جہیز کا لفظ پڑھتے یا سنتے ہی ہماری نظروں کے سامنے ساز و سامان اور ضرورت زندگی کی وہ تمام اشیاء آ جاتی ہیں۔ جو شادی کے موقع پر والدین اپنی بیٹی کو دیتے ہیں۔ جہیز کی شرعی حیثیت پر ہم بحث کریں گے۔ لیکن اس سے پہلے لفظ جہیز کے معنوں پر غور کر لیا جائے۔

لفظ جہیز دراصل "جھاز” سے نکلا ہے۔ جوعربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا اطلاق اس سازو سامان پر ہوتا ہے۔ جس کی ضرورت ایک دلہن کو نیا گھر سنبھالنے کے لئے ہوتی ہے۔ دوسری طرف ایک میت کو قبر تک پہنچانے کے لئے جو ساز و سامان درکار ہوتا ہے۔ اس کے لئے بھی جھاز کا لفظ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ شاید اسی لئے والدین بیٹی کو رخصت کرتے وقت کہا کرتےتھے کہ اب سسرال سے تمہارا جنازہ ہی اٹھے گا۔ یعنی وہ بیٹی کی شادی کر کے موت تک اس کی تمام تر ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو گئے۔

ہندوستان کے مسلمان فرمان رواوں نے مسلمانوں اورہندوئوں کو آپس میں ملانے، اتحاد و اتفاق پیدا کرنے اور یگانگت کی فضاء قائم کرنے کے لئے دونوں مذاہب کی رسومات کو یکجا کر دیا تھا۔ ان میں نکاح اور شادی کے موقعہ پر مہندی، مایوں، رت جگا، مانجھا، سہرا بندی کی رسوم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ڈھول، شہنائی، باجے، ناچ گانے اور بری وغیرہ جن کا اسلامی تہذیب یا مسلمانوں سے کہیں وجود نہ تھا۔ وہ سب مسلمانوں میں بھی عام ہوتی چلیں گئیں۔

ہمارے ہاں شادی بیاہ سے لے کر مرگ تک تمام رسومات ہندو ثقافت سے مستعار لی گئی ہیں۔ تقسیم سے پہلے چونکہ ملک ایک ہونے کی وجہ سے مسلمانوں پر ہندو تہذیب و ثقافت کا خاصا اثر تھا۔ کیونکہ برصغیر میں مسلمانوں کی فتوحات اور آمد سے پہلے ہندوئوں کا ہی راج تھا۔ جو بیش بہا رسومات میں جکڑے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ رہنے کی وجہ سے مسلامانوں پر بھی ان کی تہزیب و ثقافت کی چھاپ پڑتی گئی۔ اور ہندوستان سے الگ ہو جانے کے باوجود یہ رسومات اور ان کے اثرات محو نہیں ہوسکے۔ بے شمار غیر ضروری رسومات اور روایات آج بھی رائج ہیں۔

جہیز کی شرعی حیثیت

مذہب اسلام کی بات کریں تو اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے آئین و قوانین میں ایک کو ذمہ دار بنایا گیا ہے۔ کہ وہ جہیز کا مختصر اور ضروری سامان جمع کرے۔ مردوں کی عورتوں پر فضیلت دی گئی ہے۔ تو انہیں یہ ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے کہ وہ عورتوں پر اپنا مال خرچ کریں۔

جہیز کی شرعی حیثیت اس واقعہ سے واضح ہو جاتی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی درخواست پیش کی۔ تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارے پاس حق مہر کے لئے کیا ہے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کچھ نہیں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا تمہاری حطمی زرہ کہاں ہے؟ اسے فروخت کردو۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی زرہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو فروخت کی۔ اور اس کی قیمت رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کردی۔

آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ، سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ کو بلوایا۔ اور کچھ درہم انہیں دے کر فرمایا کہ اس رقم سے جناب فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لئے گھر کی ضروری اشیاء خرید لاؤ۔ اس میں سے کچھ درہم حضرت اسماء کو دیئے۔ اور فرمایا کہ اس سے عطر اور خوشبو مہیا کرو۔ اور جو درہم باقی بچے وہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس رکھ دیئے گئے۔

یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جو جہیز دیا گیا وہ مہر معجل کی رقم میں سے تھا۔ دوسری طرف اگرنبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ چیزیں اپنے پاس سے دیتے۔ تب بھی اس کی حیثیت جہیز کی نہ ہوتی۔ کیوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زیرپرورش تھے۔

ہماری شریعت میں شادی یا نکاح کا کوئی خرچ عورت کے ذمہ نہیں رکھا گیا۔ بلکہ نکاح کے موقع پر مرد کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے۔ کہ وہ عورت کو حق مہر ادا کرے۔ یعنی عورت پر خرچ کیا جائے نہ کہ اس سے کچھ مانگا یا لیا جائے۔

یہاں مال خرچ کرنے سے مراد حق مہر اور نان نفقہ ہے۔ یعنی وہ تمام اخراجات جو نکاح کے موقع پر کئے جائیں۔ یا گھریلو خریدو فروخت سے متعلق ہوں۔ جنہیں عموماً جہیز کے دائرہ میں لا کر لڑکی کے والدین پر بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ یہ سب اخراجات انفاق اموال یعنی مال خرچ کرنے میں شامل ہیں۔ یعنی والدین کی طرف سے دئیے جانے والے جہیز کی شرعی حیثیت تو کوئی نہیں۔

ہمارے ہاں یہ تصور رائج ہے کہ لڑکی کو ٹرک بھر کر جہیز دے دیا جائے۔ اور اس کے بعد وہ باپ کی وراثت میں کسی قسم کی حق دار نہ ہو گی۔ یہ تصور درست نہیں۔ والدین بیٹی کو جہیز دیں یا نہیں۔ وراثت میں اس کے شرعی حق سے انکار نہیں کر سکتے۔

معاشرے میں رشتوں اور شادی سے متعلق ان گنت مسائل پیدا ہو چکے ہیں۔ والدین بیٹی کے پیدا ہوتے ہی اس کے لئے جہیز جمع کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ کچھ والدین بیٹی کی تعلیم و تربیت پر پیسہ خرچ نہیں کرتے۔ کہ وہ پیسہ ان کے لئے جہیز بنانے کے کام آئے گا۔ حالانکہ جہیز کی شرعی حیثیت کوئی نہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ رسم معاشرے کو بری طرح جکڑے ہوئے ہے۔

جہیز کی اہمیت و ضرورت

جہیز کی اہمیت صرف اتنی ہے کہ ایک لڑکی شادی کے بعد سسرال میں جا کر کسی چیز کی تنگی کا شکار نہ ہو۔ جو والدین اس قابل ہیں کہ وہ اپنی بچی کو ساز و سامان طور تحفہ دیں۔ انہیں حق حاصل ہے کہ اپنی بچی پر خرچ کریں۔ لیکن ایسے سفید پوش والدین جو اپنا گزر بسر بھی مشکل سے کرتے ہیں۔ ان سے انہی کے طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کا جہیز اور بیش قیمت ساز و سامان کی فرمائش یا خواہش کرنا سراسر غلط ہے۔

جہیز کی شرعی حیثیت کے متعلق مالکی فقہاء کا کہنا ہے کہ جہیز کے سامان کی تیاری عورت کے ذمہ ہے۔ تاہم یہ وضاحت بھی فرما دی گئی ہے کہ لڑکی یہ سازو سامان حق مہر کی پیشگی رقم سے بنائے گی۔ نہ کہ اپنے ذاتی مال یا والدین کے مال سے۔ اگر خاوند کی طرف سے پیشگی کوئی رقم ادا نہ کی جائے۔ تو اس پر سامان جہیز لازم نہیں ہے۔

جو والدین بخوشی اپنی بیٹی کو جہیز کے نام پر تحائف دینا چاہیں، وہ دیں۔ لیکن اسے رسم کے طور پر شادی کے فرائض سے منہا کر دینا چاہئیے۔ اس کے لئے انفرادی سطح پر تبدیلی شروع ہو۔ اجتماعی سطح پر برادری کے بڑے بزرگ اپنی اپنی برادری میں اس سے متعلق آگہی دیں۔ مناسب اقدامات کریں۔ اور حکومتی سطح پر بھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے قوانین بنائے جائے۔ جہیز کی شرعی حیثیت کیا ہے۔ اس سے عوام کو آگاہ کیا جائے۔

جہیز دینا یا لینا بذات خود برا نہیں ہے۔ لیکن جہیز کی آڑ میں نت نئے مطالبے کرنا درست عمل نہیں۔ اس کے علاوہ یہ نمود و نمائش کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ سفید پوش طبقے میں

احساس کمتری پیدا ہوتا ہے۔ والدین جہیز اکٹھا کرنے کے لئے جائز نا جائز، حلال اور حرام کمائی کی تمیز بھول جاتے ہیں۔

جہیز دینا شرع میں ممنوع نہیں ہے۔ لیکن آج کل کے حالات کو دیکھا جائے تو یہ بہت سی معاشی اور سماجی خرابیوں اور برائیوں کا موجب ضرور بنتا ہے۔ سو ضرورت اس امر کی ہے۔ کہ جہیز کی ممانعت اور وراثت میں بیٹی کے حق پر بات کی جائے۔ تا کہ جہیز کی وجہ سے کوئی بچی اپنے والدین کی دہلیز پر بوڑھی نہ ہو۔