حق مَہر یا مہر وہ مقررہ رقم ہے جو ایک مسلمان مرد نکاح کے عوض اپنی منکوحہ کو ادا کرتا ہے۔ یا ادا کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ اگرچہ دنیا اتنی ترقی کر چکی ہے۔ شرح خواندگی میں اضافہ ہوا ہے لیکن حق مہر کو لے کر بعض افراد کی سوچ اب بھی وہی دقیانوسی ہے۔ حق مہر کی اقسام سے قطع نظر مرد اسے ایک بوجھ سمجھتا ہے۔ اور بعض اوقات لڑکی کے والدین کی جانب سے ہی حق مہر معاف کرنے کی تاکید کی جاتی ہے۔ 

بعض اوقات یہ بحث بھی چھڑی کہ جب مرد اور عورت شادی اور مباشرت سے یکساں طور پر بہرہ مند ہوتے ہیں۔ اور اس شادی سے طرفین کا باہمی فائدہ ہے۔ تو ہھر مرد کم یا زیادہ مال عورت کو حق مہر کے طور پر کیوں دے ۔ کیا یہ ایک طرح سے خرید و فروخت کی صورت نہیں بن جاتی؟  

اس کی وضاحت یوں کی جاتی ہے کہ اگرچہ عورت اور مرد یکساں طور پر ازدواجی زندگی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن علیحدگی  یا طلاق کی صورت میں عورت کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔دوسرا یہ کہ مخصوص جسمانی استعداد اور طاقت ہونے کی وجہ سے مرد عموماً معاشرے میں زیادہ نفوذ اور تسلط کا حامل ہوتا ہے۔ جبکہ عورت کمزور اور دوسروں پر انحصار کرنے والی ہوتی ہے۔ تو حق مہر اس صورت میں بھی اس کے لئے ضروری ہے۔ علاوہ ازیں حق مہر کسی طور تجارت کا پہلو نہیں رکھتا۔ اور اس کی بہترین دلیل نکاح کے صیغہ ہیں۔ جن میں قانونی طور پر مرد اور عورت ہی اس عہد و پیمان کے دو بنیادی رکن شمار ہوتے ہیں۔ 

زمانہ جاہلیت میں چونکہ لوگ خواتین کی عزت و اہمیت یا قدر و قیمت کے قائل نہیں تھے۔ اس لئے اکثر اوقات حق مہر جو کہ ایک منکوحہ کا حق ہے۔ اس کی بجائے اس کے ولی کو دیا جاتا تھا۔ یا بعض اوقات حق مہر میں عجب شرائط رکھ دی جاتی تھیں۔ اگر بھائی اپنی بہن کی شادی کسی سے کرتا تو اس شخص کو بھی بدلے میں لڑکی کے بھائی سے اپنی بہن کی شادی کرنا پڑتی۔ یعنی وٹہ سٹہ کی شادی ہوتی۔ اور دونوں خواتین کا حق مہر یہی وٹہ سٹہ قرار پاتا۔ 

ہمارے ہاں ایک مخصوص ذہنی استعداد استعداد رکھنے والا طبقہ حق مہر کو مردانگی کے خلاف سمجھتا ہے۔ اسے باور کروایا جاتا ہے کہ حق مہر کی ادائیگی اس کے لئے کسی گناہ یا گالی سے کم نہیں۔ یا یہ غلط فہمی کہ حق مہر کی ادائیگی طلاق کی صورت میں ہی ہو گی۔ خلع لینے پر تو اتنا تکلف بھی نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ زیادہ تر نکاح نامے سے وہ شق ہی کاٹ دی جاتی ہے۔ جس میں عورت خلع لینے کی صورت میں حق مہر کی مستحق قرار پائے گی۔ 

بعض جگہ تو یہ مناظر دیکھنے کو بھی ملتے ہیں کہ بیوی کی وفات کی صورت میں اس کا جنازہ اٹھنے سے پہلے شوہر تمام رشتہ داروں کی موجودگی میں میت سے حق مہر معاف کرواتا ہے۔ کئی جگہ یہ دیکھا گیا کہ کسی کے شوہر کا انتقال ہو گیا ۔ تو جنازہ اٹھانے سے پہلے اس کی بیوہ کو حکم دیا گیا کہ اپنے خاوند کو اپنا حق مہر معاف کرو۔ تا کہ وہ یہ بوجھ لے کر دنیا سے رخصت نہ ہو۔ 

مرد شادی کرے گا، گھر بنائے گا۔ بیوی بچوں کی تمام ضروریات و خواہشات پوری کرے گا۔ بیوی کو اچھا پہنائے اوڑھائے گا۔ حسب توفیق تحائف و زیورات بھی لا کر دے گا۔ لیکن حق مہر کی ادائیگی اپنی یا بیوی کی موت تک موخر رکھے گا۔ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ اگر کسی کی ازدواجی زندگی تلخی اور ناچاقی کا شکار ہو جائے۔ تو بعض شاطر سسرال والے جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کر دیتے ہیں کہ عورت عاجز آ کر خلع لینے پر مجبور ہو جائے۔ تا کہ اس کا شوہر حق مہر کی ادائیگی سے بچ جائے۔ 

حق مہر کی اقسام 

شرع میں حق مہر کی اقسام درج ذیل ہیں۔ 

۱- مہر مسمّی 

وہ مہر جس کی مقدار زوجین کے درمیان متعین و مقرر ہو۔ اس کی حسب ذیل دو اقسام ہیں۔ 

   مہر معجل(i  

معجل سے مراد وہ مہر ہوتا ہے۔ جس کا ادا کرنا نکاح کے فوری بعد واجب ہوجاتا ہے۔ اور بیوی کو نکاح کے فوری بعد اس کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ 

 مہر مؤجل(ii 

اس سے مراد وہ مہر ہے جس کی ادائیگی نکاح کے بعد فوری واجب نہ ہو۔ بلکہ اس کے لیے کوئی خاص وقت مقرر کیا گیا ہو۔ یا اس کی ادائیگی کو مستقبل میں بیوی کے مطالبے پر موقوف رکھا گیا ہو۔  اگر حق مہر کی کوئی خاص میعاد مقرر کی گئی ہے۔ تو بیوی کو اس مقررہ وقت سے پہلے مہر کے مطالبے کا حق نہیں۔ اور اگر مہر کو بیوی کے مطالبہ پر موقوف رکھا گیا ہو تو بیوی جب بھی مطالبہ کرے۔ اس وقت شوہر کو حق مہر ادا کرنا ہو گا۔ تیسری صورت میں، اگر مہر کے لیے نہ تو کوئی خاص وقت مقرر کیا گیا ہو۔ نہ ہی اسے بیوی کے مطالبہ پر موقوف کیا گیا ہو۔  تو اس صورت میں اس کی ادائیگی طلاق یا موت کے وقت لازم ہوگی۔ 

۳- مہر مطلق 

یہ وہ مہر ہے جو نہ معجل ہو نہ موجل۔ یعنی زوجین کی باہمی رضامندی سے شوہر جب چاہے اس کی ادائیگی کر سکتا ہے۔ اس قسم کے مہر کی وصولی کے لیے بیوی شرعی طور پر مجاز نہیں کہ وہ اپنے نفس کو شوہر سے روکے رکھے۔ 

۴- مہر منجم 

اس سے مراد ایسا حق مہر ہے۔ جس کے متعلق شوہر اور بیوی میں یہ طے پایا جائے کہ اس کی ادائیگی یک مشت نہیں بلکہ قسط وار ہوگی۔ 

۵- مہر مثل 

اس سے مراد وہ مہر ہے جو عورت کی ددھیالی خواتین مثلاً بہن، پھوپھی، چچا یا تایا زاد بہنوں کو دیا گیا ہو۔ مہر مثل کے تعین کے لیے نہ صرف عورت کی عمر، حسن و جمال، علم و عقل، دین داری اور کردار کا لحاظ کیا جائے گا۔ بلکہ اس کے ہونے والے شوہر کے حسب نسب اور مال کو بھی دیکھا جائے گا۔ علاوہ ازیں مندرجہ بالا چیزوں کے اختلاف سے مہر میں بھی اختلاف ہوگا۔ 

مزید یہ کہ مہر مثل اس صورت میں واجب ہوتا ہے۔ جب نکاح میں مہر کا قطعاً کوئی ذکر نہ کیا جائے۔ یا اگر ذکر کیا گیا ہو تو وہ مبہم یا  نامعلوم ہو۔ یا مہر میں ایسی چیز رکھ دی جائے جو شرعاً حلال نہ ہو۔ مزید براں نکاح فاسد میں اگر مباشرت ہو جائے تو مہر مثل کا حکم ہے۔ خواہ مہر پہلے مقرر کیا گیا ہو یا نہیں۔ اگر مہر مقرر کیا گیا ہو تو لازم ہے کہ مہر مثل کی مقدار اس طے شدہ مہر سے زیادہ نہ ہو۔ ورنہ مہر طے شدہ ہی واجب الادا ہوگا۔ 

مہر کے صحیح ہونے کی شرائط کیا ہیں؟ 

حق مہر کی اقسام کے علاوہ مہر کے صحیح ہونے کی شرائط درج ذیل ہیں۔ 

۱- مہر مالِ متقوم ہو۔ یعنی جس کی قیمت لگائی جا سکے۔ ایسی معمولی شے جس کی کوئی قیمت نہ ہو جیسے گندم کا ایک دانہ وغیرہ مہر نہیں ہو سکتا۔ 

۲- حق مہر پاک اور حلال شے ہو۔ جسے استعمال میں لانا درست ہو۔ لہٰذا مہر میں شراب، سور، خون یا مردار دینا جائز نہیں۔ کیونکہ شریعت اسلامیہ کی نگاہ میں ان اشیاء کی کوئی مالیت نہیں۔ 

۳- مہر مغصوب نہ ہو۔ یعنی غصب کردہ مال نہ ہو۔ اگر غصب شدہ مال کو مہر قرار دیا تو یہ درست نہ ہوگا۔ تاہم اس سے نکاح پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ عقد نکاح درست ہوگا۔ غصب شدہ مال کی صورت میں حقیقی مالک کی اجازت سے عورت اس کی حق دار ٹھہرے گی۔ ورنہ متعین مال کی قیمت کے برابر بیوی کو مال مہر ادا کرنا ہو گا۔ 

۴- صحتِ مہر کے لیے ضروری ہے۔ یعنی یہ واضح ہو کہ کتنا حق مہر مقررکیا گیا ہے۔ 

حق مہر کتنا ہونا چاہئیے؟ 

کم از کم مہر دس درہم ہے۔ اور دس درہم کو موجودہ زمانے کے اعتبارسے دیکھا جائے گا۔ یعنی دس درہم میں سونے یا چاندی کی کتنی مقدار آئے گی۔ چونکہ قیمت میں اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے۔ لہذا مہر کی ادائیگی کے وقت بازار سے اس کی قیمت معلوم کرلی جائے۔ یہاں یہ واضح کر دیں کے دس درہم سے مراد موجودہ کاغذی کرنسی نہیں۔ بلکہ وہ جنس یا مالیت  ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں متعین فرمائی تھی۔ 

مہرکی زیادہ سے زیادہ مقدار شریعت میں مقرر نہیں ہے۔ زوجین یا دونوں خاندان باہمی رضامندی سے جو مقدار طے کرلیں وہی مہر ہوگا۔ البتہ مہر میں اتنی رقم مقرر کرلینا جو شوہر کے لیے ادا کرنا مشکل ہو۔ یا خاندان میں اپنی ناک اونچی کرنے اور محض دکھاوے کے لیے زیادہ رقم مقرر کرلینا بھی مناسب نہیں۔ 

اکثر گھرانے مہر فاطمی کا تقاضا کرتے ہیں۔ "مہرِ فاطمی” اس مہر کو  کہا جاتا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے  حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور دیگر صاحب زادیوں اور اکثر ازواجِ مطہرات کا مقرر فرمایا۔ جس کی مقدار پانچ سو درہم چاندی ہے۔ 

حق مہر کے طور رکھی جانے والی منفرد اور انوکھی شرائط 

مہر کے لئے رقم یا زیور کی ادائیگی تو عام ہے۔ لیکن انفرادیت کا شکار کچھ لوگ حق مہر میں منفرد شرائط رکھتے ہیں۔ یوں تو حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا حق مہر ان کا آزاد کرنا مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن جدید زمانے میں حق مہر کی اقسام سے قطع نظر، مہر کے طور پر نت نئی فرمائشیں کرنا عام ہو چکا ہے۔ خیبر پختونخوا کی ایک لڑکی نے حق مہر میں اپنے شوہر سے ایک لاکھ پاکستانی روپے کی کتابیں مانگیں۔ 

موریتانیہ کے ایک شہری نے اپنی بیٹی  کے نکاح کے عوض نقد رقم،  سونا چاندی، یا زمین جائیداد نہیں بلکہ دولہا سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک لاکھ بار درود شریف بھیجنے کا تقاضا کیا۔ دولہا نے یہ انوکھا حق مہر ادا کیا۔ دلہا کے والد کا اصرار پر اس انوکھے حق مہرکو نکاح نامے میں درج بھی کیا گیا۔ 

ایک سعودی شہری نے اپنی بیٹی کا رشتہ مانگنے نوجوان کے سامنے حق مہر کے طور پر قرآن کریم حفظ کرنے کی شرط رکھی۔ اس نوجوان نے  قرآن کریم مکمل طور پر حفظ کیا۔ اور لڑکی سے شادی کی۔ ایک اور سعودی شہری نے اپنی بیٹی کا حق مہر یہ طے کیا کہ دولہا کی جانب سے ولیمے کا بہترین عشائیہ دیا جائے۔ اسی طرح ایک والد نے بیٹی کے حق مہر کے لئے سورہ المُلک حفظ کرنے کی شرط رکھی۔ اور اسے لڑکی کا کل مہر قرار دیا۔ نکاح خواں نے اس شرط کو باقاعدہ مہر کے طور پر نکاح نامے میں درج کیا۔ 

ایک اور انوکھے واقعے میں سعودی لڑکی نے اپنے ہونے والے دولہا کے سامنے شرط رکھی کہ وہ شادی کے لئے تین سو گواہ پیش کرے۔ یہی اس کا حق مہر ہو گا۔ اور یہ کہ تمام گواہ وہ اپنے طور کسی کی مدد کے بغیر جمع کرے گا۔ تین ماہ کی کوشش کے بعد لڑکا صرف سو لوگوں کو بطور گواہ جمع کر سکا۔  لڑکی کے مطابق ایسی شرط رکھنے کا مقصد صرف یہ جانچنا تھا کہ لڑکا اس کو شریک حیات بنانے کے لیے کتنا سنجیدہ ہے۔ 

عورت کا حق مہر مقرر کرنے کی وجہ دراصل یہ ہے کہ عورت کی بیشتر ضروریات تو شوہر پوری کر دیتا ہے۔  لیکن کچھ ضروریات ایسی ہوتی ہیں جن کو عورت اپنے خاوند پر ظاہر نہیں کر سکتی۔ پس وہ اپنے مہر سے ان ضروریات کو پورا کر سکتی ہے۔  اس لئے اسلام نے شوہرکی حیثیت کے مطابق مہر کے ذریعہ عورت کا حق مقرر کیا ہے۔