مشرقی معاشروں خاص کر پاکستان اور بھارت میں رشتہ طے ہوتے ہی والدین بچیوں کو بہت سی باتیں سکھانا اور سمجھانا شروع کر دیتے ہیں۔ سسرال والوں کے ساتھ اچھا تعلق کیسے بنایا جائے۔ انہیں خوش کیسے رکھا جائے۔ ان کی خدمت کیسے کی جائے۔ یعنی لڑکی ایک ایسا کردار بن جائے جو سب کے لئے بے لوث قربانی دے۔ اور اپنی شادی کو برقرار رکھنے کے لئے کسی بھی حد تک جائے۔ لیکن کیا کبھی والدین یا متوقع سسرال والوں نے ان قوانین یا حقوق پر بات کی ہے۔ جو شادی کے وقت ایک لڑکی کو حاصل ہوتے ہیں۔ اور نکاح نامے پر درج ہوتے ہیں؟ کیا کبھی والدین نے نکاح نامہ کی شقیں بیٹی کو پڑھ کر سنائی ہیں؟

نکاح نامہ ایک ایسی دستاویز اور معاہدہ ہے۔ جس کے ذریعے شادی کے وقت شوہر اور بیوی کے حقوق و فرائض کا تعین ہوتا ہے۔ فریقین کے نکاح اور ایجاب وقبول کے بعد اس دستاویز پر جوڑے اور گواہوں کے دستخط لئے جاتے ہیں۔ اور نکاح کا عمل مکمل ہو جاتا ہے۔ ایک عورت اور مرد کو شادی کے دوران جو تحفظات ملتے ہیں۔ وہ نکاح نامہ کی شقیں پڑھنے اور صحیح طور پر مکمل کرنے سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔

یعنی قانونی اعتبار سے نکاح نامہ ایک ایسا معاہدہ ہے۔ جس میں فریقین اکٹھے زندگی گزارنے کے لیے مختلف شرائط طے کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں عام طور پر لڑکا یا لڑکی نکاح نامے کو نہیں پڑھتے۔ گھر کے بزرگ یا نکاح خوان ہی نکاح نامہ کی شقیں پر کر کے ان سے دستخط کروا لیتے ہیں۔ لڑکی اور لڑکے کو علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے ازدواجی حقوق کیا ہیں۔ اوران کا تحفظ کس طرح کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں مسلم عائلی قوانین آرڈینینس 1961 کے تحت نکاح نامہ ایک قانونی ثبوت ہوتا ہے۔ جس میں وہ تمام حقوق اور فرائض لکھے جاتے ہیں جن کا جاننا اور ان سے دلہن اور دلہا دونوں کا متفق ہونا ضروری ہے۔

دیکھا جائے تو یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ آپ ایک قانونی معاہدے کی شرائط بغور پڑھے اور سمجھے بغیراس پر دستخط کر دیں۔ ان شقوں کو نہ جاننے اور شادی کامیاب نہ ہونے کی صورت میں ایک لڑکی کو کتنا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب معاملہ کورٹ کچہری تک پہنچتا ہے۔ اور بذریعہ وکیل اس بات کا پتا چلتا ہے کہ نکاح نامہ کی شقیں نہ پڑھنے کی صورت میں ایک لڑکی کن حقوق سے دستبردار ہو چکی ہے۔

مثال کے طور پرجس شق میں طلاق کا حق لڑکی کو تفویض کیا جاتا ہے۔ اسے کاٹ دیا جاتا ہے۔ دوسرا، تعلقات میں ناچاقی کی صورت میں اگر کوئی لڑکی خلع لینا چاہے تو اسے حق مہر لوٹانا پڑتا ہے۔

یہ نکاح نامہ کی شقیں بے شک چھوٹی چھوٹی ہیں لیکن نہایت ہمیت کی حامل ہیں۔ جن پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ بعض والدین بھی انہیں پڑھنے یا اپنی بچی کو یہ حق دلوانے سے ناواقف ہوتے ہیں۔ جو شقیں نکاح خواں نے شامل کر دیں۔ انہیں پر اکتفا کر لیا جاتا ہے۔ بعض اوقات لڑکے والوں کی طرف سے دباؤ ہوتا ہے کہ لڑکی کو ایسا کوئی حق تفویض نہ کیا جائے۔

نکاح نامہ کی شقیں

پاکستان میں مروجّہ نکاح نامہ کی مجموعی طور پر پچیس شقیں ہیں۔ جن میں ایک سے بارہ تک سادہ اور آسان شقیں ہیں۔ جنہیں کوئی بھی با آسانی سمجھ سکتا ہے۔ ان میں دولہا اور دلہن کے بنیادی کوائف، شادی کی تاریخ، وکیلوں اور گواہان کی تفصیلات درج کی جاتی ہیں۔

پاکستان میں شادی کے لیے لڑکے کی عمر کم از کم عمر اٹھارہ سال جبکہ لڑکی کی عمر کم ازکم سولہ سال ہونا ضروری ہے۔ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد سے نکاح اور طلاق پر قانون سازی کرنے کا اختیار صوبوں کو دیا گیا تھا۔ تاہم سندھ کے علاوہ باقی صوبوں میں اب تک نئی قانون سازی نہیں کی گئی۔

سندھ میں 2013 سے نافذ العمل قانون کے مطابق شادی کے لیے لڑکے اور لڑکی کی عمر کم از کم 18 برس ہونا ضروری ہے۔ اور اس سے کم عمر کی شادی کو قانون تسلیم نہیں کرتا اور یہ قابل تعزیر جرم بھی ہے۔ پنجاب اور دوسرے صوبوں میں ابھی تک پرانا قانون ’امتناع ازدواج طفلاں مجریہ 1929‘ نافذ ہے۔ جس کے مطابق شادی کے وقت لڑکی کی کم ازکم عمر 16 برس ہونی چاہیے۔ بصورت دیگر یہ ایک قابل تعزیر جرم ہے۔

لہذا نکاح پڑھاتے وقت اس شق کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے۔ جس میں لڑکی اور لڑکے کی عمر درج کی جاتی ہے۔ کہ یہاں کسی غلط بیانی سے کام نہ لیا جائے۔ اور درست معلومات درج کی جائیں۔ لڑکا اور لڑکی نکاح کے وقت بالغ ہوں۔

تیرہ سے بیس تک جو شقیں ہیں ان میں حق مہر کی مقدار اور نوعیت کا اندراج ہوتا ہے۔ یعنی حق مہر معجل ہے یا موجل۔ اگر حق مہر نقدی کی بجائے زیور یا کسی اور چیز کی صورت میں ہے تو اس کی مالیت یا مقدار کیا ہے۔ نیز دلہن کو جہیز کی صورت میں کوئی جائیداد دی گئی ہے تو اس کا اندراج ہوتا ہے۔

شق اٹھارہ اور انیس نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ لیکن ان شقوں کو نکاح نامے میں سرے سے کاٹ کر لڑکی کو ایک نہایت اہم حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ اور وہ ہے طلاق کا حق۔ آیا شوہر نے بیوی کو طلاق کا حق تفویض کیا ہے؟ اور اگر کیا ہے تو کن شرائط کے تحت؟

نکاح نامہ کی شقیں قطعی طور پر یک طرفہ نہیں ہیں۔ ان شقوں میں نہ صرف لڑکی بلکہ لڑکے کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے یہ بھی شامل کیا گیا ہے کہ آیا شوہر کے طلاق کے حق پر کسی قسم کی پابندی لگائی گئی ہے؟

لڑکی کی مرضی جانے بغیر، لڑکے والوں کے دباؤ میں آ کر یا لاعلمی کی بناء پر نکاح نامے میں موجود اس خانے کو پہلے ہی کاٹ دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے لڑکی اس حق سے محروم ہو جاتی ہے کہ طلاق لینے کی صورت میں مہراس کا ہو گا۔ اور اگر وہ عدالت کے ذریعے خلع لیتی ہے تو حق مہر لوٹانا ہو گا۔

نکاح نامہ کی شقیں دیکھیں تو ہمارا قانون خواتین کو طلاق کا حق دیتا ہے۔ مگر معاشرے میں اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ اکثر اوقات ان حصوں کو مکمل طور پر نکاح خواں یا خاندان کے افراد کی جانب سے کاٹ دیا جاتا ہے۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ شادی کے مبارک موقع پر اس کے اختتام کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتے۔ یا پھر وہ سمجھتے ہیں کہ تعلقات خراب ہونے کی صورت میں لڑکی کے پاس خلع کا حق تو بہ ہر حال موجود ہے۔ لیکن یہ جان لیجئے کہ خلع مشروط ہوتی ہے۔ اور کبھی بھی طلاق دینے کے مترادف نہیں ہو سکتی۔

طلاق کا حق ملنے کی صورت میں لڑکی قانونی طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے باآسانی اپنی شادی ختم کر سکتی ہے۔ ورنہ اسے مرد کی جانب سے طلاق کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ یا خلع لینی پڑتی ہے۔

یہ حق ملنے کے بعد لڑکی اپنا طلاق نامہ تحریر کر کے یونین کونسل میں جمع کروا سکتی ہے۔ مفاہمت کی کوشش اگر ناکام ہوجائے تو تین ماہ کے اندر اسے طلاق کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا جاتا ہے۔ اس حق کے ذریعے پورا مرحلہ نہایت آسان ہوجاتا ہے۔ علیحدگی میں کم وقت لگتا ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ لڑکی کو اپنے حق مہر سے دستبردار نہیں ہونا پڑتا۔

ہمارے ہاں عام طور پر مرد نان و نفقہ کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اسی حوالے سے نکاح نامہ میں یہ شق بھی بہت اہم ہے۔ جس میں شوہر کی جانب سے اگر کوئی ماہانہ خرچ مقرر کیا گیا ہے تو اس کی تفصیلات کا اندراج ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ شادی کے بعد دلہن تعلیم یا نوکری جاری رکھنا چاہتی ہے۔ اس سے متعلق اگر کوئی معاہدہ یا بات چیت فریقین میں ہوئی ہے تو اس کی تفصیلات درج کی جا سکتی ہیں۔ تا کہ بعد میں کوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔

یعنی ان میں آپ کوئی خصوصی شرائط تحریر کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ شرائط شرعی قوانین یا ملکی قوانین سے متصادم نہیں ہونی چاہیئں۔ ان شرائط میں آپ ماہانہ جیب خرچ سے لے کر شادی کے بعد تعلیم جاری رکھنے یا نوکری کرنے کی اجازت، یہاں تک کہ گھریلو امور سے متعلق شرائط بھی درج کروا سکتے ہیں۔

شق نمبر اکیس سے پچیس میں دلہا کی ازدواجی حیثیت کا اندراج ہوتا ہے۔ آیا وہ پہلے سے شادی شدہ، رنڈوا یا طلاق یافتہ ہے۔ دوسری شادی کی صورت میں مسلم خاندانی قوانین کے آرڈینینس کے تحت چیئرمین ثالثی کونسل سے اجازت نامہ حاصل کر چکا ہے؟ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ اگر یہ بات سامنے آ جائے کہ پہلی بیوی نے دوسری شادی کی اجازت نہیں دی تھی۔ اس صورت میں دوسری شادی کو منسوخ نہیں کیا جائے گا۔ لیکن یہ ضرور ہو گا کہ اگر شوہر نے دوسری شادی رسمی کارروائیوں کے بغیر کی ہے۔ تو یہ جرم گردانا جائے گا۔اور اس کی سزا جیل اور جرمانہ دونوں ہو سکتی ہیں۔

پہلی بیوی سے اگر اولاد ہے تو ان کی تعداد اور نام کیا ہیں؟ دوسری شادی کی صورت میں ثالثی کونسل کی جانب سے جاری کردہ اجازت نامہ کا نمبر اور تاریخ درج کی جاتی ہے۔

اس کے بعد نکاح خواں کی معلومات، نکاح کی تاریخ اور رجسٹریشن کے لئے ادا کردہ فیس کا اندراج کیا جاتا ہے۔ وکلاء، گواہان اور نکاح خوان کے دستخط لئے جاتے ہیں۔

نکاح نامہ ایک بنیادی معاہدہ ہے۔ آپ اس میں مزید شقوں کا اضافہ کر سکتے ہیں۔ لیکن یہاں اہم یہ ہے کہ نکاح نامہ کی شقیں لڑکی اور لڑکا دونوں پڑھیں اور اس پر متفق ہوں۔ وہ تمام خصوصی شرائط اور حقِ طلاق سے آگاہ ہوں۔ تاہم تمام حقوق اور ذمہ داریاں نہ تو نکاح نامے میں لکھی جا سکتی ہیں اور نہ ہی لکھی جانی چاہیئں۔

حال ہی میں ایزی پیسہ کی جانب سے ان کی ایپ پر ایک سہولت اور نیا فیچر فراہم کیا گیا ہے۔ "آڈیو نکاح نامہ” جس کے ذریعے خواتین سات مختلف زبانوں میں نکاح نامہ کی شقیں سن سکتی ہیں۔ ان میں اردو، انگلش، پنجابی، سندھی، بلوچی، سرائیکی اور پشتو زبانیں شامل ہیں۔ قوت سماعت سے محروم افراد کے لئے اشاروں کی زبان میں نکاح نامہ کی شقیں سمجھنے کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ یہ ایزی پیسہ کا بہت اچھا اقدام ہے۔ 

نکاح نامے کی اہمیت

شادی ایک مرد اور عورت کے درمیان زندگی بھر کی رفاقت کا معاہدہ ہے۔ نکاح کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بیوی شوہر کی ملکیت بن گئی ہے۔ اس کا ہر جائز، ناجائز حکم ماننا یا اس کے ظلم و ستم برداشت کرنا اس کی مجبوری ہے۔ بلکہ دوسرے معاہدات کی طرح نکاح بھی ایک معاہدہ ہے۔ اگر کسی وجہ سے فریقین کے درمیان نفرت یا دوری پیدا ہو جائے۔ ان کا ساتھ رہنا ممکن نہ ہو تو بہتر ہے پرامن طریقے سے ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر لی جائے۔ اور اس معاہدہ کو ختم کردیا جائے۔

نکاح یوں تو زبانی ایجاب و قبول ہی سے ہوتا ہے۔ لیکن جن معاہدات میں بقیہ امور مستقبل میں ادا طلب ہوں۔ ان میں تحریری ریکارڈ مرتب کرلینا بہتر ہے ۔ خود قرآن مجید نے اس کی صراحت کی ہے۔ جیسا کہ نکاح میں اکثر اوقات مہر بعد میں ادا کیا جاتا ہے۔ اس لئے اگر نکاح کے معاہدہ کو تحریری طور پر مرتب کرلیا جائے تو یہ عین شریعت کے مطابق ہے۔

نکاح نامہ کی شقیں تو اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں۔ لیکن بذات خود نکاح نامہ فریقین کے تعلق کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ اگر خدانخواستہ کوئی فریق شادی سے مکر جائے تو نکاح نامہ اس کے خلاف دلیل بنتا ہے۔

یہ اس بات کو بھی ثابت کرتا ہے کہ اس عورت کے بطن سے جو بچے پیدا ہوئے ہیں۔ وہ اسی مرد کی اولاد ہیں۔ اور اس مرد پر ان کے نفقہ اور کفالت کی ذمہ داری ہے۔ ان بچوں کو اس مرد کے ترکہ میں وراژت کا حق حاصل ہے۔ اس کے علاوہ نکاح نامہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کب سے اس مرد کی طرف سے نفقہ کی حقدار ہے۔

نکاح نامے کی وجہ سے ان تمام رشتوں کا ثبوت فراہم ہوتا ہے جن سے نکاح کرنا جائز نہیں۔ اس سے حق مہر کی مقدار معلوم ہوتی ہے۔ اور یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ نکاح کے وقت مہر ادا کیا گیا تھا یا نہیں ؟

شادی کے موقع پر بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا اندراج نکاح نامہ مین کیا جاتا ہے۔ لیکن کچھ باتیں باہمی گفت و شنید سے بھی طے کر لینی چاہئیں۔ تمام چیزوں کا اندراج نکاح نامے میں نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے معاملات پر کچھ گواہان کی موجودگی میں بات چیت کر لینی چاہئیے۔

کیونکہ بعض اوقات ہمارے اپنے قوانین ہی ہمیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اور کچھ مسائل تفریق سے بھرپور ہوتے ہیں۔ جنہیں نکاح نامے میں شامل کرنے سے بھی کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ کیوں کہ وقت آنے پر انہیں عدالت میں ثابت کرنا ایک مکمل طور پر الگ اور مشکل معاملہ ہوتا ہے۔

نکاح نامہ کی شقیں اس لئے بھی اہم ہیں کہ خطبۂ نکاح کے موقعہ سے زوجین کو جو ہدایات دی جاتی ہیں، وہ بہت اہم ہوتی ہیں۔ لیکن ان پر توجہ نہیں دی جاتی۔ اور وہ ہوا میں تحلیل ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اس لئے خطبہ کے ساتھ نکاح نامہ میں بھی ضروری ہدایات درج ہونا ضروری ہیں۔ اور زوجین کے لئے ان ہدایات کا جاننا اور ان پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے۔