انسان کی زندگی کے اہم مراحل میں سے ایک مرحلہ شادی بیاہ کا ہے۔ والدین خوب چھان پھٹک کر اپنے بچوں کے لئے رشتوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ بعض اوقات اولاد کو اس فیصلے میں شامل کیا جاتا ہے۔ ان کی رائے اور مرضی معلوم کی جاتی ہے۔ لیکن کچھ گھرانوں میں والدین کے فیصلے کو ہی حرف آخر سمجھا جاتا ہے۔ اور ایسے گھرانوں میں دولہا اور دلہن کی ملاقات شادی والے دن ہی انجام پاتی ہے۔
دیکھا جائے تو فیصلے اور انتخاب کا حق لڑکی اور لڑکے کو ملنا چاہئیے۔ جنہوں نے ساری عمر ساتھ نبھانا ہے۔ لیکن پاکستانی معاشرے میں آج بھی ارینج میرج کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ارینج میرج میں کوئی برائی نہیں ہے۔ والدین اپنی اولاد کی عادات و اطوار، پسند نا پسند سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ پھر زمانے کی اونچ نیچ کو بھی سمجھتے ہیں۔ اور اسی تناظر میں بہترین رشتے کا انتخاب کرتے ہیں۔ لیکن بدلتے وقت کے ساتھ اور ماڈرن ازم کا شکار طبقہ ارینج میرج کو غلظ سمجھنے لگا ہے۔ اور اس سے منسوب تمام رسومات اور رواج کو بھی تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ اس میں جہاں شادی میں لڑکی اور لڑکی کی رضامندی کا سوال اٹھایا جاتا ہے۔ وہیں شادی سے پہلے متوقع دولہا اور دلہن کی ملاقات کو بھی زیر بحث لایا جاتا ہے۔
دیکھا جائے تو ہر تحریک کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ اور مقصد ضرور ہوتا ہے۔ اس لئے اگر کوئی مخصوص طبقہ سوالات اٹھاتا ہے تو بجائے انہیں خاموش کروانے یا ان پر تنقید کرنے کے، ان کے اٹھائے گئے سوالات کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔
شادی سے پہلے لڑکی اور لڑکے کی ملاقات کی اہمیت:
شادی دو خاندانوں کا ملاپ تو ہے ہی۔ لیکن یہ ان دو انسانوں کا ملاپ اور ان کی زندگی کا نہایت اہم مرحلہ ہے۔ جو رشتہ ازدواج میں بندھنے جا رہے ہوتے ہیں۔ اگرچہ لڑکی یا لڑکا شادی کا فیصلہ ، رشتے کی تلاش اور شریک حیات کے انتخاب کا معاملہ اپنے والدین اور بزرگوں پر چھوڑ دے۔ پھر بھی والدین کا فرض ہے کہ ان کی رائے اور مرضی معلوم کی جائے۔ متوقع جیون ساتھی کی تعلیم، پیشہ، عادات، رسوم و رواج سے آگاہ کیا جائے۔ اگر وہ کسی رشتے کو لے کر مطمئن نہیں ہیں ان کی رائے کو اہمیت دیتے ہوئے وہاں رشتہ نہ کیا جائے۔
شادی سے پہلے لڑکی اور لڑکے کی ملاقات میں کوئی قباحت نہیں۔ مشرقی معاشروں میں چونکہ زیادہ تر شادیاں خاندان میں ہوتی تھیں۔ اس لئے شادی سے پہلے متوقع دولہا اور دلہن کی ملاقات کو ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا۔ لیکن جب رشتے خاندان اور برادری سے باہر ہونے لگے تو اس چیز کو اہمیت دی جانے لگی۔ بلتے وقت اور تقاضوں نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا۔ تعلیم کا معیار بڑھا تو لڑکے اور لڑکیوں کی خود اعتمادی میں بھی اضافہ ہوا۔ وہ شادی سے پہلے متوقع دولہا اور دلہن کی ملاقات کا تقاضا کرنے لگے۔ اور اپنے اس تقاضے میں وہ حق بجانب بھی تھے۔ یہ بات خلاف شرع بھی نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
إِذَا أَلْقَى اللَّهُ فِي قَلْبِ امْرِئٍ خِطْبَةَ امْرَأَةٍ، فَلَا بَأْسَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَيْهَا
(ابن ماجہ:1864)
جب اللہ تعالیٰ کسی شخص کے دل میں کسی عورت کو پیغامِ نکاح دینے کا ارادہ ڈال دے تو کوئی حرج نہیں ہے کہ اسے دیکھ لے۔
شادی سے پہلے ملاقات کی ضرورت:
ملاقات کا مقصد تو ایک دوسرے کو ظاہری طور پر دیکھنا۔ بات چیت کا انداز، اور گفتگو کے آداب ملاحظہ کرنا ہے۔ کوئی غلط مقصد یا نیت تو کارفرما نہیں ہوتی۔ اور جس چیز سے مذہب میں منع نہیں کیا گیا۔ اس سے روکنے کا حق تو کسی کو بھی حاصل نہیں۔ سو شادی سے پہلے اگر متوقع دولہا اور دلہن کی ملاقات کروا دی جائے تو اچھا ہے۔ اس کے فوائد یہ ہیں کہ
آپ اپنے متوقع شریک حیات کی ظاہری شخصیت دیکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ شادی کے لئے ہر شخص کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔ کوئی تعلیم یا پیشے کو اہمیت دیتا ہے۔ تو کوئی ظاہری خد وخال یا جسمانی ساخت کو۔
شادی سے پہلے لڑکی اور لڑکے کی ملاقات کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ان کے اندر نکاح کی رغبت پیدا ہو۔ اور وہ ایک دوسرے کی طرف کشش محسوس کریں۔
حضرت مغیرہ بن شعبہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے تذکرہ کیا کہ میں فلاں لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے دریافت فرمایا۔ "کیا تم نے اسے دیکھ لیا ہے؟" میرے انکار پر آپؐ نے فرمایا۔
انظُرْ إليها، فإنه أحرى أن يُؤدَمَ بينكما
(ترمذی: 1887 نسائی : 3235 ابن ماجہ: 1866)
اسے دیکھ لو۔ اس سے امید ہے کہ نکاح کے بعد تمھارے تعلقات زیادہ خوش گوار رہیں گے۔
بہتر ہے کہ لڑکی اور لڑکے کی ملاقات منگنی یا رشتہ طے ہونے سے پہلے کروائی جائے۔ کیونکہ منگنی یا نسبت طے ہو جانا شادی کے وعدے یا ارادے کا درجہ رکھتا ہے۔ شادی سے پہلے لڑکی اور لڑکا اگرچہ غیر محرم ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی ملاقات کا مقصد ایک دوسرے کو ایک نظر دیکھنا اور ظاہری طور پر پرکھنا ہے۔ کیونکہ عادات کا اندازہ تو ایک ملاقات میں نہیں لگایا جا سکتا۔ لیکن ظاہری اطوار کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
لڑکی اور لڑکے کی ملاقات کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ تنہائی میں گھر والوں کے علم میں لائے بغیر کہیں ملیں۔ سیر و تفریح کریں۔ لیکن نکاح سے قبل متوقع دولہا اور دلہن کی ملاقات یا ایک دوسرے کو دیکھ لینے میں کوئی قباحت نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک ہے۔
"نکاح سے پہلے لڑکی کو دیکھ لیا کرو۔ اس لئے کہ یہ دیکھنا تمہارے درمیان محبت اور پائیداری کا ذریعہ ہے”
معاشرتی اقدار کے تبدیل ہونے سے ہمیں بہت سی مروج رسوم و رواج کو تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ اور پھر جس کام کی دین کے ممانعت نہیں۔ اسے اختیار کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔ بشرطیکہ حدود و قیود کا خیال رکھا جائے۔
رشتہ ویب سائٹس جیسا کہ سمپل رشتہ بھی اس ضمن میں اپنا کردارادا کر رہی ہیں۔ امیدوار یا اس کی فیملی پروفائل بناتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرے امیدوار کو ان کی مرضی سے دیکھنے اور پھر دونوں گھرانوں کی ملاقات کا اہتمام ہوتا ہے۔ پروفائل کی بدولت تمام اہم معلومات پہلے ہی حاصل کی جا چکی ہوتی ہیں۔ یوں ملاقات میں دیگر امور پر تبادلہ خیال ہوتا ہے۔ اگر آپ نے ابھی تک رجسٹریشن نہیں کی تو لنک حاضر ہے۔ رجسٹریشن کیجئے اور اپنی ترجیحات پر مبنی جیون ساتھی کا انتخاب کیجئے۔