کہتے ہیں داماد سسرال کا راجہ ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ وہ شخصیت ہے جسے سسرال میں ہمیشہ وی آئی پی پروٹوکول ملتا ہے۔ چاہے وہ ایک دن کے لیے جائے یا ایک ماہ کے لئے۔ لیکن جیسے ہی کوئی شخص "گھر داماد” بننے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ لوگوں کے رویوں میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ اور اس کی وی آئی پی حیثیت ایک "ہمیشہ دستیاب ملازم” میں بدلتی محسوس ہوتی ہے۔
پاکستانی معاشرے میں گھر داماد بننے کو عموماً تنقیدی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ افراد جو شادی کے بعد اپنی بیوی کے گھر منتقل ہوتے ہیں یا اپنی سسرال کے زیر سایہ زندگی گزارنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ انہیں مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
گھر داماد بننے کا فیصلہ بظاہر آسان نظر آتا ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ فیصلہ ایسے سماجی اور نفسیاتی دباؤ کے دروازے کھول دیتا ہے۔ جو داماد اور اس کے خاندان دونوں کے لیے پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔
اس بلاگ میں ہم گھر داماد کی پانچ اہم مشکلات اور ان سے نمٹنے کے عملی اور مؤثر طریقے پیش کریں گے۔
۱- سماجی دباؤ اور تنقید
مسئلہ
ہمارے معاشرے میں عام طور پر مرد سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ خود کفیل ہو۔ اور اپنے گھر کا انتظام خود کرے۔ گھر داماد بننے کی صورت میں اسے اکثر "سست” یا "غیر ذمہ دار” جیسے القابات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ سماجی رویہ اس کے لئے ذہنی دباؤ اور خود اعتمادی میں کمی کا باعث بن سکتا ہے۔
حل
اعتماد بحال رکھیں
اپنی صورت حال کو مثبت انداز میں دیکھیں اور دوسروں کی رائے کو زیادہ اہمیت نہ دیں۔ ۔ اپنی شخصیت کو مضبوط بنانے کے لیے خود پر اعتماد کریں۔
مثبت رویہ اپنائیں
تنقید کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیں اور اپنے مقاصد پر توجہ مرکوز رکھیں۔
خاندان کے تعاون کو یقینی بنائیں
اپنے سسرالیوں اور والدین سے اس فیصلے کی حمایت حاصل کریں تاکہ سماجی دباؤ کم ہو۔ قریبی دوستوں اور بیوی کے ساتھ اپنے جذبات بانٹیں تاکہ آپ کو حوصلہ ملے۔
۲- مالی خودمختاری کا فقدان
مسئلہ
جب کوئی گھر داماد بننے کا فیصلہ کرتا ہے تو لوگوں کے اذہان میں عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ اب یہ سسرال کے ٹکڑوں پر پلے گا۔ اور بعض اقوات یہ درست بھی ہوتا ہے۔ کچھ لوگ جان بوجھ کر گھر داماد بننا چاہتے ہیں۔ تا کہ مالی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو سکے۔ ایسی صورت میں گھر داماد اکثر مالی طور پر اپنے سسرالیوں پر انحصار کرنے لگتا ہے۔ یہ انحصار مرد کی خود اعتمادی کو متاثر کر سکتا ہے اور گھریلو اور ازدواجی تعلقات میں مسائل پیدا کر سکتا ہے۔
حل
خودمختاری برقرار رکھیں
اپنی آمدنی کے ذرائع کو مضبوط کریں اور سسرالیوں پر مکمل انحصار سے گریز کریں۔ اپنے کیریئر اور ذاتی ترقی پر توجہ دیں تاکہ سسرال پر انحصار کم ہو۔
مالی منصوبہ بندی کریں
اپنی مالی حالت کو بہتر بنانے کے لیے حکمت عملی سے کام کریں۔ مالی منصوبہ بنائیں اور اپنے اخراجات کو خود سنبھالنے کی کوشش کریں۔
مشترکہ معاملات
مالی معاملات میں اپنی بیوی کے ساتھ کھلے دل سے بات کریں تاکہ دونوں ایک دوسرے کا ساتھ دے سکیں۔
۳- ذاتی اور ازدواجی زندگی میں خلل
مسئلہ
گھر داماد ہونے کی صورت میں اپنی ذاتی زندگی کے لیے وقت نکالنا مشکل ہو سکتا ہے۔ سسرال والے آپ کے ہر فیصلے میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اور ہر معاملے میں مداخلت کرتے ہیں۔ جو کہ داماد کی ذہنی صحت اور سکون پر اثر ڈال سکتا ہے۔ وہ اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کر سکتا۔
حل
واضح حدود مقرر کریں
شادی کے شروع میں ہی سسرالیوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے اپنی ذاتی حدود کا تعین کریں۔ اپنی ذاتی زندگی کے لیے وقت مختص کریں اور اس پر عمل کریں۔ اگر ممکن ہو تو کچھ وقت سسرال سے الگ گزاریں۔ جیسے کہ چھٹیوں پر جانا یا کسی شوق میں دلچسپی لینا۔ اپنے ذہنی سکون کے لیے صحت مند سرگرمیاں اپنائیں، جیسے کہ ورزش یا مراقبہ۔
جذبات کا اظہار کریں
اور ایسا اسی صورت میں ممکن ہے جب آپ خود مختار اور مالی معاملات میں خود کفیل ہیں۔ اپنے خیالات اور ضروریات کو بغیر کسی جھجک کے بیان کریں۔ اپنے دوستوں اور خاندان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط رکھیں تاکہ آپ کو جذباتی حمایت ملے۔
احترام کا مظاہرہ کریں
کسی بھی صورت عزت و احترام کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ عزت کریں اور کروائِں۔ مثبت رہیں۔ تنقید برداشت کرنا سیکھیں۔ پیش آمدہ مسائل کو احترام کے ساتھ حل کریں۔ تاکہ تعلقات خوشگوار رہیں۔
۴۔ شریک حیات کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی
مسئلہ
سسرالی گھر میں گھر داماد کی حیثیت سے رہنے پر شوہر اور بیوی کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر معاملات کی نوعیت اور حدود کو واضح نہ کیا جائے۔ جب شوہر اپنے سسرال میں رہ رہا ہو تو اسے اکثر غیر ضروری دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بیوی کو بھی اس صورتحال میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنے خاندان کے ساتھ رہ رہی ہو تو اس پر یہ دباؤ ہو سکتا ہے کہ وہ شوہر اور اپنے والدین کے درمیان توازن قائم کرے۔ اسے معاشرتی دباؤ یا تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جیسے کہ لوگ اسے "شوہر کے اخراجات اٹھانے والی کہیں۔ تو یہ اس کے اعتماد کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، شوہر اور بیوی کے نجی معاملات میں سسرال کی مداخلت ازدواجی تعلقات کو مزید خراب کر سکتی ہے۔ جس سے جذباتی فاصلہ پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
حل
مثبت گفتگو
شوہر اور بیوی کے درمیان کھلے اور مثبت انداز میں گفتگو ہونی چاہیے۔ تاکہ دونوں ایک دوسرے کے جذبات اور مسائل کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ ایک دوسرے کی حمایت اور حوصلہ افزائی تعلقات کو مضبوط بنا سکتی ہے۔
معاشرتی دباؤ سے نمٹنے کی حکمت عملی
بیوی اور شوہر دونوں کو اپنی عزتِ نفس اور اعتماد کو بحال رکھنے کے لیے مل کر ایسے طریقے اپنانے چاہئیں۔ جن سے لوگوں کی باتوں کا اثر کم کیا جا سکے۔ ایک دوسرے کا ساتھ دینا اور مضبوط رویہ اپنانا ضروری ہے۔
مشترکہ فیصلے
شوہر اور بیوی کو اپنے تعلقات کے ہر پہلو پر مل بیٹھ کر فیصلہ کرنا چاہیے، تاکہ دونوں کو یہ احساس ہو کہ ان کی رائے کی قدر کی جا رہی ہے۔
۵۔ پیشہ ورانہ زندگی پر اثرات
مسئلہ
بظاہر یہ سمجھا جات اہے کہ گھر داماد بننے والا شخص ذمہ داریوں کے بوجھ سے آزاد ہوتا ہے۔ جبکہ حقیق اس کے برعکس ہے۔ اس پر سسرال اور اپنے گھر والوں دونوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یعنی دوگنا بوجھ ہوتا ہے۔ اور چونکہ گھر داماد کو اکثر وہ عزت اور مقام نہیں ملتا۔ لہذا اس پر کام کا بوجھ بھی زیادہ ہوتا ہے۔اور اگر اسےسسرال کے کاموں میں زیادہ وقت دینا پڑے۔ یا وہ سسرال کے مالی معاملات میں شامل ہو جائے۔ تو یہ اس کی پیشہ ورانہ زندگی پر بھی منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
حل
وقت کا مؤثر انتظام
شوہر کو اپنے وقت کی واضح منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ تاکہ وہ سسرال کے کاموں اور اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے درمیان توازن برقرار رکھ سکے۔
واضح حدود کا تعین کریں
سسرال اور پیشہ ورانہ زندگی کے درمیان ایک واضح فرق رکھیں۔ یہ طے کریں کہ سسرال کے کاموں میں کتنی حد تک شامل ہونا ہے تاکہ پیشہ ورانہ ذمہ داریاں متاثر نہ ہوں
اپنے کیریئر کو ترجیح دیں
یہ بات واضح کریں کہ آپ کے لیے پیشہ ورانہ ترقی اور کامیابی اہم ہے، اور آپ اس پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے
ذہنی صحت کا خیال رکھیں
تناؤ سے بچنے کے لیے ورزش، مراقبہ، یا کسی مشغلے میں وقت لگائیں تاکہ پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی میں توازن برقرار رکھا جا سکے۔
گھر داماد کے کردار کو بہتر سمجھنے کی ضرورت
گھر داماد بننے کے فیصلے کو اگرچہ آسان سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس کے پیچھے کئی سماجی، مالی، اور جذباتی چیلنجز موجود ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ گھر داماد بننا ایک مشکل فیصلہ ہو سکتا ہے۔ مگر یہ بھی ضروری ہے کہ اس حیثیت کو منفی نظر سے نہ دیکھا جائے۔ معاشرے کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہر انسان کی زندگی کے فیصلے ذاتی حالات اور ضروریات پر مبنی ہوتے ہیں۔
ایک گھر داماد کو ان مشکلات سے نمٹنے کے لیے خود اعتمادی، مثبت رویہ، اور مؤثر گفتگو کی ضرورت ہوتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ گھر داماد کو اپنی شخصیت، رشتے، اور مالی حالت پر توجہ دیتے ہوئے خود کو اور اپنے شریک حیات کو ایک خوشگوار زندگی فراہم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اپنی عزت نفس کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ گھر داماد ہونے کا مطلب کمزوری نہیں بلکہ زندگی کے کسی نئے پہلو کو اپنانا ہوتا ہے۔
اختتام
گھر داماد بننے کے فیصلے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ بلکہ بعض اوقات یہ لڑکی اور اس کے خاندان کے حق میں بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر ان صورتوں میں جب لڑکی کے والدین عمر رسیدہ ہوں اور ان کے پاس کوئی دوسرا سہارا نہ ہو۔ اگر لڑکی اپنے والدین کے قریب رہنا چاہتی ہو تاکہ ان کی خدمت کر سکے۔ اور ان کا سہارا بن سکے۔ تو گھر داماد کا رشتہ ایک عملی حل بن سکتا ہے۔
یہ فیصلہ خاندانوں کے مابین باہمی رضامندی، اعتماد اور سمجھ بوجھ پر مبنی ہونا چاہیے۔ اہم بات یہ ہے کہ لڑکی اور لڑکا دونوں اپنی مرضی اور خوشی سے اس فیصلے پر متفق ہوں۔ اور ان کی عزتِ نفس کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ اس میں لڑکے کے خاندان کی حمایت اور رضامندی بھی ضروری ہے۔ تاکہ رشتے کی بنیاد مضبوط ہو اور آئندہ زندگی خوشگوار گزرے۔
اگر لڑکی کے والدین مالی طور پر مضبوط ہوں اور لڑکے کے لیے کوئی مناسب روزگار یا کاروبار کا موقع فراہم کر سکتے ہوں۔ تو یہ بھی ایک اضافی فائدہ ہو سکتا ہے۔ اس طرح گھر داماد ہونے کا فیصلہ نہ صرف لڑکی کے والدین کی خدمت کے لیے بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔ بلکہ لڑکے اور اس کے خاندان کے لیے ایک نئی راہ بھی ہموار کر سکتا ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ایسے فیصلوں کو منفی نظر سے دیکھنے کی بجائے ان کی اہمیت کو سمجھیں۔ اور خاندانوں کو خوشی اور آسانی سے اپنی زندگی گزارنے کا موقع دیں۔