طلاق "طلق” سے نکلا ہے۔ جس کے معنی ہیں رہائی۔ لغوی معنوں میں طلاق کے معنی نکاح کی گرہ کھول دینا، ترک کرنا یا چھوڑ دینا کے ہیں۔ فقہ میں اس سے مراد دو گواہوں کی موجودگی میں اپنی بیوی یا منکوحہ کو نکاح سے آزاد کرنے یا تنسیخ نکاح کے ہیں۔ مختلف علماء نے جو طلاق کی اقسام بیان کی ہیں۔ ان پر بات کرنے کے علاوہ ہم دیکھیں گے کہ طلاق کی شرعی حیثیت کیا ہے۔ طلاق دینے کا شرعی طریقہ کیا ہے۔ نیز یہ کہ طلاق کی حکمت کیا ہے۔
طلاق کی شرعی حیثیت
موجودہ وقت اور حالات میں کسی شخص کا جن چیزوں کے ساتھ تعلق ہے ان کے مسائل کا سیکھنا اس کے لئے نہایت ضروری ہے۔ مثال کے طور پرایک مسلمان کے لئے نماز، روزہ زکوہ کے فرائض، تاجر کے لئے خرید و فروخت کے مسائل، خواتین کے لئے حیض و نفاس، شوہر کے لئے بیوی کے مخصوص ایام میں اس کے قریب جانے کے مسائل سیکھنا ضروری ہیں۔ اسی طرح طلاق کے مسائل سے آگاہی بھی لازم ہے۔
خدانخواستہ اگر ایسا ارادہ ہو تو طلاق کی اقسام ، احکام اور ضروری مسائل جان لینا چاہئیے کہ طلاق کس طرح دی جائے۔ کن حالات میں طلاق دینا جائز ہے۔ کتنی طلاقیں دینا جائز ہیں۔ طلاق کے دیگر احکام اورمسائل کیا ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
اسلام نے طلاق کا قانون علیحدگی کے لیے نہیں بنایا۔ بلکہ شوہر اور بیوی کے درمیان پیدا ہونے والی نفرت اور ناچاقی کے باعث علیحدہ ہونے۔ عدت کے دوران سوچ بچار اور رجوع کی کوشش کا وقت مہیا کرنے کے لیے بنایا ہے۔ شریعت میں طلاق جائز قرار دی گئی ہے۔ لیکن اسے ایک ناپسندیدہ عمل بھی قرار دیا گیا ہے۔ حضرت محارب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔
مَا أَحَلَّ اللهُ شَیْئاً أَبْغَضَ إِلَیْهِ مِنَ الطَّلاَقِ
اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو حلال کیا ہے ان میں اُس کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ طلاق ہے۔
ابوداؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب فی کراھیۃ الطلاق
طلاق کی اقسام بلحاظ وقوع
وقوع یا تاثیر کے اعتبار سے طلاق کی تین اقسام ہیں۔ ہر ایک کا حکم درجہ ذیل ہے۔
طلاقِ رجعی
رجعی کا لفظ ‘رجعت’ سے نکلا ہے۔ جس کے معنی ہیں، آگے بڑھانا، رجوع کرنا، پہل کرنا، تیزی کرنا وغیرہ۔ اس سے مراد وہ طلاق ہے جس کے بعد دورانِ عدت مرد اپنی بیوی سے رجوع کر سکتا ہے۔ یعنی اس کے پاس طلاق کو واپس لوٹا کر دوبارہ بیوی بنا لینے اور تجدید نکاح کے بغیر رجوع کرنے کا حق باقی رہتا ہے۔
یعنی شوہر اپنی بیوی کو واضح الفا ظ میں طلاق دے۔ جیسا کہ "تجھے طلاق ہے” یا اسی کے ہم معنی الفاظ میں سے کچھ کہے۔ جیسا ‘میں نے تجھے چھوڑدیا’ ۔ تو یہ طلاقِ رجعی ہوگی۔ اور مرد عدت کے دوران اپنی بیوی سے رجوع کر سکتا ہے۔ خواہ بیوی راضی ہو یا نہ ہو۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ طلاقِ رجعی کے دوران زوجین اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
لَا تُخْرِجُوْھُنَّ مِنْم بُیُوْتِهِنَّ.
الطلاق، 65: 1
انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو۔
یعنی طلاق رجعی کی صورت میں عورت کو گھر سے نہ نکالا جائے۔ وہ عدت اپنے شوہر کے گھر اس نیت سے گزارے کہ صلح کی کوئی صورت بن جائے۔ اس دوران زوجین رجوع کے لیے مشترکہ کوشش کریں۔ ایک دوسرے کی غلطیوں کو نظر اندازکریں۔ اور اپنے رویہ پر نظرِ ثانی کر کے اپنی اصلاح کریں۔ تا کہ رشتہ زوجیت دوبارہ قائم ہو سکے۔
طلاقِ بائن
اس سے مراد ایسی طلاق ہے جس میں مرد عورت کو ایک یا دو طلاقِ رجعی دے کر اس سے رجوع نہ کرے۔ عدت گزرنے کے بعد وہ عورت ‘بائن’ ہوجاتی ہے۔ شوہر کو رجوع کا حق نہیں رہتا۔ ہاں! اگر وہ دونوں دوبارہ ازدواجی تعلق دوبارہ قائم کرنا چاہیں تو دورانِ عدت یا بعد عدت نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔
چنانچہ کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دے۔ اور اس کے ساتھ بائن کا لفظ استعمال کرے۔ یعنی یوں کہے کہ میں تجھے ایک طلاق بائن یا دو طلاق بائن دیتا ہوں۔ تو طلاق واقع ہو جائے گی ۔ یا اگر مرد طلاق کی نیت سے ایسے کنایہ الفاظ بولے۔ جن سے رشتہ زوجیت ختم ہونا ثابت ہو۔ تب بھی نکاح ختم ہو جائے گا۔ اور مرد عدت کے دوران بیوی سے بغیر تجدید نکاح رجوع نہیں کر سکتا۔ البتہ عدت میں یا عدت گزارنے کے بعد فریقین باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔
طلاقِ مغلّظہ
یہ طلاق بائن ہی کی ایک قسم ہے۔ اسے طلاقِ بائن کبریٰ یا بینونتِ کبریٰ بھی کہتے ہیں۔ اس سے مراد ایسی طلاق ہے جس میں تین طلاقیں تین طہروں میں متواتر دی جائیں۔ یا ایک ہی طہر میں تین یا پھرایک ہی جملے میں تین طلاقیں دے دی جائیں۔
اس طلاق کے بعد مرد اُس عورت سے دوبارہ نکاح نہیں کر سکتا۔ اگر اس کی مطلقہ بیوی کسی دوسرے شخص سے نکاح کر کے جسمانی تعلق قام کرے۔ اور صحبت کے بعد اسے طلاق ہو جائے یا وہ مرد فوت ہو جائے۔ تب یہ ممکن ہے کہ عورت اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے۔ یاد رہے، ارادتاً حلالہ جائز نہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ طلاق کے جن الفاظ میں شدت نہیں ہوتی وہ عام طور پر طلاق رجعی ہوتی ہے۔ جس کے معنی میں شدت اورسختی ہوتی ہے وہ طلاق بائن ہوتی ہے ۔اس کے علاوہ بسااوقات ایک لفظ طلاقِ رجعی کا ہوتا ہے۔ مگر مخصوص احوال کی وجہ سے وہ بائن بن جاتا ہے۔ مثلاً غیر مدخولہ کو اگر طلاقِ رجعی دی جائے۔ تو وہ بائن ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر بائن کے بعد رجعی دی جائے۔ تو وہ بھی بائن ہوتی ہے۔
طلاق کی اقسام بلحاظِ کیفیت
بلحاظ وقوع طلاق کی اقسام کے علاوہ بلحاظ کیفیت طلاق کی اقسام جاننا بھی ضروری ہے۔ احناف کے مطابق بلحاظِ کیفیت طلاق کی تین قسمیں ہیں۔ پہلی طلاقِ اَحسن، دوسری طلاقِ حسن اور تیسری طلاقِ بدعی
طلاقِ احسن
طلاقِ اَحسن سے مراد وہ طلاق ہے جس میں شوہر اپنی منکوحہ کو اس وقت ایک رجعی طلاق دے۔ جس میں اس سے جسمانی تعلق قائم نہ کیا ہو۔ اسے چھوڑ دے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے۔ اس طلاق میں عدت کے دوران مرد کے لئے رجوع کا حق باقی رہتا ہے۔ عدت گزرنے کے بعد عورت بائنہ ہو جاتی ہے۔ اور فریقین کی باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح بھی ہو سکتا ہے۔
طلاقِ حسن
اس کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو ایک طہر میں ایک طلاق دے۔ اس کے بعد اگلا حیض گزرنے کے بعد دوسرے طہر میں دوسری طلاق دے۔ پھر تیسرا حیض گزرنے کے بعد تیسرے طہر میں تیسری طلاق دے۔ اس طلاق کے بعد شرعی حلالہ کے بغیر دوبارہ عقد نہیں ہو سکتا۔
طلاقِ حسن کو طلاق سنت بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن طلاقِ حسن کے طلاقِ سنت ہونے میں اختلاف ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اس کو طلاق بدعت کہا ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک جان بوجھ کر اور بلا ضرورت تین طلاقیں دلوائی جارہی ہیں۔ جبکہ عورت کو جدا کرنے کے لئے محض ایک طلاق کافی ہے۔ جسے طلاق احسن کہتے ہیں۔ جب ایک طلاق سے عورت جدا ہوسکتی ہے۔ اور عدت گذرنے کے بعد وہ دوسرے مرد سے شادی کرسکتی ہے۔ تو پھر تین طلاقیں دینے کی کیا ضرورت ہے۔
طلاقِ بدعی
اسے طلاق البدعت بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی جب شوہر بیوی کو تین طلاقیں بیک لفظ یا ایک ہی ایسے طہر میں دے جس میں مباشرت کرچکا ہو۔ یا حیض کی حالت میں طلاق دے۔ یا پھر حالت حمل میں طلاق دے۔ اسے غیر مسنون طلاق کہتے ہیں جو کہ موجبِ گناہ ہے۔ اگرچہ طلاق بدعی کسی بھی صورت میں دی ہو واقع ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کا دینے والا گنہگار ہوتا ہے۔
طلاق بدعی کی دو اقسام ہیں۔ باعتبارِ وقت اور باعتبارِ تعداد۔
۱- باعتبار وقت
یعنی ایسے وقت میں رجعی طلاق دی جائے جب عورت حالت حیض میں ہو۔ ایسی صورت میں مرد کو چاہیے کہ وہ رجوع کرے۔ یہ طریقہ غیر مسنون ہے۔ حیض کی حالت میں طلاق نہ دینے کے پیچھے بھی ایک مصلحت ہے ۔ کیونکہ اس وقت مرد کو عورت کی جانب طبعاً رغبت نہیں ہوتی۔ مزید یہ کہ اس صورت میں عدت کا زمانہ بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ جس حیض میں طلاق دی جاتی ہے وہ حیض عدت میں شمار نہیں ہوتا۔ اور عورت کو طویل انتظار کی زحمت اٹھانا پڑتی ہے۔
یا پھر اگرعورت حاملہ ہو۔ اس وجہ سے بھی عورت کو زیادہ عرصہ یعنی وضع حمل تک عدت میں رہنا پڑے گا۔ اگرچہ یہ طلاق خلافِ سنت ہے مگر واقع ہو جاتی ہے۔
۲- باعتبارِعدد
یعنی ایک طہر میں ایک طلاق دینے کی بجائے بیک وقت دو یا تین طلاقیں دینا۔ یوں بیک وقت تین طلاق دینے سے طلاق واقع ہو جائے گی۔ لیکن دینے والا گناہگار ہو گا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے۔
اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاکٌم بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌم بِاِحْسَانٍ
طلاق (صرف) دو بار (تک) ہے۔ پھر یا تو (بیوی کو) اچھے طریقے سے (زوجیت میں) روک لینا ہے۔ یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔
طلاق کی اقسام باعتبارِالفاظ
بااتبار الفاظ طلاق کی اقسام میں صریح اور کنایہ بھی شامل ہیں۔ یعنی الفاظ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو طلاق کی دو قسمیں ہیں۔ ایک طلاق صریح اور دوسری طلاق کنایہ۔
۱- طلاق صریح
اس سے مراد وہ طلاق ہے جس میں ایسے الفاظ کے ذریعے طلاق دی جائے جو بالکل واضح ہوں۔ اور ان کے ادا کرنے کے بعد یہ جاننے کی ضرورت نہ رہے کہ شوہر نے یہ لفظ بولتے ہوئے طلاق کی نیت کی تھی یا نہیں۔ پھر خواہ یہ الفاظ سنجیدگی سے بولے جائیں یا مذاق میں۔ طلاق واقع ہو جائے گی۔
حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ "تین چیزیں ایسی ہیں جن کا قصد کرنا بھی قصد ہے۔ اور ہنسی مذاق میں منہ سے نکالنا بھی قصد ہے۔ نکاح، طلاق، رجعت” (ابوداؤد)
لہذا صریح سے مراد وہ الفاظ ہیں۔ جن کا عمومی استعمال طلاق ہی کے لیے ہو۔ جیسے لفظ ‘طلاق’ ہے۔ یا انگریزی میں لفظ ‘ڈائیورس’ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ صریح الفاط ہیں۔ اگر کسی نے بیوی کو صریح الفاظ کے ساتھ طلاق دے دی۔ تو خواہ وہ الفاظ کسی بھی مقصد جیسے ڈرانے، دھمکانے یا مذاق میں کہے ہوں۔ ان سے بغیر نیت کے طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
۲- طلاق کنایہ
ایسے الفاظ کے ذریعے دی گئی طلاق جس میں طلاق کا مفہوم واضح نہ ہو۔ جن میں طلاق کے ساتھ کوئی اور مفہوم بھی پایا جائے۔ البتہ اگر شوہر ان الفاظ کو بولتے ہوئے طلاق کی نیت کر لے تو طلاق واقع ہو جائے ۔ یعنی ایسے الفاظ بولے جائیں جو جدائی کی علامت ہوں۔ لیکن ان الفاظ کو شریعت یا عرف میں طلاق کے طور پر استعمال نہ کیا جاتا ہو۔ جیسے ‘تم آزار ہو’۔ ‘میں نے تمہیں فارغ کیا’۔ ‘ جا میں تجھے نہیں رکھتا’، تو اپنے گھر چلی جا۔ ہمارا تعلق اب ختم ہو چکا، وغیرہ۔
یاد رہے کہ کنایہ کے الفاظ سے طلاق دو شرطوں کے بغیر واقع نہیں ہوتی۔ پہلی یہ کہ کنایہ کے الفاظ بولتے ہوئے طلاق دینے کی نیت ہو۔ دوسری یہ کہ ایسے الفاظ طلاق کے لیے بولے جنہیں واقعی طلاق کے لیے استعمال کیا جاتا ہو۔ چنانچہ اگر کوئی شخص ایسا لفظ بولتا ہے جو شرعاً یا عرفاً کسی بھی طرح سے طلاق کے مفہوم میں نہیں لیا جاتا۔ اور وہ نیت یہ کرتا ہے کہ میں طلاق دے رہا ہوں۔ تو اس سے طلاق واقع نہیں ہو گی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ الفاظ کو صریح اور کنایہ دو اقسام میں تقسیم تو کیا گیا ہے۔ اور بنیادی طور پر یہ تقسیم بالکل درست ہے۔ لیکن افراد، وقت اور علاقے کے اعتبار سے اس میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ لہذا کسی بھی مخصوص لفظ کے لیے کوئی مخصوص حکم نہیں ہو سکتا۔ کوئی لفظ ایسا ہو سکتا ہے جو کسی قبیلے کے ہاں صریح طلاق ہو۔جبکہ کسی کے ہاں کنایہ ہو۔ یا کسی وقت یا جگہ میں وہ لفظ صریح ہو۔ جبکہ کسی اور زمانے اور علاقے میں وہ کنایہ ہو۔
طلاق ثلاثہ یا بیک وقت تین طلاقیں دینا
طلاق کی اقسام جاننا جتنا ضروری ہے اتنا ہی ضروری اس کے مسائل سے آگاہی بھی ہے۔ کسی مرد کے لئے بیک وقت تین طلاقیں دینا درست نہیں۔ فقہ میں اسے طلاقِ فاسد، باطل اور بدعت قرار دیا گیا ہے۔ اس کے فاسد قرار پانے کی درج ذیل وجوہات ہیں۔
۱- پہلی یہ کہ یہ قدیم روایات کی پیروی میں دی جاتی ہے۔ اسلام نے طلاق کا جو شرعی طریقہ بیان کیا یہ اس کے برعکس ہے۔
۲- دوسری وجہ یہ ہے کہ طلاقِ ثلاثہ فوری مؤثر ہوتی ہے۔ یوں یہ شرعی طلاق کے مقاصد کے خلاف ہے۔ کیونکہ دوران عدت زوجین کو اصلاح یا رجوع کرنے کے مواقع میسر نہیں آتے۔
۳- تیسری وجہ یہ کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی اسے ناپسند فرمایا ہے۔ طلاق ثلاثہ کی ہر صورت حرام ہے۔ اورایسی طلاق کو رواج دینا اسلام میں ناپسندیدہ عمل ہے۔
طلاق دینے کا صحیح طریقہ
طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ حالتِ طہر میں بیوی سے صحبت کیے بغیر صرف ایک طلاق دی جائے۔ اور وہ بھی صرف اس صورت میں کہ اس کے بغیر چارہ نہ ہو۔ طلاق کے بعد اگر رجوع اور صلح کا ارادہ بن جائے تو محدثین اور فقہاے اربعہ کے مطابق تین حیض یا تین مہینے کے اندر رجوع اور عدت گزر جانے کے بعد دوبارہ نکاح کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر طلاق دینے کے بعد رجوع نہ کیا جائے۔اور عدت کی مدت گزر جائے۔ تو ان کے مابین رشتہ زوجیت ختم ہو جائے گا۔ مطلقہ بیوی اس کے بعد آزاد ہے۔ جس سے چاہے نکاح کر سکتی ہے۔حتیٰ کہ پہلے خاوند سے بھی نکاح کر سکتی ہے۔
کچھ علماء کا موقف یہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی طلاقِ رجعی شمار ہو گی۔ یعنی اس کے بعد خاوند اگر رجوع کرنا چاہیے تو وہ دوران عدت رجوع کر سکتا ہے۔ اس کے لیے اسے دوبارہ نکاح کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں اگر عدت گزرنے کے بعد صلح کرنا چاہیں تو پھر نکاح ضروری ہے۔ اور حلالے کے بغیر ہی ان کا نکاح جائز ہوگا۔ پہلی اور دوسری طلاق میں بھی یہی حکم ہوگا۔ البتہ تیسری طلاق دینے کے بعد رجوع نہیں ہو سکتا۔ نہ ہی وہ آپس میں دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔
حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ
جب تک کہ وہ کسی اور جگہ نکاح نہ کرے۔
طلاق دینے کے ممنوع طریقے
۱- بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دینا۔ حیض کی حالت میں طلاق تو واقع ہوجاتی ہے۔ لیکن اگر ایک یا دو طلاقِ رجعی دی ہے تو رجوع کرلینا مستحب ہے۔
۲- ایسے طہر میں طلاق دینا جس میں صحبت کی جا چکی ہو۔ اگرچہ یہ طریقہ درست نہیں۔ لیکن اس میں طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
۳- ایک ہی طہر میں ایک سے زائد بار طلاق دینا۔ یا ایک جملہ ہی میں تینوں طلاقیں دے دینا۔ اس سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
۴- نابالغ یا بڑی عمر والی بیوی کو جسے حیض نہ آتا ہو۔ ایک مہینہ میں ایک سے زائد طلاقیں دینا۔ یہ سب طریقے طلاقِ بدعت کے ہیں۔ جو ممنوع ہیں۔
۵- جبراً طلاق لکھوانے سے بھی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ اسی طرح جبراً طلاق نامہ پر دستخط کروانے یا انگوٹھا لگوانے سے بھی طلاق نہیں ہوتی۔
رخصتی سے پہلے طلاق
نکاح اور رخصتی کے بعد کسی شرعی یا طبعی رکاوٹ کی وجہ سے شوہر بیوی کے ساتھ جسمانی تعلق قائم نہ کر سکا لیکن کسی وجوہ کی بناء پر اس نے بیوی کو طلاق دے دی ۔تو طلاقِ بائن ہو گئی۔ چاہے صاف لفظوں سے دی ہو کنایتاً ۔ان حالات میں جب طلاق دی جائے گی تو وہ بائن طلاق ہی ہو گی۔ ایسی عورت کے لیے طلاق کی کوئی عدت نہیں۔ اور وہ طلاق کے فوراً بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کر سکتی ہے ۔
ایسی عورت کو ایک طلاق دینے کے بعد دوسری تیسری طلاق دینے کا اختیار نہیں۔ اگر دے گا تو نہیں ہو گی۔ البتہ اگر پہلی ہی دفعہ یوں کہہ دے۔ کہ "تجھ کو دو طلاق یا تین طلاق”۔ تو جتنی طلاقیں کہیں، اتنی ہو جائیں گی۔ اور اگر یوں کہا کہ "تجھ کو طلاق ہے،طلاق ہے، طلاق ہے”۔ تب ایک ہی طلاق ہو گی۔
رخصتی کے بعد طلاق
رخصتی کے بعد شوہر اور بیوی میں صحبت ہوگئی۔ اس کے بعد اگر ایک یا دو طلاقیں صاف لفظوں میں دے دی جائیں تو طلاق رجعی ہوگی۔ اور اگر کنایتاً دی تو طلاقِ بائن ہوگی۔ رجعی میں رجوع کا حق ہوگا۔ جبکہ بائن میں رجوع کا حق نہیں ہوگا۔ البتہ اگر تین طلاقیں نہیں دیں تو اسی شوہر سے نیا نکاح (جب کہ میاں بیوی دونوں راضی ہوں) دوران عدت بھی ہو سکتا ہے۔ اور عدت کے بعد بھی۔
لیکن کسی دوسرے شخص سے عدت کے بعد ہی نکاح ہو سکتا ہے۔ اور عدت ہر صورت میں لازم ہوگی۔اور جب تک عدت ختم نہ ہو دوسری اور تیسری طلاق بھی دی جاسکتی ہے۔ اور اگر شوہر اور بیوی میں تنہائی تو ہوئی لیکن صحبت نہ ہوئی۔ اگرچہ صبحت کرنے میں کوئی شرعی یا طبعی عذر نہیں تھا۔ اس صورت میں اگر صاف لفظوں میں طلاق دی جائے یا کنایہ الفاظ میں۔ دونوں صورتوں میں طلاق بائن ہی ہو گی۔ اور عدت بھی واجب ہوگی۔ رجوع کا حق بھی نہیں ہوگا۔ اور عورت عدت پوری کیے بغیر کسی دوسرے سے نکاح بھی نہیں کر سکتی۔ البتہ اسی شخص سے جس نے طلاق دی ہے۔ عدت کے دوران یا بعد دوبارہ نکاح کر سکتی ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ تین طلاقیں نہ دی ہوں۔
طلاق سے متعلق من گھڑت باتیں
طلاق سے متعلقہ چند من گھڑت باتیں رواج پا چکی ہیں۔ جیسا کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ غصے میں طلاق نہیں ہوتی ۔ کچھ کا خیال ہے کہ عورت جب تک نہ سنے، یا طلاق قبول نہ کرے، طلاق نہیں ہوتی ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ طلاق دیتے وقت گواہان کی موجودگی ضروری ہے۔ اس کے بغیر طلاق نہیں ہوتی۔ یا جب تک طلاق تحریری صورت میں نہ ہو، تب تک نہیں ہوتی۔ چند کم عقل لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر طلاق کے بعد ساتھ لوگوں کو کھانا کھلا دیا جائے تو طلاق ختم ہو جاتی ہے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شرعی طور پر جب تین طلاقیں دے دی جائیں۔ اگرچہ یہ طلاقیں لڑائی کے سبب ہوں۔ غصہ میں دی جائیں۔ بلاوجہ یا فون پر دی جائیں۔ زبانی ہوں یا تحریری۔ بہر صورت طلاق ہو جاتی ہے۔ اور عورت مرد پر حرام ہوجاتی ہے۔ پھر بغیر حلالہ کے رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔
شرعاً طلاق انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ بیشتر لوگوں کی طلاق کی اقسام سے آگاہی بھی نہیں ہے۔ اس کے احکام و مسائل سے لوگ نا بلد ہیں۔ مزید یہ کہ طلاق پر عمل درآمد سے پہلے ضروری ہے کہ انسان ان تمام عوامل پر بھی غور کرے جو اس کے نتیجے میں پیدا ہوں گے۔
زوجین کو اپنی ذاتی زندگی کے علاوہ اپنے بچوں کے معاملات، دوسری شادی کی صورت میں زوجیت کے معاملات، معاشرت اور معاش کی فکر بھی ہونی چاہئیے۔ نیز یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ان کا دوسرا شریکِ حیات سابقہ زوجیت کے معیار پر پورا اتر سکے گا یا نہیں۔ خاتون کے دوسری شادی نہ کرنے کی صورت میں اس کے مستقبل اور نان نفقہ کا ذمہ دار کون ہو گا۔ لہٰذا زوجین ان تمام باتوں پر غور اور اپنی اصلاح کریں تو یقینا طلاق کی نوبت نہیں آئے گی۔ اللہ سب کے لئے آسانیاں کرے۔ آمین