اس کائنات کے اہم ترین عناصر میں سے ایک انسان ہے۔ انسانوں کے باہمی رشتوں سے مل کر خاندان اور ان خاندانوں سے مل کر ایک معاشرہ بنتا ہے۔ اس معاشرے میں رہنے والے تمام خاندان کسی نہ کسی نظام سے وابستہ ہیں۔ خواہ وہ مشترکہ خاندانی نظام ہو یا اکائی خاندانی نظام۔
خاندانی نظامات مختلف ممالک اور معاشرتوں میں مختلف ہوتے ہیں۔ ایک اہم نظام مشترکہ خاندانی نظام ہے۔ جس میں کئی خاندان جیسا کہ دادا دادی، چچا، تایا اور ان کی اولادیں ایک ہی گھرمیں رہتے اور زندگی گزارتے ہیں۔ یہ نظام مختلف لحاظ سے مثبت اور منفی پہلو رکھتا ہے۔
ان دونوں نظاموں کا موازنہ کیا جائے تو مشترکہ خاندانی نظام میں ہمیں حقوق و فرائض کا ایک مربوط کامل نظام نظر آتا ہے۔جہاں انسان بہت سی سماجی اقدار و روایات کا پابند ہے۔ اور دوسری طرف اکائی نظام میں انسان کسی حد تک آزاد نظر آتا ہے۔
روئے زمین پر بسنے والے ہر انسان کا مزاج مختلف ہے۔ لیکن ایک چیز جو کم و بیش ہر انسان میں مشترک ہے وہ یہ کہ انسان فطری طور پر آزاد واقع ہوا ہے۔ ،وہ بعض اوقات اجتماعیت میں بھی انفرادیت کا خواہشمند ہوتا ہے۔ اور مشغولیت میں تنہائی کے لمحات کھوجتا ہے۔۔ کیونکہ ہرشخص کا مزاج اور شناخت مختلف ہے۔ ذوق اور دلچسپیاں الگ ہیں۔ مسائل اورضروریات مشترک نہیں۔
کوئی شخص خواہ وہ مرد ہو یا عورت زندگی کے کسی بھی مرحلے پر ایسا نہیں چاہتا کہ اس کی شناخت گم ہوجائے۔ اس کے ذوق، مزاج اورشخصی مسائل کو کوئی نظر انداز کرے۔ یا کسی اور کو اس پر ترجیح دی جائے۔ وہ اعتدال چاہتا ہے۔ وہ دنیاکے رنگ و نوع کو قبول کرنے کو تیار ہے۔ لیکن اس شرط پر کہ اس کی شخصیت اور امتیاز برقرار رہے۔
مشترکہ خاندانی نظام – فوائد و نقصانات:
جب مشترکہ نظام کی بات ہوتی ہے تو وہاں چونکہ بہت سے افراد مل کر ایک چھت کے نیچے رہتے ہیں۔ بزرگوں کا احترم، چھوٹوں سے شفقت، خوشی اور غم کے موقع پر ایک دوسرے کی مدد، یہ سب نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ گمان بھی کیا جاتا ہے کہ مشترکہ نظام میں شخصی آزادی اور انفرادی سوچ کو تقویت نہیں ملتی۔ وقت بدلنے کے ساتھ لوگوں میں یہ احساس پنپ رہا ہے کہ مشترکہ نظام محض ایک سماجی روایت ہے۔ جس کی اب ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس سے چھٹکارا حاصل کرنے میں ہی انسان کی ترقی اور بقا ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسلام میں بھی اس کا کوئی تصور نہیں۔
مشترکہ خاندانی نظام انسان کی اختراع ہے یا کائنات کی۔ اس سے قطع نظر کوئی بھی انسان اپنی ضروریات کی تکمیل تنہا نہیں کر سکتا۔ اسے قدم قدم پر تعلق اور رشتوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ کیا آپ لفظ "تکافل” سے واقف ہیں؟ تکافل عربی زبان کا لفظ ہے جو کفالت سے نکلا ہے۔ اور کفالت ضمانت اور دیکھ بھال کو کہتے ہیں۔ اصطلاحی معنوں میں دیکھا جائے تو تکافل کامطلب ہے کہ انسانوں کا ایک گروہ آپس میں معاہدہ کر لے کہ اس گروہ میں کسی کو کوئی نقصان پہنچتا ہے۔ تو سب مل کر اس کے نقصان کی تلافی کریں گے۔جتنے لوگ اس تکافل کے معاہدے میں شریک ہوتے ہیں۔ وہ سب ایک دوسرے کی حسب معاہدہ کفالت کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔
یوں تو تکافل کا یہ نظام تجارت میں رائج ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ نے انسان کو خاندان کی صورت میں تکافل کا فطری نظام عطا فرمایا ہے۔ خاندان میں کسی پر بھی کوئی مشکل یا پریشانی آئے تو بہت سے ہاتھ اس کی جانب بڑھتے ہیں۔ اسے مشکل سے نکالنے میں اس کی مدد کرتے ہیں۔ مشترکہ نظام میں رہنے والا ہر شخص سکون و اطمینان سے زندگی گزارتا ہے۔ بشرطیکہ سب لوگ حقوق و فرائض کی پاسداری کریں۔
اگر کسی خاندان میں اعلیٰ اقدارکی تخم ریزی ہوتی رہے تو نہ صرف اس خاندان میں موجود لوگ خوش و خرم اور پرسکون زندگی گزارتے ہیں۔ بلکہ یہ معاشرے کے لئے بھی خیر و رحمت کا باعث بنتا ہے۔ عمومی مشاہدہ ہے کہ مشترکہ خاندان میں رہنے والے افراد اطمینان کی زندگی گزارتے ہیں۔ انہیں اندیشے خوف زدہ اور پریشان نہیں کرتے۔
آج انسانیت کو ایک بہت بڑا خطرہ درپیش ہے۔ وہ ہے شادی سے بیزاری یا نوجوان نسل کی مشترکہ خاندانی نظام سے بڑھتی ہوئی بیگانگی۔ لیکن انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے غم اور خوشی تنہا نہیں منا سکتا۔ اسے اپنی خوشی یا غم بانٹنے کے لئے کسی ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ نہ وہ اکیلے اپنی زندگی کا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ مشترکہ نظام اسے یہ فطری پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے۔ ایک مضبوط خاندان اور نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ انسان بوجھ بانٹ کر اپنی زندگی آسان بنا لے۔
خاندانی نظام مشترک ہونےکی بنیاد پر رشتے اور تعلقات بہترین ہو سکتے ہیں۔ افراد خانہ کا اپنے گھر میں موجود دوسرے لوگوں کے ساتھ گہری محبت، احترام اور تعاون کرنا ایک مژبت عمل ہے۔ اور اس گھر میں پرورش پانے والے بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بچوں کو ایک محفوظ اور محبت بھرا ماحول ملتا ہے۔ ہر شخص اپنے مشکلات اور مسائل کو ڈسکس کر کے اپنا تناؤ کم کر سکتا ہے۔ یہ نظام بچوں کی تربیت اور تعلیم کو بھی بہتر بناتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ساتھ قریبی رشتہ داروں کے تعاون اور تجربات سے بھی مستفید ہوتے ہیں۔
لیکن اسی نظام کے ساتھ منفی پہلوؤں بھی جڑے ہوئے ہیں۔ مشترکہ خاندان میں اختلافات اور جھگڑے عام بات ہے۔ جو گھر کے ماحول کو ناقابل قبول بناتے ہیں۔ بعض اوقات گھر والوں خصوصاً بزرگ اور نوجوان نسل کے درمیان اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے خاندان کی بنیاد کمزور ہو سکتی ہے۔ اس نظام میں اکثر اوقات افراد خانہ کو اپنی ذاتیات اوردلچسپیوں کو بھول کر انہی مشاغل کو اختیار کرنے کا دباؤ ہوتا ہے جس کی اجازت بزرگوں یا گھر کے بڑوں کی طرف سے ملتی ہے۔
اختتاماً، مشترکہ خاندانی نظام مختلف لوگوں کے لئے مفید یا مضر ہو سکتا ہے۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ خاندانی نظام کوئی بھی ہو اسے احترام کی نظر سے دیکھا جائے۔ اس کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کیا جائے۔ تاکہ تعلقات اور رشتوں کومضبوط بنایا جا سکے۔
Acha likha.
بہترین لکھا ہوا ہے