پاکستانی معاشرہ خاندانی اقدار اور روایتی رسومات پر قائم ہے، جہاں شادی دو افراد نہیں بلکہ دو خاندانوں کا بندھن سمجھی جاتی ہے۔ اس کے باوجود طلاق کی شرح میں اضافہ ایک سنجیدہ مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ کئی جوڑے بظاہر ساتھ ہوتے ہیں، مگر حقیقت میں ان کا رشتہ ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے مذہبی اور خاندانی معاشرے میں شادی کی ناکامی کی کیا وجوہات ہیں؟ محبت یا مشورے سے بندھے رشتے چند سالوں میں بکھر کیوں جاتے ہیں؟
شادیاں ناکام کیوں ہوتی ہے؟
پاکستان میں شادی کی ناکامی صرف ایک فرد کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک سماجی، نفسیاتی اور معاشی پہلو بھی رکھتا ہے۔ ذیل میں ہم ان تمام وجوہات کا جائزہ لیں گے۔ جو پاکستان میں شادی کی ناکامی کا سبب بنتی ہیں۔ اور ساتھ ہی ممکنہ حل بھی تجویز کریں گے۔ تاکہ ازدواجی زندگی کو مستحکم اور خوشگوار بنایا جا سکے۔
غیر حقیقت پسندانہ توقعات
شادی کے بندھن میں بندھنے والے اکثر نوجوان غیر حقیقت پسندانہ توقعات کے ساتھ اس نئے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ ان کی سوچ میں ایک مثالی شوہر یا بیوی کا خاکہ پہلے سے موجود ہوتا ہے جو حقیقت سے بہت دور ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر، بہت سی لڑکیاں کسی شہزادے کی تلاش میں ہوتی ہیں۔ جو نہ صرف خوش شکل ہو بلکہ امیر، رومانوی، خیال رکھنے والا، ہر وقت محبت سے بات کرنے والا بھی ہو۔ دوسری طرف، کئی لڑکوں کی خواہش ہوتی ہے کہ بیوی خوبصورت ہو۔ ہر وقت خوش اخلاقی سے بات کرے۔ ان کی ہر بات مانے۔ اور ان کے خاندان کو بھی بغیر کسی شکایت کے قبول کرے۔
لیکن جب عملی زندگی میں مشکلات آتی ہیں۔ تو یہ توقعات ٹوٹنے لگتی ہیں۔ اس سے مایوسی، بے اطمینانی اور شکایات جنم لیتی ہیں جو رشتے کو نقصان پہنچاتی ہیں۔اور دیمک کی طرح چاٹنا شروع کر دیتی ہیں۔
حل
اس مسئلے کا حل صرف حقیقت پسندانہ سوچ ہے۔ شادی کا مطلب صرف خوشیوں کا میلہ نہیں۔ بلکہ سمجھوتوں، برداشت اور باہمی تعاون سے عبارت ایک حقیقت ہے۔ جتنا جلدی نوجوان یہ سمجھیں گے۔ اتنا ہی ان کے رشتے مضبوط ہوں گے۔
جذباتی ناپختگی
شادی جیسے اہم رشتے کے لیے صرف جسمانی نہیں، جذباتی اور ذہنی پختگی بھی ضروری ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں نوجوان اکثر جذبات کی رو میں آکر شادی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ بغیر یہ سمجھے کہ یہ زندگی بھر کا بندھن ہے۔ جذباتی ناپختگی کے باعث معمولی مسائل کو انا یا ضد کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے۔ اور بات چیت کے بجائے خاموشی یا غصہ غالب آ جاتا ہے۔ ایسے افراد اپنی بات تو منوانا چاہتے ہیں۔ مگر دوسروں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ جس سے رشتے کمزور ہو جاتے ہیں۔
حل
جذباتی پختگی سیکھنے اور تجربے سے آتی ہے۔ والدین، اساتذہ اور معاشرہ اگر نوجوانوں کو شعوری طور پر جذباتی تربیت دیں—جیسے تنقید برداشت کرنا، مؤثر بات چیت، اور صبر و تحمل—تو وہ شادی کے بعد کے مسائل بہتر طور پر سنبھال سکتے ہیں۔
خاندانی مداخلت
پاکستانی معاشرہ مشترکہ خاندانی نظام پر قائم ہے۔ جہاں شادی شدہ جوڑے اکثر والدین و بہن بھائیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ اگرچہ اس میں تعاون، مالی اشتراک اور بچوں کی دیکھ بھال جیسے فوائد ہیں۔ لیکن ساس بہو کے جھگڑے، شوہر کا توازن نہ رکھ پانا، اور بہو کو آزادی نہ دینا رشتے میں کشیدگی پیدا کرتے ہیں۔ مستقل تنقید، مداخلت اور بے اعتمادی بہو کی خوداعتمادی کو متاثر کرتی ہے اور رشتہ کمزور پڑ جاتا ہے۔
حل
شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کو باقاعدہ سیشنز دیے جائیں۔ تاکہ وہ رشتہ داریوں، قربانی، اور باہمی برداشت کا مطلب سمجھ سکیں۔ انھیں یہ سکھایا جائے کہ جوائنٹ فیملی کے تقاضے کیا ہوتے ہیں اور کس طرح توازن رکھنا ہے۔
ساس کو یہ سمجھنا ہوگا کہ بہو کو عزت، اعتماد، اور اسپیس دینا ضروری ہے۔ بہو کو بھی ساس کا مقام سمجھتے ہوئے ادب، لحاظ اور حکمت کے ساتھ تعلقات بنانے چاہئیں۔
شوہر کو صرف بیٹا نہیں بلکہ شوہر ہونے کا احساس اور توازن رکھنا چاہیے۔ اسے چاہیے کہ نہ ماں کو نظر انداز کرے۔ نہ بیوی کو تنہا محسوس ہونے دے۔ فیصلوں میں شفافیت اور دونوں سے محبت کے ساتھ پیش آنا ضروری ہے۔
گھر کے تمام افراد کو یہ سیکھنا ہوگا کہ ہر رشتے کی اپنی حدود ہوتی ہیں۔ غیر ضروری مداخلت، خاص طور پر نو بیاہتا جوڑے کے نجی معاملات میں، مسائل کو بڑھاتی ہے۔
بہو کو کچن، کپڑوں، مہمانداری سمیت کچھ ذاتی فیصلوں میں آزادی ملنی چاہیے تاکہ وہ خود کو بااختیار محسوس کرے۔ اگر کسی کو شکایت ہو، تو بجائے طعنوں، طنز یا الزامات کے، نرمی سے بات چیت کی جائے۔ خاندانی نشستیں رکھی جائیں۔ جہاں مسائل محبت اور حکمت سے حل کیے جائیں۔
سوشل میڈیا کا بے جا استعمال
میڈیا اور سوشل میڈیا نوجوانوں کی سوچ پر گہرا اثر ڈال رہے ہیں۔ وہ ٹی وی، فلموں یا انسٹاگرام پر دکھائی جانے والی مثالی، پرفیکٹ ازدواجی زندگی کی توقع رکھتے ہیں—جہاں صرف خوشیاں، مہنگے تحفے اور رومانوی لمحات ہوتے ہیں۔ ڈرامے چھوٹے جھگڑوں پر گھر چھوڑنے، شوہر کے تشدد، اور خاندانی رشتوں کو منفی انداز میں دکھاتے ہیں۔
ساس، نند یا بھابی کے رشتوں کو زہر آلود اور دشمنی سے بھرپور پیش کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ غیر ازدواجی تعلقات اور شادی شدہ جوڑوں میں بے وفائی کو نارمل اور قابلِ قبول بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جو معاشرتی اقدار کے لیے خطرناک رجحان ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنی اصل زندگی کا موازنہ ان فرضی کہانیوں سے کرتے ہیں۔ اور جب حقیقت مختلف نکلتی ہے۔ تو مایوسی، بدگمانی اور رشتوں میں دراڑیں پیدا ہو جاتی ہیں۔
حل
میڈیا کو چاہیے کہ وہ مثبت خاندانی اقدار کو فروغ دے۔ اور نوجوانوں کو سوشل میڈیا کی "پرفیکٹ لائف” کے دھوکے سے بچائے۔ اسکولوں، کالجوں اور آن لائن پلیٹ فارمز پر میڈیا کے اثرات پر تربیتی سیشنز کیے جائیں۔
ایسے یوٹیوب چینلز اور انسٹاگرام پیجز کو فروغ دیا جائے جو خاندانی قدر، حقیقت پسند رشتے اور برداشت کو اجاگر کرتے ہوں۔ ڈرامہ رائٹرز اور پروڈیوسرز کو چاہیے کہ وہ رشتوں کو منفی انداز میں پیش کر کے معاشرتی تلخی نہ بڑھائیں۔
نوجوان جوڑوں کو آن لائن اور حقیقی وقت میں توازن برقرار رکھنے کی تربیت دی جائے۔ تاکہ سوشل میڈیا سے دور ہو کر باہمی بات چیت کو فروغ دیا جا سکے۔
شادی سے پہلے مناسب رہنمائی کا فقدان
بدقسمتی سے پاکستان میں شادی سے پہلے تربیت یا رہنمائی کا کوئی منظم نظام موجود نہیں۔ نہ لڑکے کو سکھایا جاتا ہے کہ بیوی کے جذبات کا احترام کیسے کرنا ہے۔ نہ لڑکی کو یہ بتایا جاتا ہے کہ شوہر کی ضروریات کیا ہیں۔ ہر فرد اپنے ذاتی مشاہدے یا سماجی تجربات کی بنیاد پر ازدواجی زندگی میں داخل ہوتا ہے۔ جب عملی زندگی میں پیچیدگیاں سامنے آتی ہیں۔ تو دونوں گھبرا جاتے ہیں۔ اگر شادی سے قبل جوڑوں کو تربیت دی جائے۔ بالخصوص لڑکے کو سمجھایا اور بتایا جائے کہ ماں اور بیوی کے رشتے میں توازن کیسے برقرر رکھنا ہے۔ تو ممکن ہے کہ شادی کی ناکامی کی شرح میں واضح کمی آئے۔
حل
قرآن و سنت کی روشنی میں شوہر اور بیوی کے حقوق و فرائض کو سادہ، قابلِ فہم انداز میں نوجوانوں تک پہنچایا جائے۔ شادی کو صرف رسم نہ بنایا جائے۔ بلکہ زندگی کی ذمہ داری کے طور پر سکھایا جائے۔
مساجد، تعلیمی اداروں، اور کمیونٹی سینٹرز میں شادی سے قبل اسلامی، نفسیاتی اور سماجی تربیت دی جائے۔ نکاح کے خواہشمند جوڑوں کے لیے ایک مختصر تربیتی کورس یا ورکشاپ کو لازم قرار دیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ کئی اسلامی ممالک میں ہوتا ہے۔
والدین صرف مالی یا خاندانی حیثیت نہ دیکھیں۔ بلکہ بچوں کو ازدواجی زندگی کی حقیقت پسندی، صبر، تعاون، اور حدود سے بھی روشناس کروائیں۔
والدین کا غیر ضروری دباؤ اور زبردستی کی شادیاں
کئی بار والدین اپنی مرضی سے بیٹے یا بیٹی کی شادی طے کر دیتے ہیں۔ زبردستی کی شادیوں میں جذباتی وابستگی کی کمی ہوتی ہے۔ جب دو افراد کی پسند، سوچ اور مزاج نہیں ملتے تو رشتہ ٹوٹنے لگتا ہے۔ والدین کی مرضی سے کی جانے والی شادی میں اگر لڑکا یا لڑکی کی رضا مندی، جذباتی آمادگی یا شادی سے پہلے ذہنی ہم آہنگی، شامل نہ ہو تو وہ رشتہ محض ایک ذمہ داری بن جاتا ہے۔ محبت یا شراکت نہیں۔
حل
شرعی اور اخلاقی دونوں لحاظ سے نکاح تبھی درست ہے جب دونوں فریق راضی ہوں۔ صرف والدین کی خوشی کے لیے رشتہ طے کر دینا، اکثر بعد میں پچھتاوے کا سبب بنتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ شادی کا فیصلہ کرتے وقت بیٹے یا بیٹی سے کھل کر بات کریں۔ ان کی پسند، ناپسند اور مستقبل کے تصورات کو سنجیدگی سے سنیں اور اس کو نظر انداز نہ کریں۔
مزید یہ کہ شادی سے پہلے ممکنہ جوڑے کے درمیان بات چیت یا تعارفی ملاقاتیں (اسلامی حدود میں رہتے ہوئے) کروا کر یہ اندازہ لگانا مفید ہوتا ہے۔ کہ آیا دونوں کی سوچ، عادات اور ترجیحات ملتی ہیں یا نہیں۔ والدین کو بھی سمجھنا چاہیے کہ شادی صرف عمر کے ایک مرحلے پر کر دینا کافی نہیں۔ بلکہ یہ فیصلہ لڑکے اور لڑکی کی پوری زندگی پر اثرانداز ہوتا ہے۔
مالی مسائل اور بے روزگاری
معاشی عدم استحکام کسی بھی رشتے کو کمزور کر سکتا ہے۔ مالی مسائل اور بے روزگاری بہت سے ازدواجی تنازعات کی جڑ ہیں۔ خاص طور پر پاکستان جیسے ملک میں۔ جہاں معاشی عدم استحکام عام ہے۔ شادی جیسے نازک رشتے میں جب معاشی بوجھ بڑھتا ہے۔ تو جذبات، برداشت اور محبت بھی آزمایش میں آ جاتے ہیں۔
جب شوہر بیوی کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ یا بیوی بیوی بچت کی اہمیت کو نہیں سمجھتی۔ اور مشکل حالات میں شوہر کا ہاتھ بٹانے سے گریز کرتی ہے۔ تو رشتے میں بگاڑ آتا ہے۔ اکثر اوقات مالی دباؤ کے باعث مرد چڑچڑا ہو جاتا ہے۔ بیوی کو الزام دیتا ہے یا اسے دباؤ میں رکھتا ہے۔ یہی مالی دباؤ بالآخر شادی کی ناکامی میں بدل جاتا ہے۔
حل
شادی سے پہلے فریقین کو اپنی آمدنی، اخراجات اور توقعات پر کھل کر بات کرنی چاہیے۔ تاکہ بعد میں غلط فہمیاں نہ ہوں۔ بیوی اگر ممکن ہو تو جز وقتی کام یا آن لائن فری لانسنگ سے مالی اور جذباتی تعاون کر سکتی ہے۔ فضول خرچی سے بچیں اور سادگی اپنائیں۔
مالی دباؤ میں الزام تراشی کی بجائے تعاون اور تحمل کا مظاہرہ کریں۔ مرد و عورت دونوں کو ہنر سیکھ کر آمدنی کے ذرائع بڑھانے چاہئیں۔ اور پاکستان میں دستیاب تربیتی کورسز اور سپورٹ پروگرامز سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
نتیجہ
شادی ایک خوبصورت بندھن ہے۔ مگر اس کی خوبصورتی اس وقت تک قائم رہ سکتی ہے۔ جب تک دونوں فریق باہمی احترام، محبت، صبر اور برداشت کو اپنا شعار بنائیں۔ موجودہ دور میں شادی کی ناکامی کی بڑھتی ہوئی شرح اس بات کا تقاضا کرتی ہے۔ کہ ہم اپنی روایات، سوچ اور رویوں پر نظرثانی کریں۔
اگر ہمارا معاشرہ واقعی خاندان کو اپنی بنیادی اکائی سمجھتا ہے۔ تو اُسے اس بنیاد کو بچانے کے لیے شعور، تعلیم، اور مثبت خاندانی روایات کو فروغ دینا ہوگا۔ ورنہ شادی کی ناکامی نہ صرف دو افراد کو، بلکہ دو خاندانوں اور بالآخر پورے معاشرے کو متاثر کرے گی۔