انسان رشتوں کے بغیر ادھورا ہے۔ کچھ رشتوں سے قدرت انسان کو وابستہ کرتی ہےاور کچھ رشتے وہ خود جوڑتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ رشتے جوڑنا نہایت آسان ہے لیکن انہیں نبھانا اور ان کا حق ادا کرنا قدرے مشکل ہے۔ ہمارا آج کا موضوع بھی یہی ہے کہ رشتوں کے معاملات اور عائلی مسائل کیا ہیں اور ان کا ممکنہ حل کیا ہے۔
بچوں کے رشتوں کے معاملات اور عائلی مسائل ایسے معاملات ہیں جو اکثر والدین کے لئے بے سکونی کا باعث بنتے ہیں۔ آج کل کے جدید دور میں جہاں انسان نے ہر شعبے میں ترقی کر لی ہے۔ نت نئی ایجادات نے انسان کی زندگی اور کام نہایت آسان کر دئیے ہیں۔ وہاں رشتوں کے معاملات اور عائلی مسائل ایسا مسئلہ ہیں۔ جس پر سائنس اور ٹیکنالوجی دونوں سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا رہا۔
ٹیکنالوجی جہاں ایک طرف لوگوں کو قریب کر رہی ہے۔ وہیں رشتوں میں دراڑیں بھی ڈال رہی ہے۔ اور قریبی رشتوں کو ایک دوسرے سے دور کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ انٹرنیٹ کی ایجاد سے جہاں دنیا بھر میں دور دراز کے علاقوں اور ملکوں تک رابطے آسان ہوئے ہیں۔ وہیں لوگ اپنے خاندان، عزیزوں اور رشتے داروں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
رشتوں کے معاملات اور عائلی مسائل:
ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچوں کی شادی اچھی جگہ ہو۔ انہیں ان کے ہم پلہ رشتہ ملے۔ کچھ والدین بچوں کی شادی اپنی مرضی سے کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ اولاد ان کے ہاتھوں میں پلی بڑھی ہے۔ وہ ان کی عادات اور مزاج سے بخوبی واقف ہیں۔ اور ان کے لئے ایک بہترین شریک حیات کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ وہ زمانے کے سرد و گرم سے واقف ہیں۔ ان کا تجربہ اور مشاہدہ بچوں سے زیادہ ہے۔ وہ زیادہ بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں۔
اس وجہ سے وہ اکثر بچوں کی پسند اور خوشی کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔ کیونکہ والدین جذباتی ہو کر نہیں سوچتے۔ ان کے پیش نظر صرف بچوں کا حال نہیں ، مستقبل بھی ہوتا ہے۔ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو ایک بہترین زندگی دیں۔ اور اس میں کوئی کمی بیشی رہ جائے تو وہ اسے شادی کے ذریعے پورا کرنا چاہتے ہیں۔
دوسری طرف بچوں کے پیش نظر ان کا حال ہوتا ہے۔ خاص کر اگر وہ کسی کو پسند کرتے ہوں تو پھر تمام ضروری امور کو بھی نظر انداز کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ اور یہی چیز والدین اور بچوں میں اختلاف کا باعث بنتی ہے۔ جس کی وجہ سے رشتوں کے معاملات اور عائلی مسائل پیش آتے ہیں۔
رشتوں کے معاملات کا بہترین حل یہی ہے کہ والدین بچوں کی پسند نا پسند کو بھی اہمیت دیں۔ کیونکہ جن دو لوگوں نے ایک ساتھ زندگی گزارنی ہے۔ اگر رشتے میں ان کی مرضی شامل نہ ہو تو عائلی زندگی کامیابی سے نہیں گزر سکتی۔
اولاد کا بھی فرض ہے کہ اپنے والدین کی نرمی اور آزادی کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں۔ شادی اور رشتے کے معاملے میں والدین کو ان کا کردار ادا کرنے دیں۔ اور اپنی خوشی کو ان کی خوشی پر ترجیح نہ دیں۔ بلکہ کوئی ایسی صورت پیش آئے تو والدین کو راضی کر کے رشتے کی بات آگے بڑھائیں۔
عائلی مسائل اور ان کا حل:
ایک لڑکا اور لڑکی جب بندھن میں بندھتے ہیں تو دونوں کا فرض بنتا ہے کہ رشتوں کو مضبوط اور بہتر بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائیں۔ حقوق و فرائض کا خیال رکھیں۔ اولاد کی بہترین پرورش اور تعلیم و تربیت کریں۔ قرابت داروں کا خیال رکھیں۔ اپنے گھر کو محبت اور امن کا گہوارہ بنائیں۔
پائیدار رشتوں کی بنیاد ڈالیں:
رشتے قائم کرتے وقت محض دنیاوی مقاصد اور فائدہ نہ دیکھا جائے۔ جھوٹ بول کر کوئی رشتہ نہ بنایا جائے۔ رشتوں کے معاملات اور عائلی مسائل تبھی پیدا ہوتے ہیں جب کسی قسم کی غلط بیانی کی جائے۔ خواہ یہ غلط بیانی لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے سے کریں۔ یا پھر دونوں کے سسرال والے۔ اس کی وجہ سے رشتوں میں دراڑ پڑ جاتی ہے۔
خاص کر اگر دنیاوی فائدے کو دیکھتے ہوئے رشتہ جوڑا جائے۔ اور اس کے لئے دونوں گھرانے کوئی جھوٹ بول دیں اور شادی کے بعد وہ توقعات پوری نہ ہوں تو گھر ٹوٹنے کی نوبت بھی آ سکتی ہے۔
حسن سلوک اور صلہ رحمی:
صلہ رحمی کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ جس طرح ایک عورت کا فرض ہے کہ شوہر کے گھر والوں اور رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ اسی طرح ایک مرد کا بھی فرض ہے کہ بیوی کے گھر اور خاندان والوں کی عزت کرے۔ ان کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔
شوہر کا اپنے گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک دیکھ کر بیوی کے دل میں بھی اپنے سسرال والوں کی عزت اور خدمت کا جذبہ پیدا ہو گا۔ اور ایک عورت ہی ہے جو اپنی خوش اخلاقی اور اچھے رویے سے گھر میں محبت کی فضا قائم کر سکتی ہے۔ وہ عورت پھر چاہے ساس ہو، بہو یا نند۔
شوہر اور بیوی کے ساتھ ساتھ دونوں کے گھر والوں کا بھی فرض ہے کہ اپنے بچوں کی غلط باتوں پر پشت پناہی کر کے گھر کا ماحول خراب نہ ہونے دیں۔ کیونکہ رشتوں میں دراڑ پیدا ہو جائے تو نہ صرف گھر بلکہ معاشرے پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔
حقوق و فرائض کی پاسداری:
حقوق کے لحاظ سے شوہر اور بیوی دونوں کے حقوق یکساں ہیں۔ مرد کے لئے یہ سوچ رکھنا کہ میں قوام ہوں اس لئے میرے حقوق زیادہ ہیں، درست نہیں۔ جس طرح عورت پر مرد کے تمام فرائض پورے کرنے کی ذمہ داری ہے اسی طرح مرد بھی عورت کے حقوق پورے کرنے کا ذمہ دار ہے۔ رشتوں کے معاملات اور عائلی مسائل کو احسن طریقے سے نبھانے میں ان اہم باتوں کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے۔
مشترکہ خاندانی نظام:
یہ بات درست ہے کہ کچھ دہائیوں پہلے تک مشترکہ خاندانی نظام کو آئیڈیل قرار دیا جاتا تھا۔ وجہ یہ نہیں کہ اس دور میں مشترکہ خاندانی نظام۔کی خصوصیات مختلف تھیں۔ بلکہ تب لوگوں میں برداشت کا مادہ اور رشتوں کو جوڑ کر رکھنے کی خواہش زیادہ تھی۔ لیکن آج کل کے دور میں اس نظام میں بہت سی قباحتیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ساتھ رہ کر اگر نفرتیں اور قدورتیں بڑھ رہی ہیں تو بہتر ہے علیحدہ رہا جائے۔ کیونکہ ہر معاملے میں جذباتی فیصلے کی بجائے معاملہ فہمی سے کام لینا چاہئیے۔
ایک جامع پیغام:
شوہر اور بیوی دونوں اپنی زبان، کان اور آنکھ کا درست استعمال کریں۔ تو کبھی مسائل پیدا نہ ہوں۔ زبان کے درست استعمال کا مطلب ہے کہ نرمی اور پیار محبت سے بات کی جائے۔ جھگڑے کی صورت میں بدزبانی اور طعنہ زنی سے گریز کیا جائے۔
کان کے درست استعمال سے مراد ہے کہ اگر کسی رشتے دار یا افراد خانہ میں سے کسی کی جانب سے کوئی تلخ بات سننے کو ملے تو حتی الامکان نظر انداز کر دی جائے۔ تا کہ گھر کا ماحول خراب نہ ہو۔ جھگڑے کی صورت میں ترکی بہ ترکی جواب دینے کی بجائے جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے کان بند کر لئے جائیں۔
یوں تو ہر معاملے میں آنکھیں کھلی رکھنے کو کہا جاتا ہے۔ لیکن شادی کے بعد خاص کر سسرال والوں یا شوہر کی کوئی خامی نظر آئے تو جتانے کی بجائے آنکھ بند کر لی جائے۔ یعنی ایک دوسرے کی برائیوں اور خامیوں کو دیکھنے کے لئے آنکھیں بند رکھو۔ جبکہ اچھائیاں دیکھنے کے لئے آنکھیں کھلی رکھو۔
ہمارا آج کا موضوع ” رشتوں کے معاملات اور عائلی مسائل و حل ” یہیں اختتام پذیر ہوتا ہے۔ ایک سوال جو آج کے موضوع سے متعلقہ ہے اور اس کا جواب جزننا سب کے لئے ضروری ہے۔ وہ یہ ہے کہ اگر آپ کو عائلی یا ازدواجی زندگی میں مسائل کا سامنا ہے تو آپ ان کا حل کیسے تلاش کرتے ہیں؟
کمنٹ سیکشن میں ہمیں آپ کے جوابات کا انتظار رہے گا۔ ہمارے نئے آنے والے بلاگز آپ کو بروقت مل سکیں۔ اس کے لئے سبسکرائب کرنا مت بھولئے گا۔
Ab to rishton mei bas masail hi masail reh gaye hain, hal na koi niklta hai, na unka faida hai