موافقت یا سمجھوتے سے مراد ایسا معاملہ ہے۔ جس میں فریقین اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ یا اپنے مطالبات اور خواہشات پر دوسروں کی خواہشات یا مطالبات کو مقدم جانتے ہوئے اپنی خواہش سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔ یوں تو دنیاوی معاملات میں مرد اور عورت بہت سے مقامات پر سمجھوتہ کرتے ہیں۔ لیکن جب بالخصوص ازدواجی زندگی میں سمجھوتہ زیر بحث ہو تو اس کی توقع مرد سے کم اور عورت سے زیادہ کی جاتی ہے۔  

کیا آپ بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں کہ زندگی کے ہر اہم موڑ پر عورت ہی سمجھوتہ کرتی ہے؟ اگر ہم کہیں کہ ایسا نہیں ہے تو آپ یقینی طور پر حیران ہوں گے۔ یا بالفرض حیران نہیں ہوتے۔ تب بھی چند ایک چیزیں آپ کے ذہن میں آئیں گی۔ جن پر مرد سمجھوتہ کرتا ہے۔ اور بہت سی چیزیں ذہن سے محو ہو جائیں گی۔  

مرد ہو یا عورت، سب سے پہلا سمجھوتہ شادی کے فیصلے پر کرتے ہیں۔ وہ اس صورت میں جب والدین ان کی پسند نا پسند پر اپنی پسند کو ترجیح دیں۔ اس کے بعد سمجھوتوں کا ایک پل صراط ہوتا ہے جس پر سے دونوں کو گزرنا ہوتا ہے۔ اگر ایک دوسرے کو سمجھ کر، مل جل کر حالات کا مقابلہ کریں تو زندگی اچھی گزر جاتی ہے۔ ورنہ سمجھوتوں کے بوجھ تلے دب کر دونوں کی شخصیت اور سکون تباہ ہو جاتا ہے۔  

ازدواجی زندگی میں سمجھوتہ سب سے پہلے مالی معاملات پر کرنا پڑتا ہے۔ مرد اگر شاہ خرچ ہے تو اسے بچت کی عادت اپنانا ہوتی ہے۔ تا کہ فیملی اور مستقبل کے لئے کچھ پس انداز کر سکے۔ اسی طرح اگر وعرت کا میکہ خوشحال تھا اور شادی کے بعد شوہر کی آمدنی کچھ کم ہے۔ تو بیوی کو اپنی بہت سی خواہشات سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ اور ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لئے ایسا کرنے میں کوئی ہرج بھی نہیں ہے۔ یوں بھی شادی کے بعد ترجیحات تبدیل ہو جاتی ہیں۔  

سماجی سرگرمیوں پر بھی شوہر اور بیوی دونوں کو موافقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دونوں کو اپنا فارغ وقت کیسے گزارنا ہے۔ دوست رشتے داروں سے ملنے کی کیا ترتیب بنانی ہے۔ گھریلو امور میں شوہر اور بیوی نے کس طرح مل جل کر معاملات کو سنبھالنا ہے۔ ان سب کے لئے بہت سی چیزوں پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ 

 شوہر اور بیوی دونوں پر چونکہ شادی کے بعد ذمہ داریوں کا بوجھ پڑ جاتا ہے۔ انہیں اپنے بہت سے مشاغل وقت یا پیسے کی کمی کے باعث چھوڑنے پڑتے ہیں۔ یا ان میں کمی لانی پڑتی ہے۔ اور بہت سی جگہوں پر موافقت ضروری ہے۔  

شادی سے پہلے لڑکی اگر مزید پڑھنے اور ملازمت کی خواہش رکھتی ہے۔ لیکن شادی کے بعد شوہر اس بات پر رضامند نہیں ہوتا، تو یہاں لڑکی کو سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ اپنی اس خواہش سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ اس کے دل میں خیال آتا ہے کہ عورت ہی کیوں سمجھوتہ کرے۔ دیکھا جائے تو ان معاملات میں اکثر مرد بھی سمجھوتہ کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ خواہش کے باوجود بیرون ملک ملازمت کے لئے نہیں جا سکتے۔ مزید پڑھائی یا ٹریننگ کے لئے پیسہ خرچ نہیں کر سکتے۔  

والدین بننے کے بعد شوہر اور بیوی دونوں پر ہی ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ بچوں کی پرورش اور تعلیم میں والدین اپنی بہت سی خواہشات اور ضروریات پس پشت ڈالتے ہیں۔ ازدواجی زنگی میں سمجھوتہ بعض اوقات گراں اس لئے نہیں گزرتا کہ شوہر اور بیوی دونوں اپنی مرضی اور خوشی سے ایسا کرتے ہیں۔ کسی موڑ پر مرد اور کہیں عورت زیادہ سمجھوتہ کر رہی ہوتی ہے۔ مل جل کر نظام چلتا رہتا ہے۔  

اب آتے ہیں دوسرے پہلو کی طرف۔ اگر زندگی خوشگوار نہ گزر رہی ہو۔ کسی بھی معاملے پر شوہر اور بیوی میں اختلافات ہوں۔ دونوں مجبور ہو کر اس رشتے کو نبھا رہے ہوں۔ یا ایک صورتحال یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خوش ہوں۔ لیکن گھر کے دوسرے افراد کو شوہر یا بیوی سے اختلاف ہو۔ اس صورتحال میں سمجھوتہ کرنا کیسا ہے۔ اور اس کی کیا مقدار ہو۔  

بعض اوقات شادی کی حقیقت  وہ  نہیں ہوتی جو ہم عموماً سنتے یا دیکھتے ہیں۔ کبھی کبھار، شادی شدید مشکلات سے گزر سکتی ہے۔ شوہر اور بیوی کا تعلق کمزور ہو سکتا ہے۔ اپنی رفاقت کو مضبوط کرنے کے لئے وہ مختلف تراکیب آزماتے ہیں۔ اور ایک عام ترکیب موافقت یا ازدواجی زندگی میں سمجھوتہ ہے۔ بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ شادی میں موافقت مشکلات کا حل ہے یا نہیں۔ لوگوں کے اس بارے میں مختلف خیالات ہیں، اور یہ صورت حال پر بھی مبنی ہوتا ہے۔  

موافقت کا مطلب نہیں ہے کہ آپ اپنی ضروریات اور خواہشوں سے مستثنی ہوجائیں۔ بلکہ ازدواجی زندگی میں سمجھوتہ یا موافقت آپ کو بہت سی مشکلات سے بچاتی ہے۔ البتہ یہ نہایت ضروری ہے کہ اس سمجھوتے کی حد کیا ہو۔ سمجھوتہ نہ تو اس حد تک کیا جائے کہ کسی ایک فریق کی ذہنی اور جسمانی حالت پر اثر انداز ہو۔ اور نہ اتنا کم کیا جائے کہ ازدواجی زندگی اور فیملی اثر انداز ہو۔ 

ملائم گرم سمجھوتے کی چادر 

یہ چادر میں نے برسوں میں بنی ہے 

کہیں بھی سچ کے گل بوٹے نہیں ہیں 

کسی بھی جھوٹ کا ٹانکا نہیں ہے 

اسی سے میں بھی تن ڈھک لوں گی اپنا 

اسی سے تم بھی آسودہ رہو گے 

نہ خوش ہو گے نہ پژمردہ رہو گے 

اسی کو تان کر بن جائے گا گھر 

بچھا لیں گے تو کھل اٹھے گا آنگن 

اٹھا لیں گے تو گر جائے گی چلمن 

 شاعرہ زہرا نگار نے کس خوبصورتی سے ایک مختصر سی نظم میں سمجھوتے کا تانا بانا بن دیا۔ سمجھوتہ رشتوں کا لازمی جزو ہے۔ لیکن ازدواجی زندگی میں سمجھوتہ کتنا ہو ۔ اس کی حد کیا ہو۔ کیا سمجھوتہ صرف ایک فریق یعنی بیوی پر ہی فرض ہے۔ کیا مرد بھی شادی میں سمجھوتہ کرتا ہے؟ یہ وہ تمام سوالات ہیں جن پر بحث ہوتی رہتی ہے۔ اس پر ہرشخص کا  ایک کا اپنا نقطہ نظر ہے۔ 

چونکہ ہر جوڑے کو مختلف حالات و واقعات کا سامنا ہوتا ہے اس لئے سمجھوتے کا کوئی معیار یا مقدار بیان نہیں کی جا سکتی۔ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ دو لوگ جب ایک بندھن میں بندھ جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو قبول کر لیتے ہیں۔ تو پھرضروری حد تک اپنی ازدواجی زندگی میں سمجھوتہ کریں۔ تا کہ ان کے بچے، گھر اور مستقبل متاثر نہ ہو۔   

جب عقل نے کر ڈالا جذبات سے سمجھوتہ 

ہم کیوں نہ کریں اپنے حالات سے سمجھوتہ 

جینے کے لئے آخر کرنا ہی پڑا مجھ کو 

دن رات کی گردش میں دن رات سے سمجھوتہ