طلاق کا مسئلہ انتہائی اہم اور حساس موضوع ہے۔ یہ  گھریلو اور سماجی بحث کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر دو اور تین  طلاقوں کو لے کر لوگ بعض اوقات الجھن میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ کہیں غصے اور جذبات میں آ کر طلاق دے دی جاتی ہے۔ تو کہیں لاعلمی کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ لہذا دو اور تین طلاق کا فرق اور شریعت میں اس کے کیا احکامات ہیں۔ یہ جاننا نہایت ضروری ہے۔ 

طلاق کا بنیادی تصور 

شوہر اور بیوی کے درمیان نکاح کے رشتے کو ختم کرنے کا شرعی طریقہ طلاق ہے۔ اگرچہ اسلام نے طلاق کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا ہے۔ لیکن بعض ناگزیر حالات میں اس کی اجازت دی گئی ہے۔ طلاق کا مقصد یہ ہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان نباہ ممکن نہ ہو تو وہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہو سکیں۔ تاہم، یہ عمل بہت سوچ سمجھ کر اور احتیاط سے کیا جانا چاہیے۔ خاص طور پر اگر طلاق کے بعد دوسری شادی کا ارادہ ہو۔ کیونکہ اسلام میں دوسری شادی کے بھی مخصوص احکام اور شرائط ہیں۔ 

دو طلاق کا حکم 

اس طلاق کا معاملہ نسبتاً آسان ہے۔ اگر شوہر اپنی بیوی کو دو مرتبہ طلاق دے۔ یہ طلاقیں الگ الگ وقتوں پر بھی دی جا سکتی ہیں یا ایک ہی وقت میں بھی۔ طلاق کی اقسام میں ایک یا دو طلاق دینے کے بعد رجوع کا موقع ہوتا ہے۔ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو ایک یا دو بار طلاق دیتا ہے۔ تو وہ عدت کے دوران رجوع کر سکتا ہے۔ یا عدت مکمل ہونے کے بعد دوبارہ نکاح کر سکتا ہے۔ لیکن دوسری طلاق کے بعد نکاح کی صورت میں حق مہر نیا دینا ہوگا۔ دو طلاق کے بعد تیسری طلاق دی تو رجوع کا حق ختم ہو جائے گا۔ 

مثال کے طور پر، اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے دیں۔ اور عدت کے دوران وہ اپنا فیصلہ بدل لے تو وہ بیوی کے ساتھ رجوع کر سکتا ہے۔ لیکن اگر عدت ختم ہو جائے اور رجوع نہ کیا جائے تو پھر دونوں کے درمیان نکاح ختم ہو جاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ شادی کرنا چاہیں تو نئے نکاح کی ضرورت ہوگی۔ 

تین طلاق کا حکم 

جب بات تین طلاق کی ہو تو اس کا معاملہ دو طلاق سے کچھ مختلف ہے۔ تین طلاق دینے کا مطلب یہ ہے کہ شوہر ایک ہی وقت میں یا الگ الگ وقتوں پر تین مرتبہ طلاق دے دے۔ شریعت اسلامی کے مطابق، تین طلاق دینے کے بعد رجوع کا کوئی موقع نہیں ہوتا۔ یعنی شوہر اپنی بیوی کو واپس نہیں لا سکتا۔ چاہے عدت کے دوران ہی کیوں نہ ہو۔ 

تین طلاق دینے کے بعد اگر میاں بیوی دوبارہ شادی کرنا چاہیں تو انہیں حلالہ کرنا پڑے گا۔ لیکن یہ قصدا کرنا جائزنہیں۔ ہاں اگر ایسا ہو کہ بیوی نے کسی اور مرد سے شادی کرلی۔ اور اگر وہ شوہر اسے طلاق دے دے۔ یا فوت ہو جائے تو پھر وہ اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ شادی کر سکتی ہے۔ یہ شرط اس لیے رکھی گئی ہے تاکہ طلاق کو ہلکے پھلکے انداز میں نہ لیا جائے۔ اور اس کی سنگینی کو محسوس کیا جائے۔ 

دو اور تین طلاق کا فرق 

اب سوال آتا ہے دو اور تین طلاق کا فرق۔ اس کا جواب یہ ہے کہ دو طلاق دینے کے بعد بھی شوہر کے پاس رجوع کا اختیار ہوتا ہے۔ جبکہ تین طلاق دینے کے بعد یہ اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ دو طلاق کے بعد اگر شوہر چاہے تو وہ اپنی بیوی کو واپس لا سکتا ہے۔ لیکن تین طلاق کے بعد ایسا ممکن نہیں ہوتا۔

تین طلاق کا مسئلہ 

دو اور تین طلاق کا فرق یا تین طلاق کا مسئلہ ہمیشہ سے اسلامی فقہ میں ایک حساس موضوع رہا ہے۔ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر شوہر ایک ہی وقت میں تین طلاق دے دے۔ تو نکاح فوری طور پر ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن فقہا کے درمیان اس پر اختلاف پایا جاتا ہے۔  

حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی فقہ، اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کوئی شوہر ایک ہی مجلس میں یا ایک ساتھ تین بار طلاق دے دے۔ تو وہ تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔ اور اس کے بعد بیوی سے رجوع ممکن نہیں ہوگا۔ جب تک وہ کسی اور شخص سے نکاح نہ کر لے۔ اور وہ نکاح ختم نہ ہو جائے۔ یعنی حلالہ کا معاملہ آ جائے گا۔ 

بعض فقہا جیسے امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم کی رائے ہے کہ اگر تین طلاق ایک ہی مجلس میں دی جائے تو وہ ایک ہی شمار ہوگی۔ اور شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہوگا۔ 

ہمارے لئے قرآن اور سنت سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ اور قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے طلاق کے احکامات واضح طور پر بیان کیے ہیں۔ ہم نے اسے ہی مدنظر رکھنا ہے۔ اور دیکھنا ہے کہ شریعت میں تین طلاق کا ثبوت کیا ملتا ہے۔ 

تین طلاق کا ثبوت 

قرآن میں طلاق کے معاملے کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان 
(البقرہ 229) 

طلاق دو مرتبہ ہے، پھر یا تو معروف طریقے سے رکھ لیا جائے یا احسان کے ساتھ چھوڑ دیا جائے۔

اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ طلاق کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے ایک طلاق دی جائے۔ پھر عدت میں یا اس کے بعد رجوع کیا جائے یا دوسری طلاق دی جائے۔ تیسری طلاق کے بعد بیوی حلال نہیں رہتی۔ جب تک کہ وہ کسی اور سے نکاح نہ کرے۔ 

اسی طرح، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی ایسے واقعات ملتے ہیں۔ جہاں کسی نے تین طلاق دے دی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کا اظہار کیا۔ اور کہا کہ اللہ کی مقرر کردہ حد سے نہ بڑھو۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یکبارگی تین طلاق دینا مستحسن عمل نہیں ہے۔

طلاق ایک انتہائی سنگین عمل ہے۔ اور اسے ہلکے پھلکے انداز میں نہیں لینا چاہیے۔ طلاق یافتہ سے شادی کا یوں بھی ہمارے معاشرے میں رجحان کم ہی ہے۔ لہذا جذبات میں آ کر کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ اسلامی شریعت میں طلاق کا طریقہ کار واضح طور پر بتایا گیا ہے۔ اور اس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ازدواجی رشتہ آخری حد تک بچایا جا سکے۔ 

۱۔ اگر معاملات خراب ہو رہے ہیں، تو پہلے مصالحت کی کوشش کریں۔ 

۲۔ طلاق کا فیصلہ اچھی طرح سوچ سمجھ کر کریں، نہ کہ غصے میں۔ 

۳۔ اگر طلاق دینی ہی ہے، تو شریعت کے مطابق ترتیب وار دیں تاکہ بعد میں پچھتاوا نہ ہو۔ 

۴۔ کسی بھی شرعی معاملے پر مشورہ لینے کے لیے کسی مستند عالم دین سے رجوع کریں۔

ہمیں طلاق، اس کی اقسام، طلاق کی عدت کی مدت جیسے تمام حساس معاملات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ نکاح جیسے خوبصورت رشتے کو قائم رکھا جائے۔ اگر علیحدگی ناگزیر ہو تو شریعت کے بتائے گئے طریقے پر عمل کریں۔ تاکہ بعد میں کسی قسم کی مشکلات یا پچھتاوا نہ ہو۔

اس کے ساتھ ساتھ دو اور تین طلاق کا فرق سمجھنا بہت ضروری ہے۔ تاکہ اس کے نتائج سے آگاہ رہا جا سکے۔ شریعت اسلامی نے طلاق کے احکامات کو بہت واضح طور پر بیان کیا ہے۔ اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان احکامات پر عمل کریں اور ان کی پابندی کریں۔

Simple Rishta

Simple Rishta

We are available from : 10:00 AM to 10:00 PM (Monday to Friday)

I will be back soon

Simple Rishta
Hey there 👋
How can we help you?
Messenger