یوں تو شادی کی سبھی تقریبات اہم ہوتی ہیں۔ لیکن ولیمہ کو بالخصوص مسلم ممالک میں ایک خصوصی مقام حاصل ہے۔ جہاں یہ ایک طرف سنت ہے۔ وہیں اس کا مقصد شریک حیات کے حصول کا شکر ادا کرنا بھی ہے۔ اور شکر ادا کرنے کا بہترین طریقہ اپنے عزیز و اقارب کو اس خوشی میں شریک کرنا ہے۔ دعوت ولیمہ کا اہتمام کرنا ہے۔ جس میں رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ قریبی تعلق داروں کو مدعو کرنا اور ان کے ساتھ اپنی خوشی بانٹنا ہے۔ دعوت ولیمہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ولیمہ کرو، زیادہ استطاعت نہ ہو تو ایک بکری ہی کا کر دو” 

دعوت ولیمہ کی اہمیت اس بات سے بھی ثابت ہے کہ یہ ایک طرح سے نکاح کا اعلان ہے۔ بالفرض کسی نکاح کے گواہان انتقال کر جاتے ہیں۔ تو کم از کم دوعت ولیمہ میں شریک لوگ اس نکاح کی گواہی دے سکیں۔ دوسرا، نکاح اور سفاح میں فرق ہو سکے۔ اس لئے ولیمہ کو لازم قرار دیا گیا۔ 

ولیمہ واجب ہے یا سنت؟ 

دعوت ولیمہ کی اہمیت یا حیثیت جاننے سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ واجب اور سنت میں کیا فرق ہے۔ سنت وہ عمل ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود کیا ہے۔ اور خلفائے راشدینؓ نے اس کی پیروی کی ہے۔ واجب اسے کہتے ہیں جو ظنی دلیل سے ثابت ہو۔ اسےا بلا عذر ترک کرنے والا فاسق کہلاتا ہے۔ بشرطیکہ بغیر کسی تاویل اور شبہ کے چھوڑ دے۔ اس کا منکر کافر نہیں فاسق ہے۔ اب اگر بات کی جائے کہ ولیمہ کی۔ تو ولیمہ سنت ہے، فرض یا واجب نہیں۔ اس کے چھوٹنے سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ البتہ یہ ایک مسنون عمل ہے۔ 

دعوت ولیمہ کی اہمیت 

ولیمے کے لغوی معنی ہیں اجتماع۔ اس سےمراد میاں بیوی کا جمع ہونا ہے۔ دعوت ولیمہ کرنے میں بہت ساری مصلحتیں ہیں۔ جیسا کہ نکاح کا اعلان یا زفاف کی تشہیر ہو جاتی ہے۔ اولاد کے نسب میں بدگمانی کا اندیشہ پیدا نہیں ہوتا۔ نکاح اور زنا میں امتیاز ہوجاتا ہےنیز بیوی کی نظر میں شوہر کی عزت اور توقیر بڑھتی ہے۔ 

دعوت ولیمہ کا اہتمام نکاح کے بعد کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے۔ مسنون طریقہ یہی ہے کہ رخصتی کے اگلے دن کیا جائے۔ یعنی شب زفاف کی صبح کو اپنے عزیز واقارب، دوست احباب اور اہل محلہ کی حسب استطاعت ضیافت کی جائے۔ اس کے لیے جانور ذبح کرنا اور کھانا تیار کروانا جائز ہے۔ اور جن لوگوں کو شرکت کی دعوت دی جائے۔ ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ضرور شریک ہوں۔ ان کا جانا نئے جوڑے کے لیے مسرت کا باعث ہوگا۔ 

دعوت ولیمہ کی اہمیت اپنی جگہ۔ لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئیے کہ ولیمہ کی تقریب صرف خوشی کااظہارہو۔ دولت، تعلقات یا سماجی رتبے کامظاہرہ نہ ہو۔ ایک دوسرے پرسبقت لے جانے یا کسی کو نیچا دکھانے کی کوشش نہ ہو۔ 

 ہاں یہ بات قابل قبول ہے اگراس پاکیزہ سنت کو ادا کرنے میں لوگ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں۔ عمومی طور پر ولیمہ کی تقریب میں مسکینوں اور غریبوں کو دعوت دینے کی بجائے زیادہ ترامیروں اور مال داروں کومدعو کیا جاتا ہے۔ جبکہ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ 

"بدترین کھانا وہ ولیمہ ہے جس میں مال داروں کو بلایا جائے اور فقیروں کو چھوڑ دیا جائے" (بخاری و مسلم شریف) 

ایک مرتبہ لوگوں نے امیرالمؤمنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا۔  کہ کیا بات ہے کہ شادی کے کھانے میں ہم کو جو لذّت اور خوشبو ملتی ہے۔ وہ عام کھانوں میں نہیں ملتی؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ولیمہ کے کھانے میں خیر و برکت کی دعا فرمائی ہے۔ 

آج ہمارے معاشرے میں ولیمہ کو دنیاوی خرافات کا مجموعہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک سنت کی ادائیگی اس کے مسنون طریقے سے ہو تو بہتر ہے۔ دولت کی نمائش، بے پردگی، اسراف، طبقاتی امتیاز، رزق کی بے ھرمتی، چند گھنٹے کی اس تقریب کے لیے ہم کیسے کیسے گناہ اور ریاکاری کا بوجھ اپنے کاندھوں پر ڈال لیتے ہیں۔ حسبِ استطاعت دعوتِ ولیمہ کا اہتمام کرنا سنت ہے۔ لیکن قرض لے کر لمبی چوڑی دعوت کرنا درست عمل نہیں۔

دعوت ولیمہ کا مقصد 

 دعوت ولیمہ کا مقصد اللہ کا شکر ادا کرنا۔ اس کی رضا اور خوشنودی ہونا چاہئیے۔ نہ کہ شان و شوکت کا اظہار، دکھاوا یا ریاکاری۔ شکر اس بات کا کہ اللہ نے زندگی کے ایک نہایت اہم اور نئے موڑ پران کی مدد فرمائی۔ ایک شریک حیات عطا فرمایا۔ جو ان کے لیے تفریح طبع اور تسکین خاطر کا باعث بھی ہوگا۔ اور زندگی کے نشیب و فراز میں ان کے ہم قدم کھڑا ہونے کے ساتھ تمام امور میں مدد گاربھی ہوگا۔ 

شادی نہ صرف جوڑے بلکہ دونوں خاندانوں کے لیے خوشی کا موقع ہے۔ اللہ نے دونوں خاندانوں کو ایک اہم فرض کی ادائیگی کے قابل بنایا۔ اور نوجوان جوڑے کے لیے تو خوشی اور سکون کا موقع ہے ہی۔ کیونکہ دونوں کو جیون ساتھی میسر آیا۔ جو ہر خوشی غمی، دکھ سکھ میں ان کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ اور اندگی کی شاہراہ پر ان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے گا۔ ان کی نسل کو بڑھانے کا باعث بنے گا۔ دعوت ولیمہ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس کا اہتمام ضرورکیجئے۔ اور دنیاوی وسائل کے بے دریغ استعمال سے گریز کرتے ہوئے مسنون طریقے سے تقریب کا اہتمام کیجئے۔