انسانی نسل مختلف مذاہب، مسالک، قبائل، ذاتوں، برادریوں اور خاندانوں میں تقسیم ہے۔ ہرخطے کے رنگ ونسل اور رسوم ورواج بھی مختلف ہیں۔ لیکن ان سب میں جو ایک قدر مشترک ہے۔ وہ ہے نوع انسانی کا احترام۔ اور یہ احترام اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے۔ جب بات اپنے خاندان یا رشتے داروں کی ہو۔ انسان کو خوب صورت اور حسین رشتوں سے نوازا گیا ہے۔ان رشتوں کا احساس ہی محبت سے سرشار کردینے والا ہے۔ ان کے درمیان محبت اور خلوص کا تعلق قائم رکھنے کے لیے رشتہ داروں کے حقوق و فرائض متعین فرمائے گئے ہیں۔ 

رشتے داروں سے مراد وہ عزیز ہیں۔ جن کا انسان سے نسبی تعلق ہے۔ بے شک انہیں ترکے میں حصہ ملے یا نہ ملے۔ اسی طرح سسرالی رشتے ہوتے ہیں ۔ جن سے شادی کے بعد تعلق قائم ہوتا ہے۔ ان سسرالی رشتہ داروں کے حقوق اور فرائض کا خیال رکھنا بھی احسن عمل ہے۔ کیونکہ یہ رشتے ہی ہیں۔ جن کے ذریعہ انسان کو زندگی کے تمام معاملات میں خاندانی حصار، قوت اورتعاون حاصل ہوتا ہے۔ 

جس طرح انسان اپنے نسبی اور خونی رشتوں کا احساس کرتا ہے۔ اسی طرح سسرالی رشتے داروں کا بھی خیال رکھنا چاہئِے۔ ایک مرد کے لئے لازم ہے کہ بیوی کے اہل خانہ، بہنوں اور برادران نسبتی کے ساتھ اکرام اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرے۔  

سسرالی رشتہ داروں کے حقوق و فرائض 

 سسرالی رشتہ داروں میں صرف بیوی کے والدین اور بہن بھائی ہی شامل نہیں۔ بلکہ بیوی کے ننھیالی اور ددھیالی رشتہ داروں کے ساتھ بھی تعلق قائم رکھے۔ سسرالی رشتہ داروں کے حقوق پورے کرنے کی بات ہو تو جن والدین نے اپنی لخت جگر کو داماد کے سپرد کرتے ہوئے اس کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا۔ ان کی حسبِ استطاعت خدمت، عزت و تعظیم اوران کے ساتھ حسنِ سلوک کا برتاؤ کرے۔ اگرچہ وہ حیثیت میں کم ہی کیوں نہ ہوں۔  ان کی موجودگی یا غیر موجودگی میں ان کی تذلیل یا تحقیر نہ کرے۔ نہ ان سے بے مروتی اوربداخلاقی کا معاملہ کرے۔ 

کیونکہ سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک درحقیقت بیوی کے ساتھ حسن ِسلوک ہے۔ اس سے بیوی کے دل میں شوہرکی قدر اور محبت پیدا ہوگی۔ جوازدواجی زندگی کو پرسکون اورخوشگوار بنائے گی۔ جبکہ ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے سے بیوی کے دل میں شوہر کے لئے کدورت ونفرت پیدا ہو گی۔ 

ایک عورت کا اپنے والدین اوربہن بھائیوں کے ساتھ جو جذباتی تعلق ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے وہ ہر اس شخص کو ناپسند کرے گی جو اس کے والدین کی عزت نہ کرے اور انہیں کمتر سمجھے۔  لہذا سسرالی رشتہ داروں کے حقوق پورے کرنا یا ان کے ساتھ احسن سلوک روا رکھنا  صرف ایک عورت کا ہی فریضہ نہیں۔ رکھنا بلکہ مرد کے لئے بھی ضروری ہے۔ 

شوہر کے ساتھ رشتہ قائم ہونے کی وجہ سے عورت کے ساس سسر اس کے لئے والدین کا درجہ ہی رکھتے ہیں۔ اور بہو کا درجہ بیٹی کے برابر ہوتا ہے۔ عورت کو چاہیے کہ حسب ہمت وطاقت اپنے ساس سسر کی خدمت کرے۔ یہ درحقیقت شوہر کی خدمت کا ہی حصہ ہے۔ اور اخلاق کا تقاضا بھی ہے۔  

شرعی لحاظ سے دیکھا جائے توعورت پر ساس سسر کی خدمت واجب نہیں۔ اگر کوئی عورت سسرالی رشتہ داروں کی خدمت کے لیے راضی نہ ہو تو شوہر اسے اس کے لئے مجبور نہیں کرسکتا۔ اوراگر وہ اپنی رضا و خوشی سے ان کی خدمت کرے تو یہ ایک احسن عمل ہے۔  

عام طور پر بہو کے آنے کے بعد گھر کی تمام ذمہ داریاں اسے سونپ دی جاتی ہیں۔ اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ساس سسرکے علاوہ نند، دیور، جیٹھ اور دیگر سسرالی رشتہ دار کی خدمت کی ذمہ داری بھی قبول کرے گی۔ 

پاکستانی اور ہندوستانی معاشروں میں زیادہ تر بہوئیں ہی گھر بھر کی ذمہ داری اٹھاتی ہیں۔ اس حقیقت سے قطع نظر کہ والدین کی خدمت اس کی اولاد پر فرض ہے۔ بہو اس سے مستثنی ہے۔ اگر وہ اپنے سسرالی رشتہ داروں کے حقوق پورے کرتی ہے۔ ان کی خدمت کرتی ہے تو یہ اس کے اعلیٰ اخلاق اور اوصاف ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا احسان بھی ہے۔ 

ساس سسر کو بھی چاہیے کہ بہو کو بیٹی کا مقام دیں۔ اس کی معمولی غلطیوں اور کوتاہیوں کو نظر اندازکریں۔ اگر کسی بات پر تنبیہ کرنا ہو تو محبت وشفقت کے ساتھ تنبیہ کریں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف عورت کے دل میں اپنے سسرال والوں کی محبت پیدا ہو گی۔ بلکہ گھر کا ماحول بھی عمدہ ہوگا۔  اور خانگی جھگڑوں سے بھی گھرمحفوظ رہے گا۔ 

سسرالی رشتوں کا تقدس 

ایک عورت کے لئے لازم ہے کہ اپنے دیور اور جیٹھ سے تکلف قائم رکھے۔ وہ جب کبھی کمرے میں آنا چاہیں تو ایک محرم کی وہاں موجودگی ضروری ہے۔ تا کہ خلوت پیدا نہ ہو۔ شوہر اور بیوی کے خصوصی معاملات میں دخل اندازی کا حق کسی کو حاصل نہیں۔  

سسرالی رشتے دراصل دو خاندانوں کو ایک جزو بناتے ہیں۔ لیکن ان کی کچھ حدود مقرر ہیں۔ اور ان کے تقدس کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے۔ جیسے ساس اور داماد کا رشتہ ایک پاکیزہ رشتہ ہے۔ اس رشتے کے تقدس کی بناء پر ان کا نکاح حرام ہے۔ اسی طرح دو بہنیں ایک شخص کے نکاح میں ایک ساتھ نہیں آ سکتیں۔ ہاں ایک کی وفات کے بعد دوسری سے نکاح جائز ہے۔  

کہتے ہیں دنیا کا سب سے خو بصورت راستہ وہ ہے جو آپ کے گھر کو جاتا ہے۔ انسان کسی بھی حالت میں ہو اپنے گھر جانے میں خوشی محسوس کرتا ہے۔ لیکن یہ تب ہی ہو تا ہے جب گھر کے سبھی باسی اپنے رویوں میں پیار اور محبت کی چا شنی شامل رکھیں۔ 

ایک لڑکی جب شادی ہو کر سسرال آتی ہے تو اسے کچھ حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ اسی طرح کچھ فرائض اس پرعائد ہوتے ہیں۔ اس کے حقوق کو نظر انداز کر کے اس سے صرف فرائض کی انجام دہی کا مطالبہ کرنا انصاف نہیں۔ لڑکی کو حق ہے کہ اسے شادی کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ آزادانہ خلوت کے مواقع میسر ہوں۔ اسے گھر میں اتنی آزادی حاصل ہو کہ وہ اپنے شوہر کے لیے زیب وزینت اختیار کرسکے۔  

سسرالی رشتے داروں میں جو اس کے لیے نامحرم ہوں۔ ان سے  پردے کا اہتمام کرسکے۔ اس کے جہیز کے سامان پر اس کا مالکانہ تصرف ہو۔ اور اپنی مملوکہ چیزوں کی حفاظت اس کے بس میں ہو۔ سسرال والے ان سب باتوں کا خیال رکھیں۔ اس کے لئے آسانیاں پیدا کریں۔ اس کے جہیز کے سامان کی حفاظت کریں۔ 

ہمارے معاشرے کے بیشتر گھروں میں سب سے بڑی خرابی یہی  ہے کہ بیوی کو شوہر کے ساتھ آزادانہ خلوت اور بننے سنورنے کے مواقع حاصل نہیں ہوتے۔ اور بہو سسرالی رشتہ داروں کے حقوق پورے کرتے، ساس سسر یہاں تک کے نندوں اور دیوروں کی بھی خادمہ بن کر رہ جاتی ہے۔  اوراس سب میں پردہ کے تقاضے بھی مجروح ہوتے ہیں۔ 

ایک عورت پر گھریلو ذمہ داریاں مرد کی نسبت زیادہ ہوتی ہیں۔ شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری کے علاوہ خاوند سے جڑے رشتوں میں اعتدال و توازن بھی برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ اولاد کی پیدائش، اسے پروان چڑھانا، بچوں کی تعلیم و تربیت ان سب کی بنیادی ذمہ داری بیوی کی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اسے خاوند کے والدین، بہن بھائیوں اور دیگر سسرالی رشتہ داروں کو نہ صرف عزت دینا ہوتی ہے۔ بلکہ زیادہ تر ان رشتوں کے بننے اور بگڑنے کی ذمہ داری بھی بیوی پر ہوتی ہے۔ 

عقلمند عورت نہ صرف ان تمام رشتوں کو شرعی حدود میں رہتے ہوئے احسن طریقے سے نبھا کر سرخرو ہو سکتی ہے۔ بلکہ رشتوں کا لحاظ و پاس رکھ کر سب کے دل میں اپنی جگہ بھی بنا سکتی ہے۔ سسرال والوں کو بھی چاہئیے کہ بہو یا داماد کی خوبیوں کو بھلا کر صرف خامیوں کا تذکرہ نہ کرتے رہیں۔ بلکہ ہر معاملے میں اچھائی اور مثبت نقاط تلاش کریں۔  

ایک گھر میں رہتے ہوئے دیورانی اور جیٹھانی کے ساتھ اختلافات یا نند اور بھابی کی چپقلش خاندان کے بکھرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس لئے ضروری کے ہے تمام رشتوں کی حدود مقرر کی جائیں۔ ایک گھر میں سن کو یکساں مواقع حاصل ہوں۔ کسی ایک پرکام کا غیر ضروری بوجھ نہ ڈالا جائے۔  

نندیں شادی شدہ ہوں یا کنواری، اسی شہر میں رہتی ہوں یا دوسرے شہر اور ملک میں۔ انہیں چاہئیے کہ میکے کے معاملات میں دخل اندازی نہ کریں۔ بلکہ بھابی کے ساتھ دوستی کریں۔ اس کی ہمدرد اور غمگسار بن کر رہیں۔  

آپ ایک مرد ہیں یا عورت۔ اگر آپ زوجین کے حقوق و فرائض پورے کرنے کے ساتھ ساتھ سسرالی رشتہ داروں کے حقوق کا خیال بھی رکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ حسن سلوک اور صلہ رحمی کا معاملہ رکھتے ہیں۔ تو نہ صرف گھر بلکہ خاندان اور معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن سکتا ہے۔