مغربی ممالک کی تقلید میں ہمارے ہاں بھی نت نئے دن منانے کا سلسلہ شروع ہو گیا  ہے۔ لیکن یہاں جس منانے کی بات ہو رہی ہے وہ کوئی دن نہیں بلکہ ناراض بیوی کو منانا ہے۔ ہرعقلمند شخص زندگی میں اور کچھ منائے یا نہیں، ناراض بیوی کو ضرور مناتا ہے۔ کچھ افراد کی زندگی میں تو یہ دن بار بار آتا ہے۔  

جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں انسانی رشتے روز بروز کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ وہیں ماہرین کی جانب سے نت نئی ایجادات کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ رشتوں کو مضبوط کرنے اور انہیں ایک دوسرے کے قریب لانے میں معاون ثابت ہوں گی ۔  

حال ہی میں انسانی رشتوں کی بحالی میں معاون ایک ایپ کا چرچا زبان زد عام ہے۔ جو "اینگری جی ایف” کے نام سے متعارف ہوئی ہے۔ اس ایپ کا مقصد یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ بیوی کے ساتھ تنازعات کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ آپ اپنی ناراض بیوی کو منانا چاہتے ہیں یا ان کا اشتعال کم کرنا چاہتے ہیں یہ ایپ آپ کو اس کام میں ماہر کر دے گی۔ 

اینگری جی ایف نامی چیٹ بوٹ دراصل ایک گیم ہے۔ جو حقیقی زندگی میں پیش آنے والے حالات یا تنازعات کو ورچوئل ماحول میں دکھاتی ہے۔ اس کی مختلف سطحیں ہیں۔ جن کو پار کرتے ہوئے ایک شخص ناراض بیوی کو منانے کے تمام طریقوں میں ماہر ہوتا چلا جاتا ہے۔  

سکرین پر آپ کو حقیقی زندگی سے قریب تر ایسے مناظر نظر آتے ہیں جو بیوی کی ناراضی یا جھگڑے کا سبب بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ بیوی کی سالگرہ بھول گئے اور وہ اس بات پر ناراض ہے۔ یا آپ گھریلو امور میں اس کا ہاتھ نہیں بٹاتے۔ جو ناراضی کی وجہ بن رہا ہے۔ آپ نے کوئی وعدہ توڑا ہے۔ یا بیوی سے جھوٹ بولا ہے۔ آپ اس کے ساتھ بداخلاقی سے پیش آئے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اس ایپ میں آپ نے اپنی فرضی بیوی کی ناراضی ختم کر کے اسے پر سکون کرنا ہے۔ 

 آپ کی ہر کوشش اس کے موڈ پر اثر انداز ہو گی۔ جہاں اچھے الفاظ اس کا مزج بہتر کریں گے۔ وہیں وہ کسی بات پر بھڑکنے کا حق بھی رکھتی ہے۔ اور گیم کھیلنے والے شخص کو اس پر حقیقی کا زندگی  کا شائبہ ہونے لگتا ہے۔  

ایپ میں ناراض بیوی کو منانا بظاہر تو ایک دلچسپ اور آسان کھیل لگتا ہے۔ کھیلنے والے کو اپنا اسکور صفر سے بڑھا کر سو تک لے جانا ہوتا ہے۔ ہر اس عمل یا جملے پر جہاں ورچوئل بیوی کا مزاج اچھا ہو جائے۔ اور وہ خوش ہو جائے، اسکور میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جبکہ کسی جملے پر ورچوئل بیوی کا مزاج برہم ہو جائے۔ اسکور میں کمی ہو جاتی ہے۔ 

اس ایپ کو تیار کرنے والے ماہرین کے مطابق یہ شوہر اور بیوی کے تعلقات میں بہتری لاتی ہے۔ بظاہر یہ ایپ فائدہ مند لگتی ہے۔ لیکن غور کیا جائے تو یہ رشتوں میں دوری کا باعث بھی ہے۔ مغربی ممالک میں خاندانی نظام کا فقدان ہے۔ اولاد اور والدین کے بیچ ایک گہری خلیج ہے۔ بالغ ہوتے ہی بچے والدین سے الگ ہو جاتے ہیں۔ ان میں وہ انسیت اور قربت پیدا ہی نہیں ہوتی جو مشرقی معاشروں کا خاصا ہے۔ 

ایسی ایپس مغربی ممالک میں تو کارآمد ہو سکتی ہیں۔ جہاں والدین ان کی تربیت کرنے کے لئے ان کے ساتھ نہیں۔ رشتوں کو کیسے نبھانا ہے۔ تنازعات کیسے حل کرنے ہیں۔ یہ سکھانے والا کوئی نہیں۔ وہاں ایسی ایپس کا بننا اور استعمال کرنا اچنبھے کا باعث نہیں۔  

لیکن مشرقی معاشروں میں خاندان معاشرے کا سب سے اہم اور بنیادی عنصر ہے۔ معاشرے کی ترقی اورنشوونما کا انحصار ہی خاندان پر ہے۔ جو نہ صرف عائلی نظام کو منضبط کرنے بلکہ اہم وظائف کی ادائیگی کا ذمہ داربھی ہے۔  

خاندان کے اجزائے ترکیبی میں مرد، عورت اولاد، والدین اور دیگر رشتہ دار شامل ہیں۔ ایک اچھے خاندان کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے عناصر ترکیبی مکمل ہوں۔ اور وہ اپنے تمام فرائض ادا کریں۔ ہر گھرانے میں شوہر اور بیوی کی نوک جھونک ایک عام بات ہے۔ معاملہ اگر بند کمرے میں حل نہ ہو تو والدین کی مدد لینے کو برا تصور نہیں کیا جاتا۔ بڑے بزرگ اپنے مشاہدے، تجربے اور بردباری سے تمام تنازعات کو با آسانی حل کر لیتے ہیں۔  

سو ایسی ایپس نوجوانوں کے لئے وقت گزاری کا ذریعہ تو ہو سکتی ہیں لیکن یہ تعلیم و تربیت میں اس طرح سے معاون ثابت نہیں ہوتیں۔ جیسی تربیت والدین کر سکتے ہیں۔  

کچھ عرصہ پہلے مصر کی جامعہ الازھر کے ایک سرکردہ عالم دین الشیخ محمد ابو بکر نے فتویٰ صادر کیا  کہ جب تک بیوی ناراض رہے گی ۔اس کا شوہرجنت میں داخل نہیں ہوگا۔ جنت میں جانے کے لیے شوہرکوبیوی کی خوشنودی حاصل کرنا ضروری ہے۔ مردوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی بیویاں جنت میں داخلے کا دروازہ ہیں۔ اس بیان پر عوامی حلقوں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا۔  

بعد ازاں جامعہ الازھر کے الشریعہ کالج کے ڈین ڈاکٹر سیف رجب نے اس فتوے کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ قرآن اور احادیث میں میاں ‌بیوی کی ایک دوسرے کے ساتھ بدسلوکی پر روز محشر حساب کتاب کی بات کی گئی ہے۔ مگر یہ بات کہیں بھی موجود نہیں کہ شوہر کی بدسلوکی سے اس پر جھنم واجب ہوگی۔ یا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ 

دیکھا جائے تو بیوی کی ناراضی کی اس قدر اہمیت ہے کہ اس پر کہیں فتوے صادر ہوتے ہیں تو کہیں ایپس بنتی ہیں۔ ممکن یہ اس ایپ کی پیشکش میں کہیں یہ نظریہ بھی کارفرما ہو۔ لیکن مزاح سے قطع نظر دیکھا جائے تو ہم جو مشرقی معاشروں کے خاندانی نظام کا راگ الاپتے ہیں۔ چاہتے یا نہ چاہتے بھی مغربی ممالک کی تقلید میں اس دوڑ کا حصہ بن رہے ہیں۔ جو ہمیں ہمارے خاندانی نظام اور رشتوں سے الگ کر رہی ہے۔ 

نہ صرف نوجوان طبقہ سوشل نیٹ ورکس سے جڑ کر معاشرے سے الگ ہو گیا ہے۔ بلکہ ان کی دیکھا دیکھی یا اولاد کے نظر انداز کرنے کی وجہ سے والدین بھی سوشل میڈیا پر جلوہ گر ہو گئے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ سب اپنی  ذمہ داریوں سے کنارہ کش ہوتے چلے جا رہے ہیں۔  

ننھے منے بچوں میں خودکشی جسی سوچوں کا پیدا ہونا، نیند کی کمی، رویوں میں تبدیلی، اشتعال انگیزی، انٹرنیٹ کے بے جا استعمال کے سبب یہ شکایتیں عام ہوتی جا رہی ہیں۔ جب والدین بچوں کی تربیت میں دلچسپی نہیں لیں گے۔ تو ان حالات میں اسی قسم کی ایپس بنائی جائیں گی۔ جو بظاہر نوجوانوں کی تربیت کا ڈھونگ رچائیں گی جب کہ پس پردہ ان کا مقصد محض پیسہ کمانا ہو گا۔ 

  آخر میں ہم چند سوالات کرنا چاہیں گے۔ 

  آپ کے خیال میں ناراض بیوی کو منانا آسان ہے یا مشکل؟ 

ناراض بیوی کو منانے کے کیا طریقے ہو سکتے ہیں؟ 

کیا ایک اے آئی ایپ حقیقی رشتوں کا متبادل ہو سکتی ہے؟ 

کیا آپ "اینگری جی ایفنامی ایپ کو استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ 

 ہمیں آپ کی آراء اور جوابات کا انتظار رہے گا۔