خاندانی نظام کو مضبوط اور مستحکم بنانے میں مرد اور عورت دونوں کا کردار ہوتا ہے۔ لیکن مرد کا کردار بنسبت عورت کے زیادہ ہے۔ مرد بحیثیت ولی اور کفیل اپنی ذمہ داریاں نبھاتا ہے۔ توعورت گھریلو ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ بچوں کی اچھی پرورش کرتی ہے۔ اور خاندان کے استحکام اور انتظام میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔ مرد کی ذمہ داری اگرچہ فکرِ معاش ہے۔ لیکن ایک خاندان کی بنیاد اور مضبوطی میں اس کا بھی حصہ شامل ہوتا ہے۔
دیکھا جائے تو مرد و زن کی تفریق سے قطع نظر معاشرے میں رہنے اور بسنے والا ہر فرد اپنے کردار کے ساتھ معاشرے کا ایک اہم ستون ہے۔ خواہ وہ باپ ہو، بھائی، شوہر یا پھر بیٹا۔ لڑکی کی طرح لڑکا بھی ایک متوازن شخصیت بننے کے لیے تربیت کا محتاج ہے۔
اگر لڑکی بحیثیت، ماں، بیوی اور بیٹی اہم کردار کی حامل ہے۔ تو مرد کا کردار بھی بحیثیت باپ، بھائی، شوہر اور بیٹا خاندان کی مضبوطی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ دونوں مل کر ایک صحت مند خاندان اور معاشرے کی بنیاد رکھتے ہیں۔ بچوں کے لیے پہلی درسگاہ ماں کی گود کو قرار دیا گیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ باپ بھی اس تربیت گاہ کا ایک اہم ستون ہے۔
بچے کی تربیت کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ گھر کا ماحول سازگار ہو۔ جس کی ذمہ داری مرد اور عورت دونوں پر ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
مرد درخت ہے
عورت بیل
بیل کی بقا کے لئے درخت کا وجود
اتنا ہی ناگزیر ہے
جتنی روشنی اور آب
جو بیل
درخت کے سہارے سے محروم رہتی ہے
زمین پر پھیل کر چرندوں کی خوراک بن جاتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں ماں کے مقام و مرتبہ پر تو بات کی جاتی ہے۔ اس کا احساس اجاگر کیا جاتا ہے۔ لیکن باپ کے مقام کو کبھی کبھار نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
مرد کا کردار بحیثیت باپ:
باپ اس شجرِ سایہ دار کی مانند ہوتا ہے۔ جو زمانے کی گرم سرد ہوائیں سہہ کر اپنی اولاد کو پھل اور سایہ مہیا کرتا ہے۔ اور قبل از پیدائش سے بلوغت تک بچے کی بنیادی ضروریاتِ زندگی یعنی خوراک، لباس، رہائش، تعلیم اور علاج کی فراہمی کا اہتمام کرتا ہے۔ بچوں کے ساتھ اچھا سلوک ایک باپ کا فرض ہے۔ جو بچے باپ کی ڈانٹ ڈپٹ یا مار کی وجہ سے بچپن میں ڈرے سہمے رہتے ہیں۔ وہ جوان ہونے پر باپ کے باغی بن کر اس کی ناقدری پراتر آتے ہیں۔ اس لئے لازم ہے کہ ایک باپ اپنے بچوں کے ساتھ پیار ومحبت اور شفقت ومہربانی کا سلوک کرے۔
مرد پر بحیثیت باپ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بیٹے کے بالغ ہونے تک اور بیٹی کی شادی تک تمام جملہ ضروریات زندگی مہیا کرے۔
مرد کا کردار بحیثیت بھائی:
کہتے ہیں کہ رشتوں میں سب سے طویل اور مضبوط رشتہ جو پیدائش سے لیکر زندگی کے اختتام تک جاری رہتا ہے۔ وہ بہن اور بھائی کا ہے۔ بہن اور بھائی کا تعلق خاندان کے دیگر افراد اور سماجی رابطوں سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ وہ زندگی کے مختلف مراحل سے اکٹھے گزرتے ہیں۔ بڑے بھائی کا درجہ باپ کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ بڑے بھائی عموما نگہداشت کرنے والے کا کردار اپنا لیتے ہیں۔ اور یہ تسلسل بلوغت اور بعض اوقات بہن بھائیوں کی شادی تک برقرر رہتا ہے۔ بحیثیت بھائی مرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بہنوں کے ساتھ محبت بھرا سلوک کرے۔ انہیں تحفظ فراہم کرے۔
مرد کا کردار بحیثیت بیٹا:
بحیثیت بیٹا مرد کے لئے ضروری ہے کہ والدین کا احترام کرے۔ ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرے۔ اپنے ساتھ ساتھ بیوی کے والدین کا احترام بھی اس پر لازم ہے۔ بیوی کو بھی اپنے والدین کے عزت و احترام کی تاکید کرے۔ جو لڑکے شادی کے بعد والدین خصوصا والدہ سے لاپروائی برتتے ہیں۔ اور بیوی کی رائے کو ہر بات میں اہمیت دیتے ہیں۔ اس گھر میں ساس بہو کے جھگڑے ہوتے ہیں۔
بیٹے کے لئے دونوں رشتوں میں توازن برقرار رکھنا نہایت ضروری ہے۔ بیٹے کی ذمہ داری یہ بھی ہے۔ کہ کسی ناچاقی کی صورت میں وہ فریقین کو سمجھائے۔ اور کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہونے دے۔
مرد کا کردار بحیثیت شوہر:
شوہر اور بیوی کا رشتہ انسانی رشتوں میں سب سے نازک اور اہم ہوتا ہے۔ اور دیگر رشتوں کی بنیاد بھی۔ شادی کے بعد شوہراوربیوی کو اس رشتہ کی پائیداری کے لئے بہت محنت اور سمجھوتہ درکار ہوتا ہے۔ اگرچہ ایک نئی شادی شدہ عورت کے لئے شوہر کے خاندان کے رسم و رواج اور طریقوں سے مطابقت پیدا کرنا آسان نہیں۔ اور اسے نئے ماحول میں خود کو ڈھالنے میں کچھ حد تک مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف مرد کو رشتوں میں توازن قائم رکھنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔
لیکن بحیثت شوہر ایک مرد کا فرض ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کی تمام ضروریات کا خیال رکھے۔ بیوی کی ضرویات کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ، کاموں میں اس کا ہاتھ بٹائے۔ اس سے بیوی کے دل میں اس کی محبت اور قدر بڑھے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشرے میں جو ایک مرد کا کردار ہے۔ اور اس کے جو فرائض ہیں۔ وہ انہیں خوش اسلوبی سے ادا کرے۔ تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ معاشرہ خوشگوار اور محبت بھرا ہوگا۔
الغرض مرد بیٹا ہے تو دل کا سکون، بھائی ہے تو محافظ، شوہر ہے تو بہترین ساتھی، باپ ہے تو سراپا شفقت۔
بقول علامہ اقبال ۔۔
اک زندہ حقيقت مرے سينے ميں ہے مستور
کيا سمجھے گا وہ جس کی رگوں ميں ہے لہو سرد
نے پردہ، نہ تعليم، نئی ہو کہ پرانی
نسوانيت زن کا نگہباں ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقيقت کو نہ پايا
اس قوم کا خورشيد بہت جلد ہوا زرد
سپمل رشتہ ایک ایسا ادارہ ہے جورشتہ کی تلاش اور اس میں حائل رکاوٹوں کے حل میں والدین کی مکمل رہنمائی اور مدد کرتا ہے۔ جیون ساتھی کا انتخاب ایک اہم اور مشکل فیصلہ ہے ۔ سپمل رشتہ ہر لحاظ سے اسے آپ کے لئے محفوظ اور آسان بنانے میں کوشاں ہے۔ ایک بہترین رشتے کی تلاش کے لئے ابھی رجسٹر کریں۔