شادی کا لفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں خوشی اور مسرت کا ایک تاثرجاگتا ہے۔ لیکن کیا یہ لفظ حقیقی معنوں میں بھی ہمیں خوشی دیتا ہے؟ شادی جہاں ایک طرف گھر کی سجاوٹ، دلہا دلہن کی تیاری، ڈھول کی تھاپ اور بارات کی آمد کا سندیسہ سناتی ہے۔ وہیں دوسری طرف شادی پر ہونے والے اخراجات کی سوچ پریشان بھی کرتی ہے۔ والدین اور دلہا دلہن کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی شادی بہت منفرد اور الگ ہو۔ لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟ جی ہاں، بالکل ممکن ہے۔ اگر شادی کے اخراجات میں کمی کی منصوبہ بندی پہلے سے ہی کر لی جائے۔

مائیں اپنی بچیوں کے لئے ان کی کم عمری سے ہی جہیز جمع کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ شادی کی گہما گہمی شروع ہوتے ہی دلہا دلہن کی بہنوں کوشاپنگ کی فکرلاحق ہو جاتی ہے۔ بھائی گھر کی سجاوٹ، ڈھولک اور ڈھول کا بندوبست کرنے کا بیڑہ اٹھا لیتے ہیں۔ ماں کو بیٹی کا جہیز یا بیٹے کی بری مکمل کرنی ہوتی ہے۔ اور باپ شادی کے دیگر انتظامات و اخراجات کی فکر میں ہلکان ہوا پھرتا ہے۔

شادی کے دن کو یادگار بنانے کے لیے کئی دن تو کیا کئی مہینے پہلے سے تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ کوئی گھرانہ کتنا ہی خوشحال کیوں نہ ہو اسے پہلے سے ہی شادی کے اخراجات میں کمی کی منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے۔ ورنہ پیسہ پانی کی طرح بہتا رہتا ہے۔

متوسط گھرانے جن کے معاشی حالات فراخ دلی سے پیسہ لگانے کے متحمل نہ ہو سکتے ہوں۔ اور جن کی آدھی سے زیادہ زندگی اپنے بچوں کی تعلیم اور شادی کے اخراجات کے لئے پیسے بچانے میں گزرتی ہے۔ ان سے زیادہ منصوبہ بندی کی اہمیت کون جان سکتا ہے۔ اس لئے والدین تقریب سے پہلے ہی شادی کے اخراجات میں کمی کا لائحہ عمل مرتب کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

شادی کے اخراجات میں کمی نہ صرف والدین بلکہ دلہا کے لئے بھی نہایت ضروری ہے۔ بعض اوقات دوسروں کی دیکھا دیکھی غیر ضروری اخراجات دلہا اور دلہن کے مستقبل کی خوشیوں اور آسانیوں کو نگل لیتے ہیں۔ بات جہیز کی ہو یا بری کی۔ اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ بہت سے لوگوں کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ لیکن اسے عملی جامہ بہت کم لوگ پہناتے ہیں۔

شادی کے اخراجات میں کمی کا صرف لڑکی یا اس کے والدین نے نہیں سوچنا ہوتا۔ لڑکے کے لئے بھی ضروری ہے کہ شادی سے پہلے اور بعد کے اخراجات کی فہرست مرتب کرے۔ اپنی جمع پونجی دیکھے۔ اور ان میں سے جو نہایت ضروری اخراجات ہیں۔ انہیں پورا کرے۔ نمود و نمائش اور وقتی خوشی کے لئے اپنا آنے والا کل برباد نہ کرے۔ کیونکہ بعض اوقات شادی کی تیاری میں لڑکا اپنی تمام جمع پونجی لگا دیتا ہے۔ اور شادی کے بعد نئے جوڑے کو جب دعوتوں یا گھومنے پھرنے کے لئے دن میسر ہوتے ہیں۔ تو پیسے نہ ہونے کی وجہ سے نیا جوڑا ان دنوں کو اس طرح سے نہیں گزار پاتا جیسا کہ اس کا حق ہے۔

بری کے لئے زیورات اورجوڑوں کی تیاری ہو یا گھر کی سجاوٹ۔ مہمانوں کی لسٹ بنانی ہو یا ان کی آمد پر ان کے رہنے اور کھانے کے انتظامات کرنا۔ شادی کے بعد ہونے والی دعوتیں ہوں۔ یا دلہا دلہن نے گھومنے پھرنے کے لئے کسی دوسرے شہر یا ملک جانا ہو۔ ان سب کے لئے وقت، پیسہ اور منصوبہ بندی درکار ہے۔

ہمارے ہاں شادی کے اخراجات میں بڑا حصہ والدین کا ہوتا ہے۔ اس کے بعد لڑکا یا لڑکی اپنی جمع شدہ رقم والدین کے حوالے کرتے ہیں۔ تا کہ وہ شادی کے انتظامات دیکھ سکیں۔ اور بعض گھرانوں میں قریبی رشتہ دار بھی شادی کے انتظامات میں مالی حصے دار بنتے ہیں۔ جس کی وجہ سے والدین کا بوجھ کافی حد تک کم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہاں ضورت اس امر کی ہے کہ تمام جانب سے حاصل ہونے والی رقم یا تحائف کا نہایت سوچ سمجھ کر استعمال کیا جائے۔

یہاں اگر لڑکی کی بات کی جائے تو اس کے والدین کے ذمہ جہیز اور بارات کی تیاری ہوتی ہے۔ لڑکی ایک نیا گھر بسانے جا رہی ہوتی ہے۔اس کی خواہش ہوتی ہے کے اس کے والدین اسے ضرورت کی تمام اشیاء کے ساتھ رخصت کریں۔ جذباتی ہو کر وہ جہیز میں بہت سی ایسی اشیاء بھی شامل کر لیتی ہے۔ جن کی اگلے دس یا پندرہ سالوں تک استعمال کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔

فرنیچراور الیکٹرونکس کے سامان کے علاوہ بستر، برتن اور ڈیکوریشن کی بہت سی اشیاء اکٹھی کر لی جاتی ہیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ دلہا کے گھر میسر آنے والے ایک کمرے میں یہ اتنا سارا سامان کہاں سمائے گا۔ برتنوں کا ڈھیر جیسے پیٹیوں میں پڑے سالہا سال گزر جاتے ہیں۔ بعض اوقات ان کی ہونے والی بچیوں کے جہیز کے کام آتا ہے۔ دیکھا جائے تو اگر اس وقت شادی کے اخراجات میں کمی کا سوچ کر یہ غیر ضروری چیزیں نہ بنائی جاتیں تو بہتر نہ ہوتا؟

یہ غیر ضروری سامان سالوں کسی کام نہیں آتا۔ بلکہ ان کی صفائی اور حفاظت میں ہلکان ہونا پڑتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ لڑکی اور اس کے والدین اس بات پر غور کریں کہ بیٹی کے جہیز میں صرف ضرورت کا سامان موجود ہو۔ چیزیں صرف وہی ہوں جن کے رکھنے کی گنجائش لڑکے کے گھر میں موجود ہو۔ والدین اگر لڑکے والوں سے اس معاملے میں بغیر ہچکچائے پہلے ہی بات کر لیں۔ تو اس میں کوئی ہرج نہیں ہے۔

شادی کے اخراجات میں کمی کی منصوبہ بندی

مہندی، مایوں، بارات یا ولیمہ۔ آپ شادی کی تقریب میں کتنی ہی رسومات اور دن شامل کر لیں۔ منصوبہ بندی کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ بیٹی کی شادی کرنے جا رہے ہیں۔ تو لڑکے اور اس کے والدین سے جہیز اور بری کے معاملات پہلے سے ہی طے کر لیں۔ حق مہر کیا ہو گا۔ اس کے علاوہ شادی میں جو رسومات کی جاتی ہیں۔ جیسا کہ دودھ پلائی، جوتا چھپائی، گھٹنا پکڑائی وغیرہ۔ وہ کی جائیں گی یا نہیں۔ اگر کی جائیں گی تو اعتدال میں رہتے ہوئے پہلے ہی طے کر لیا جائے۔ کیونکہ ان رسومات نے ہمارے معاشرتی نظام کو اس بری طرح جکڑا ہوا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی والدین ان سے جان نہیں چھڑا پاتے۔

بری اور جہیز میں غیر معمولی طور پر زیادتی سے گریز کیا جائے۔ موسم اور رواج کے تبدیل ہونے سے بہت سے جوڑے اور جوتے استعمال میں ہی نہیں آتے۔ اس لئے ایسے اور اتنے جوڑے بنائے جائیں۔ جو لڑکی یا لڑکا استعمال کر لیں۔ نہ کہ وہ الماریوں اور بکسوں میں بند پڑے رہیں۔

شادی کی تقریب کتنے دنوں پر مشتمل ہو گی۔ اور کتنے مہمانوں کو دعوت دینی ہے۔ اس کا حساب کیا جائے۔ تقاریب کی تعداد کم سے کم رکھی جائے۔ اور تمام تقاریب کی مناسبت سے مہمانوں کو مدعو کیا جائے۔ ہر تقریب میں خاندان کے ہر فرد، دوست یا محلے دار کا شامل ہونا ضروری نہیں۔ جس تقریب میں جس شخص کو دعوت دینی ہے اس کی فہرست مرتب کر لی جائے۔

شادی کس دن یا مہینے میں کرنی ہے۔ اس پر مشاورت بھی نہایت ضروری ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر ستمبر سے مارچ تک کے مہینے شادیوں کے لئے بہترین تصور کئے جاتے ہیں۔ اور ہفتہ وار چھٹی ہونے کی وجہ سے ہفتہ اور اتوار کے دن تقریب رکھی جاتی ہے۔

اگر شادی کے لئے ان مہینوں کے علاوہ کوئی مہینہ منتخب کیا جائے۔ اسی طرح ہفتہ یا اتوار کی بجائے شادی کے لئے کوئی اور دن منتخب کئے جائی۔ تو واضح طور پر شادی کے اخراجات میں کمی کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے اگر مدعو کئے گئے مہمان اسی شہر سے تعلق رکھتے ہوں۔ اور باآسانی تقریب میں شرکت کر سکتے ہوں۔

اگر مہمانوں کی اکثریت دوسرے شہروں یا ملکوں میں مقیم ہے۔ تو پھر تقریب کے لئے چھٹی کا دن ہی مناسب رہے گا۔ اس کے علاوہ ان مہمانوں کے رہنے اور کھانے کا بندوبست کرنا بھی آپ کی ذمہ داری ہو گی۔ دیہاتوں میں شادی کی تیاری میں سب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ مہمان تمام گھروں میں بانٹ لئے جاتے ہیں۔ اور گھر والوں کی طرف سے ان کی آؤ بھگت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی جاتی۔ لیکن شہروں میں صورتحال مختلف ہے۔

تقریب کے لئے ہال کا انتخاب ہو یا گھر کی سجاوٹ کروانی ہو۔ دلہا دلہن کا عروسی جوڑا خریدنا ہو یا سیلون کی بکنگ۔ یہ تمام وہ کام ہیں جو کم از کم ایک سے دو ماہ پہلے ہو جانے چاہئیں۔ تا کہ عین وقت پر کوئی مشکل نہ اٹھانی پڑے۔ آج کل بہت سی سروسز آن لائن دستیاب ہیں۔ ان سے رابطہ آپ کے لئے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

مہمانوں کی آمدورفت کے لئے گاڑی کا انتظام بھی پہلے ہی کر لینا چاہئیے۔ کتنے مہمان ایسے ہیں جو اپنی ٹرانسپورٹ کا انتظام خود کریں گے۔ اور کتنے لوگ ایسے ہیں جنہیں ہال میں لے جانے کے لئے آپ کو گاڑی مہیا کرنا ہو گی۔ اس کا اندازہ لگا لینے کے بعد گاڑی کی بکنگ وقت پر کروا لی جائے۔

مہمانوں کو مدعو کرنے کے لئے دعوتی کارڈز کی رسم کافی پرانی ہے۔ آپ جدید طریقہ اور سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اس اضافی خرچ سے بچ سکتے ہیں۔ شادی کا دعوت نامہ ڈیزائن کر کے تمام دوست احباب کو واٹس ایپ کے ذریعے بھیجا جا سکتا ہے۔ مزید فیس بک پر فیملی گروپ بنا کر اس میں ان تمام لوگوں کو شامل کیا جا سکتا ہے جو شادی پر مدعو ہیں۔ اور اسی گروپ میں تمام اپڈیٹس دی جا سکتی ہیں۔ تا کہ سب کو ایک ساتھ اطلاع پہنچ جائے۔

شادی کی سجاوٹ، فوٹوگرافی یا ویڈیو گرافی کے لئے آپ کسی رشتہ دار یا دوست کی مدد لے سکتے ہیں۔ جو اس فن کے ماہر ہوں۔ یہ شادی کے اخراجات میں کمی کا باعث ہو گا۔

مہنگی ترین شادیاں نہ تو خوشی کی ضمانت ہیں۔ اور نہ رشتے کی کامیابی کی۔ اس لئے بہتر ہے کہ اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائے جائیں۔ اعتدال سے کام لیا جائے۔ شادی کے اخراجات میں کمی کی منصوبہ بندی کی جائے۔ جہیز اور بری بنانے سے بہتر ہے اپنے بچوں کی اچھی تربیت کی جائے۔ تا کہ وہ گھر جوڑنے والے بنیں۔ نہ کہ گھر توڑنے والے۔

سمپل رشتہ نہ صرف آن لائن رشتہ سروس فراہم کرتا ہے۔ بلکہ معاشی مسائل اور ان کے حل پر بحث بھی کرتا ہے۔ دیگر آن لائن رشتہ ویب سائٹس کی طرح سمپل رشتہ کا مقصد پیسہ کمانا نہیں۔ بلکہ معاشرے میں آن لائن رشتہ سروس کے حوالے سے آگاہی۔ نیز والدین اور زوجین کو پیش آنے والے معاملات پر روشنی ڈالنا اور ان کے مثبت حل تلاش کرنا ہے۔