مشرقی گھرانوں میں شادی صرف دو دلوں کا میل نہیں۔ بلکہ یہ دو خاندانوں کا ملاپ ہوتا ہے۔ اگر اسے ریئلٹی شو کہا جائے تو وہ بھی غلط نہ ہو گا۔ اور اس شو کی سب سے ہِٹ جوڑی ہوتی ہے۔ ساس اور بہو کی۔ کیونکہ میاں بیوی کے بعد اگر کوئی رشتہ سب سے زیادہ تنازعات کا شکار ہوتا ہے تو وہ ساس اور بہو کا ہی ہے۔ اگرچہ ہر گھر کا ماحول مختلف ہوتا ہے۔ مگر ساس بہو کے جھگڑے ایک عمومی مسئلہ بن چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ جھگڑے کیوں ہوتے ہیں؟ اور ان کا مستقل اور مثبت حل کیا ہو سکتا ہے؟
ساس بہو کے جھگڑے کی بنیادی وجوہات
جب دو خواتین ایک ہی شخص پر محبت کا حق جتانے لگیں۔ تو سلطنت یعنی گھر میں جنگ چھڑ ہی جاتی ہے۔ یہ جنگ تلواروں سے نہیں بلکہ طنزیہ جملوں، باتوں اور بعض اوقات چپ کی زبان سے لڑی جاتی ہے۔ ساس اور بہو کا رشتہ خاص طور پر اس کشمکش کا شکار ہوتا ہے۔ جہاں دونوں ایک دوسرے کی جگہ پر خود کو دیکھنا چاہتی ہیں۔ آئیے جانتے ہیں وہ کون سی وجوہات ہیں جو اس روزمرہ جنگ کو جنم دیتی ہیں۔
اختیار کی جنگ
بیٹے کی شادی کے بعد اکثر مائیں یہ محسوس کرتی ہیں کہ ان کا بیٹا بدل گیا ہے۔ اور بہو ان پر حاوی ہو گئی ہے۔ یا انہیں لگتا ہے کہ گھر کا کنٹرول ان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ جبکہ دوسری طرف بہو چاہتی ہے کہ وہ بیاہ کر اس گھر میں آئی ہے تو اسے عزت و وقار کے ساتھ ایک آزاد فرد کی حیثیت دی جائے۔ اور اس گھر میں دوسرے افراد کے برابر بلکہ ان سے عظیم مرتبہ دیا جائے۔ جب ایسا نہ ہو تو یہ رسہ کشی رفتہ رفتہ جھگڑے میں بدل جاتی ہے۔
غلط فہمیاں اور کمیونیکیشن گیپ
اکثر گھرانوں میں کھل کر بات کرنے کا رواج نہیں ہوتا۔ چھوٹی چھوٹی باتیں دل میں رہ جاتی ہیں۔ جو وقت کے ساتھ بڑی شکایات میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ نہ ساس بہو کی بات سمجھتی ہے اور نہ بہو ساس کی سوچ کو جاننے کی کوشش کرتی ہے۔
ساس کی خواہش ہوتی ہے کہ بہو عقل کے گھوڑے اتنی تیز دوڑائے کہ شادی کے اگلے دن سے ہی وہ گھر کے ہر فرد کی پسند ناپسند، بات چیت کا انداز، حتی کہ چائے میں شکر کی مقدار بھی خود بخود جان لے۔ وہ چاہتی ہیں کہ بہو بغیر کہے ہر اشارہ سمجھ جائے۔ اور ایسا لگے جیسے وہ برسوں سے اسی گھر کی فرد ہو۔
ادھر بہو کا دل چاہتا ہے کہ وہ نئے رشتے میں آئے تو اسے پلکوں پر بٹھایا جائے۔ جیسے شہزادی پہلی بار اپنے محل میں آئی ہو۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ ساس اسے صرف بہو نہیں، بلکہ بیٹی سمجھے۔ اسے اہمیت دے۔ ہر فیصلے میں شریک کرے۔ اور رائے لینے سے پہلے اس کی موجودگی کا بھی خیال رکھے۔
مگر جب دونوں طرف سے یہ توقعات پوری نہیں ہوتیں، تو دل میں شکوے، رویوں میں کھنچاؤ، اور باتوں میں چبھن آ جاتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں چھوٹا سا خلا ایک بڑے فاصلے میں بدلنے لگتا ہے۔
موازنہ اور حسد
ساس بعض اوقات اپنی بہو کا موازنہ اپنی بیٹی یا خود سے کرتی ہے۔ اگر بہو ان کی توقعات پر پوری نہ اُترے تو شکایات جنم لیتی ہیں۔ ادھر بہو کو لگتا ہے کہ ساس صرف اپنی بیٹی یا دیگر رشتہ داروں کو فوقیت دیتی ہیں۔ یوں اختلافات اور رشتوں کے معاملات مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔
روایتی معاشرتی توقعات
ہماری سوسائٹی میں بہو سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہر حال میں ساس کی خدمت کرے، خاموشی اختیار کرے اور خود کو مکمل طور پر شوہر کے گھر والوں کے لیے وقف کر دے۔ یہ روایات آج کے جدید تعلیم یافتہ دور میں قابلِ قبول نہیں رہیں، جس سے ٹکراؤ جنم لیتا ہے۔ لیکن آج کی بہو روایتی سیٹ اپ میں نہیں۔ ایک نئی سوچ کے ساتھ آتی ہے۔ وہ تعلیم یافتہ ہوتی ہے۔ کیریئر کا خواب لے کر آئی ہوتی ہے۔ اور چاہتی ہے کہ زندگی ایک پارٹنرشپ ہو، غلامی نہیں۔
یہی بدلتی ہوئی سوچ ساس بہو کے جھگڑے کو جنم دیتی ہے۔ کیونکہ جب ایک بہو سے یہ توقع رکھی جائے کہ وہ ملازمت بھی کرے۔ وقت پر کھانا بھی بنائے۔ بچوں کو بھی دیکھے۔ اور گھر کے ہر فرد کو بھی خوش رکھے۔ مگر ساتھ ساتھ یہ بھی باور کرا دیا جائے کہ گھر کے فیصلوں میں اس کی مشاورت ضروری نہیں کیونکہ وہ پرائی ہے۔ تو یہ تضاد بہو کو ذہنی تھکن اور خود ترسی کی طرف لے جاتا ہے۔
مزید یہ کہ بیٹے کی شادی کے پیچھے یہ خیال بھی ہوتا ہے کہ بہو آ کر گھر سنبھالے گی۔ اور ساس سکھ کا سانس لے کر آرام فرمائیں گی۔ گھومیں پھریں گی۔ زندگی اپنے انداز اور آزادی سے گزاریں گی۔ لیکن بہو یہی آزادی اپنے لیے چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے ساس گھر دیکھے۔ اور وہ خود ملازمت کرے اور اپنی تمام خواہشات پوری کرے جو شادی سے پہلے دبا لی گئی ہوتیں ہیں۔
کیونکہ روایتی معاشرے میں یہی ہوتا ہے۔ بیٹی کو ہر بات میں باور کروایا جاتا ہے کہ اپنے شوق شادی کے بعد پورے کرنا۔ گویا ساس اور بہو دونوں طرف آزادی کا ہی خواب ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دونوں کے خواب دیکھنے کا وقت ایک ہی ہوتا ہے۔ یعنی ساس اور بہو دونوں ایک ہی کشتی میں سوار ہو کر، الگ الگ سمت میں چپو چلانے لگتی ہیں۔ اور یہی وہ کشمکش ہے جو ساس بہو کے جھگڑے کو جنم دیتی ہے۔
ساس بہو کے جھگڑے کا حل
ہر رشتہ وقت اور توجہ مانگتا ہے، اور ساس بہو کا رشتہ تو ویسے بھی خاصا نازک ہوتا ہے۔ اس میں اگر محبت، سمجھداری اور برداشت شامل کر دی جائے تو بڑے سے بڑا مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے۔ ساس بہو کے جھگڑے کوئی نئی بات نہیں۔ ذرا سا طرزِ فکر بدلا جائے۔ ایک دوسرے کو سمجھا جائے۔ تو یہی رشتہ سب سے مضبوط اور خوبصورت بن سکتا ہے۔
مثبت گفتگو
کسی بھی نظام کو بہتر بنانے کا پہلا قدم باہمی رابطے کی بہتری ہے۔ ساس اور بہو کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے سے کھل کر بات کریں، مگر نرمی اور عزت کے ساتھ۔ اگر کوئی بات بری لگے تو دل میں رکھنے کے بجائے محبت سے اظہار کردیں۔
کھلے دل سے بات کرنے سے نہ صرف غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں بلکہ دونوں طرف سے احترام بھی بڑھتا ہے۔ ساس بہو کے جھگڑے عموماً اس وقت جنم لیتے ہیں جب بات چیت کا فقدان ہوتا ہے یا ایک دوسرے کی ضروریات اور احساسات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔
سسرال والوں سے خوشگوار تعلق کی کنجی یہی ہے کہ ایک دوسرے کے جذبات کو اہمیت دی جائے اور تحمل سے کام لیا جائے۔ اگر ساس اور بہو دونوں اپنی باتوں کو ایک دوسرے تک پہنچانے کے لئے مثبت طریقے اپنائیں تو رشتہ مضبوط ہو سکتا ہے۔ اس طر، گھر کا ماحول بھی محبت بھرا اور سکون کا حامل بن سکتا ہے۔
حدود کا تعین
ہر رشتے کا ایک ذاتی دائرہ ہوتا ہے۔ ساس کو چاہیے کہ وہ بہو کی نجی زندگی اور اس کے فیصلوں کا احترام کرے۔ جبکہ بہو کو بھی ساس کی عمر، تجربے اور مقام کا خیال رکھنا چاہیے۔ اگر دونوں اپنی حدود جان لیں تو جھگڑوں سے بچا جا سکتا ہے۔
شوہر کا متوازن کردار
شوہر کو چاہیے کہ وہ دونوں فریقین کے جذبات کو سمجھتے ہوئے عدل و انصاف سے کام لے۔ ماں اور بیوی کے بیچ توازن رکھنا بظاہر مشکل لگتا ہے۔ لیکن دانشمندی سے فیصلہ کیا جائے تو گھر کا ماحول پر سکون رہتا ہے۔ اور ساس بہو کے جھگڑے سے بچا جا سکتا ہے۔ شوہر کا کردار اس میں بہت اہم ہے۔ کیونکہ وہ دونوں طرف کی امیدوں اور ضروریات کو سمجھنے والا ہوتا ہے۔
جیسےلڑکی کو اپنے سسرال کا احترام کرنا چاہیے۔اسی طرح لڑکے کے لئے بھی اپنے سسرال یعنی بیوی کے میکے والوں کا احترام کرنا ضروری ہے۔ سسرالی رشتہ داروں کے حقوق و فرائض کو سمجھنا اور ان کی قدر کرنا ہی دونوں خاندانوں کے درمیان اچھے تعلقات کا ضامن بنتا ہے۔
ساس کا جدید سوچ اپنانا
زمانہ بدل چکا ہے۔ اگر ساس بہو کو بیٹی جیسا سمجھے اور روایتی سوچ کو تبدیل کرے۔ تو بہو بھی ساس کو ماں کا درجہ دینے میں دیر نہیں کرے گی۔ محبت، برداشت، اور وسعتِ قلبی کے ذریعے اس پھولوں جیسے نازک رشتے میں خوشبو اور محبت بھری جا سکتی ہے۔
بہو کا مثبت رویہ
بہو کو چاہیے کہ وہ ساس کی باتوں کو نظرانداز کرنے یا ان پر جھگڑا کرنے کے بجائے صبر اور حوصلے سے سنے۔ ہر بزرگ کی کچھ عادات اور اپنا مزاج ہوتا ہے۔ جسے وقت اور توجہ سے سمجھا جا سکتا ہے۔ چھوٹی باتوں پر دل چھوٹا کرنے کے بجائے بڑے دل سے تعلق کو سنوارا اور سمجھا جائے۔
دینی تعلیمات پر عمل
اسلام نے ساس، بہو، شوہر اور بیوی، سب کے حقوق و فرائض متعین کیے ہیں۔ اگر ہر فرد ان تعلیمات کو اپنائے تو نہ صرف جھگڑے ختم ہو سکتے ہیں بلکہ رشتے مضبوط ہو سکتے ہیں۔
نتیجہ
ساس بہو کا رشتہ، اگر محبت، برداشت اور سمجھداری سے نبھایا جائے، تو ایک مثالی تعلق بن سکتا ہے۔ اکثر ساس بہو کے جھگڑے صرف اس وقت جنم لیتے ہیں جب ہم ایک دوسرے کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن خود کو بہتر بنانے کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ اگر ساس اپنی بہو کو بیٹی کی طرح سمجھے اور بہو ساس کو ماں کا درجہ دے، تو یہ رشتہ خوشیوں سے بھر سکتا ہے۔
ہر رشتہ وقت، توجہ اور احساس مانگتا ہے، اور ساس بہو کا رشتہ تو ویسے بھی انمول ہوتا ہے۔ ضرورت صرف اتنی ہے کہ رشتوں کی قدر و قیمت کو پہچانا جائے۔ اس نازک رشتے کو سمجھا جائے۔ اسے عزت دی جائے، اور اسے سنوارنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔ تب ہی ساس بہو کے جھگڑے ختم ہو کر ایک محبت بھرا ماحول جنم لے سکتا ہے۔