی سہولیات وہ اپنی بیوی کو فراہم کرتا ہے بیوی کے لئَ اس کی شکر گزاری لازم ہے۔  

ایک بار آپ ﷺ سے جہنم میں عورتوں کی کثرت کی وجہ کے متعلق استفسار کیا گیا تو آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا۔ 

"وہ شوہر کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان سے مکر جاتی ہیں” (بخاری،3/463، حدیث:5197) 

معاشرتی حقوق 

عورت پر سب سے زیادہ حق اس کے شوہر کا ہے۔  بیوی کو چاہئیے کہ اپنے یا شوہر کے گھر والوں کے سامنے اس سے بحث و تکرار نہ کرے۔ بے جا شکوہ وشکایت کا رویہ اختیار نہ کرے۔ اپنے بچوں کے سامنے ان کے باپ کا وقار بحال رکھے۔ ہر جائز کام میں شوہر کے جائز فیصلے کی تصدیق و تائید کرے۔ شوہر کی رضا اور خوشی کے لئے اس کے رشتہ داروں سے احسن سلوک کرے۔ عورت پر اگرچہ سسرال والوں کے کام اور خدمت فرض نہیں۔ لیکن اگر وہ شوہر کی رضا کے لئے اس کے والدین کی خدمت کرے۔ تو اس کا بڑا اجر ہے۔  

اخلاقی حقوق 

بیو کے لئے لازم ہے کہ وہ شوہر کے راز اور پردے کی باتوں کو کسی کے سامنے نہ کھولے۔ شوہر کی آمدن اور اس کے وسائل سے زیادہ تقاضا نہ کرے۔ کفایت شعاری اپنائے۔ شوہر کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے کوئی چیز کسی کو نہ دے۔ شوہر کے مال کو ضائع کرنے کی بجائے نفع بخش بنانے کی تدبیر کرے۔ جب عورت شوہر کے مال کو اپنا مال سمجھے گی تو اسے ضائع نہیں کرے گی۔ بیوی کو چاہئیے کہ اپنے خاوند کو توجہ، وقت، محبت اور اسبابِ راحت فراہم کرے۔ شوہر کے دل میں نیکی کی ترغیب ڈالے۔ شوہر اور اولاد کو دین سے قریب کرنے کی کوشش کرے۔   

 ان سب نقاط اور بحث سے واضح ہوتا ہے کہ بیوی پر شوہر کے حقوق بہت زیادہ ہیں۔ اورعورت پر ان حقوق کی ادائیگی فرض ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ حقوق و فرائض پورا کرنے میں بھی اعتدال کی ضرورت ہے۔ نہ تو یہ درست ہے کہ تمام ذمہ داریاں بیوی پرڈال دی جائیں۔ اورنہ ہی ایسا ہو کہ بیوی اپنے شوہر کی خدمت سے بھی دامن کش ہوجائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اورحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کے نکاح کے بعد کام کی تقسیم اس طرح فرمائی تھی کہ باہر کا کام اور ذمہ داریاں حضرت علی رضی اللہ عنہ انجام دیں گے۔ اورگھریلو کام کاج اور ذمہ داریاں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سپرد ہوں گی۔  

بحیثیت انسان مرد اور عورت برابر ہیں۔ نہ تو کسی مرد کے لیے اس کی مردانگی قابلِ فخر ہے۔ اور نہ عورت کے لیے اس کی نسوانیت باعثِ عار۔ مرد اور عورت دونوں اپنی تخلیق، صفات اور صلاحیت کے لحاظ سے فطرت کا عظیم شاہکار ہیں۔ لہذا دونوں کے حقوق و فرائض پورے ہونا ضروری ہیں۔ تبھی ایک گھرانہ خوشگوار اور پرسکون زندگی گزار سکتا ہے۔ 

Simple Rishta

Simple Rishta

We are available from : 10:00 AM to 10:00 PM (Monday to Friday)

I will be back soon

Simple Rishta
Hey there 👋
How can we help you?
Messenger