شادی محبت، رضامندی، خوشی اور بغیر کسی دباؤ کے طے کیا گیا ایک معاشرتی، قانونی اور مذہبی بندھن ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے دوسرے لوازمات ہیں۔ جواس بندھن کوکامیاب بناتے ہیں۔ لیکن معاشرے نے اپنی فرسودہ روایات کی بدولت اس ذمہ داری کو ایک بوجھ بنا دیا ہے۔ شادی سے متعلقہ دیگر بہت سی مشکلات میں سے ایک کم عمر کی شادیاں بھی ہے۔ اس کی بڑی وجہ دیہی معاشرے کی قانون اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والی مشکلات سے لاعلمی ہے۔

اس کے علاوہ اپنی روايات سے وابستگی، خاندانی رشتوں کو مضبوط کرنے کی خواہش بھی اس کی وجہ بنتی ہے۔ جلد یا کم عمر کی شادیاں غربت یا سماج اور خاندان کا دباؤ کی وجہ سے بھی ہوتی ہیں۔ مالی طور پر کمزور اور معاشی مسائل کے شکار والدین بچیوں کی جلد از جلد شادی کرنا چاہتے ہیں۔ تا کہ خود کو ان کی ذمہ داریوں کے بوجھ سے آزاد کر سکیں۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بچوں کی کم عمر کی شادیاں ان کے لئے آزادی کی بجائے مصائب لاتی ہیں۔ اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سے وہ چھٹکارہ نہیں پا سکتے۔ بلکہ زیادہ مشکلات میں گھر جاتے ہیں۔

والدین بچوں کی کم عمر میں شادیاں کر تو دیتے ہیں۔ لیکن ان کو اور ان کی آنے والی نسلوں کو طبی، معاشرتی اور معاشی مسائل کا شکار کر دیتے ہیں۔ کم عمر بچوں کی شادی ایک معاشرتی المیہ اور انسانی بنیادی حقوق کی واضح خلاف ورزی ہے۔ جس کے خلاف بہت سی تنظیمیں بشمول میرج بیوروز آواز اٹھا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں عوام کو شعور دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

آج کل کے جدید آن لائن رشتہ پلیٹ فارم کوئی ایسا رشتہ کروانے کی حامی نہیں بھرتے۔ جو کسی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو۔ اگر پیسے کے لالچ میں کسی نے کبھی کوئی ایسا کام کیا بھی ہے۔ تو وہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکا۔ اس لئے کوئی بھی میرج بیورو ایسا کوئی بھی قدم نہیں اٹھاتا جس سے اس کی ساکھ متاثر ہو۔

کم عمر کی شادیاں: فائدہ مند یا نقصان دہ

کم عمر کی شادیاں فوائد سے زیادہ نقصان کی حامل ہیں۔ ان کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ ان والدین میں مہارت کی کمی ہوتی ہے۔ بچے کی پیدائش اور پرورش میں انہیں بہت دشواری پیش آتی ہے۔ وہ بچوں کی  دیکھ بھال کے صحیح طریقوں سےواقف نہیں ہوتے۔
کم عمر کی شادیاں بچوں کو احساس محرومی کا شکار کرتی ہے۔ وہ اپنے ارد گرد دوسرے بچوں کو تعلیم حاصل کرتے،کھیلتے کودتے اور زندگی سے لطف اٹھاتے دیکھتے ہیں۔ تو انہیں اس محرومی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔
اگر ایسے بچے شادی کے بعد کام کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم جاری رکھتے بھی ہیں۔ تو ان پر دوہرا بوجھ پڑ جاتا ہے۔ وہ تعلیم اور روزگارکے مسائل میں گھر کراپنی ازدواجی خوشیوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ بیوی سے ان کی قربت اور مفاہمت پیدا ہونا مشکل ہوتا ہے۔ اور مناسب وقت ایک دوسرے کے ساتھ نہ گزار سکنے کی صورت میں انہیں ایک دوسرے کو سمجھنے میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں۔

کم عمر کی شادیاں مالی مشکلات کا باعث بھی بنتی ہیں۔ لڑکے کو اپنے کنبے کی کفالت کے لئے فوری طور پر کسی ملازمت، کام یا رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اعلی تعلیم یافتہ نہ ہونے کی صورت میں انہیں اچھی ملازمت ملنا بھی مشکل ہوتا ہے۔
مختصرا یہ کہ کم عمری میں بچوں کی شادی کرنا ایک غیر دانشمندانہ اقدام ہے۔ یہ ذمہ داری والدین کی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے بچے شادی کے درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے مناسب تعلیم یافتہ اور بالغ ہوں۔ لوگوں کو شعور دینے کے لئے سکول کالج، مسجد کی سطح پر مہم چلائی جائے۔ ریڈیو، ٹی وی اور سوشل میڈیا کو اس سلسلے میں آگاہی کے لئے استعمال کیا جائے۔ بہت سی تنظیمیں اور ویب سائٹس بھی اس سلسلے میں احسن اقدامات اٹھا رہی ہیں۔

سمپل رشتہ اس سلسلے میں ایک واضح پالیسی رکھتا ہے۔ جووالدین کو ان کے بچوں کے لئے نہ صرف آن لائن شادی کی سہولیات فراہم کر رہا ہے۔ بلکہ ان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے کم عمر کی شادی کے نقصانات سے بھی آگاہ کرتا ہے۔ اور کوشش کرتا ہے ہے کہ جسمانی حتی کہ ذہنی طور پر نابالغ بچوں کی شادی کروانے والے والدین کو اس سلسلے میں مکمل رہنمائی فراہم کرے۔ انہیں شعور دے۔ اور اپنی رشتہ فہرست میں کوئی ایسا رشتہ شامل نہ کرے۔ جو کسی بھی لحاظ سے ان کے اور گورنمنٹ کے طے شدہ معیار سے کم ہو۔ کم عمر کی شادیاں فائدے نہیں نقصان کا باعث ہیں ۔ لوگوں کو اس کی آگاہی دینے کے لئے ایسے اقدامات کرنا ہر ادارے کا بنیادی فرض ہے۔ جس میں سمپل رشتہ اپنےطور پیش پیش ہے۔