شادی مرد اور خواتین کو جہاں ذہنی طور پر تروتازہ اور صحت مند رکھتی ہے۔ وہیں جسمانی طور پر بھی مضبوط رکھتی ہے۔ یہ نہ صرف ذہنی امراض جیسا کہ ڈپریشن اور نیند کی کمی، بلکہ دیگر جسمانی بیماریوں جیسے امراض قلب، کولیسٹرول، بلڈ پریشر اور جنسی مسائل سے بچاؤ کا ذریعہ بھی ہے۔ لیکن کیا آپ نے غور کیا ہے کہ آج کل شادی شدہ افراد زیادہ بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ جہاں ان کا رہن سہن اور کھانے میں بے ترتیبی اور بے احتیاطی ہے۔ وہیں شادی سے پہلے اپنی جسمانی صحت سے برتی گئی لاپرواہی بھی ہے۔ اگر ایک صحت مند اور خوشگوار ازدواجی زندگی گزارنی ہے تو شادی سے پہلے طبی معائنہ کروانا لازمی ہے۔

شادی سے پہلے طبی معائنہ : ضرورت و اہمیت

شادی سے پہلے طبی معائنہ ایک حساس مسئلہ ہے۔ پاکستان میں اس پر توجہ بہت کم دی جاتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں میں شعور تو آ رہا ہے۔ لیکن اب بھی بہت سے گھرانوں میں اگر شادی سے پہلے لڑکے یا لڑکی کا طبی معائنہ کروانے کی بات کی جائے تو گھر والے تیار نہیں ہوتے۔ بلکہ اس بات پر ناراض تک ہو جاتے ہیں کہ آپ ہمارے بچوں کو بیمار سمجھتے ہیں۔

شادی کے بعد تو جو مسائل پیدا ہوتے ہیں ان پر ہم بحث بعد میں کریں گے۔ لیکن اکثر نوجوان کو شادی سے پہلے ہی اندرونی بیماریوں اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس پر نہ وہ خود توجہ دیتے ہیں۔ اور نہ ان کے والدین۔ شادی سے پہلے بہت سی بچیاں اپنے مسائل جیسے لیکوریا، ایّام کی کمی یا زیادتی، کمریا کولہے میں درد یا کھچاؤ اور اندرونی ورم کے بارے میں بات کرتے ہوئے شرماتی ہیں۔ اور یہ مسائل کھل کر اپنی والدہ یا بہن تک کو بھی نہیں بتا سکتیں۔ ڈاکٹر کو چیک کروانا تو دور کی بات ہے۔

اگر کوئی بچی کسی مسئلے کا ذکر کرتی ہے۔ تو اکثر مائیں گھریلو ٹوٹکوں سے اس کا علاج کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اور بچی کو خاموش کروا دیتی ہیں کہ اس کا تذکرہ کسی سے نہ کرے۔ کبھی خاندان کی دوسری خواتین بچی کو بیمار نہ سمجھ لیں۔ اور مستقبل میں اس کا رشتہ تلاش کرنے میں مشکل ہو۔

حالانکہ اس حالت میں بچی غصہ، چڑچڑا پن اور بے ترتیبی کا شکار ہو سکتی ہے۔ اور شادی کے بعد بھی ان مسائل کی وجہ سے تکلیف اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے گھر میں لڑائی جھگڑے یا بعض اوقات طلاق تک کی نوبت آ جاتی ہے۔

اسی طرح بعض نوجوان بری صحبت کا شکار ہو کر اپنی اندرونی طاقت کھو بیٹھتے ہیں۔ اور عارضی لطف کے لئے اپنی زندگی کی حقیقی خوشیوں سے خود کو محروم کر لیتے ہیں۔ اور جس کا خمیازہ شادی کے بعد ان کی بیوی کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ بے اولادی ان میں سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جس کا سبب عام طور پر عورت کو قرار دیا جاتا ہے۔ حالانکہ بے اولادی کا مسئلہ مرد کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے۔

اِس سلسلے میں ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی بیٹی یا بیٹے کا خیال رکھیں۔ بچے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھیں تو انہیں تمام ضروری معلومات کے علاوہ ذہنی اور جسمانی صفائی کے مسائل سے آگاہ کریں۔

طبی معائنے میں کون سے ٹیسٹ شامل ہیں؟

شادی سے پہلے طبی معائنہ نہایت ضروری ہے۔ جن میں موروثی یا جینیاتی بیماریوں کا پتا لگنا نہایت ضروری ہے۔ اس میں ایچ آئی وی، وائرس سی اور بی کے علاوہ ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، موٹاپا، خون میں ہیموگلوبن کی سطح، خون کی قسم اور مطابقت کا تجزیہ جیسی غیر متعدی بیماریوں کے ٹیسٹ کے علاوہ تھیلیسیمیا یعنی خون کی کمی کا ٹیسٹ بھی شامل ہے۔

موروثی امراض:

موروثی بیماریاں وہ ہیں جو خاندان میں نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ اگر خاندان میں کوئی ذہنی یا جسمانی معذور افراد ہیں۔ تو ضروری ہے کہ شادی سے پہلے لڑکی یا لڑکے کا طبی معائنہ کروایا جائے۔ خاص کر اگر شادی خاندان میں ہی ہو رہی ہے۔ کیونکہ موروثی امراض عموماً ان جوڑوں میں ہوتے ہیں جو خاندان میں شادیاں کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں ذیابیطس، بلڈ پریشر جیسے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

یہ بیماریاں زندگی بھر ساتھ رہتی ہیں۔ ان میں سے بعض بیماریوں کا علاج ممکن ہے۔ لیکن کچھ بیماریاں ایسی ہیں۔ جن سے نہ صرف شادی کرنے والوں بلکہ ان کے پیدا ہونے والے بچوں میں بھی یہ امراض پھیل سکتے ہیں۔

جینیاتی امراض:

وہ بیماریاں جو انسانوں میں جینیاتی طور پر پائی جاتی ہیں۔ ان میں تھیلیسیمیا نمایاں ہے۔ پاکستان میں اس بیماری سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تھیلیسیمیا بنیادی طور پر خون کی کمی سے تعلق رکھنے والی ایک بیماری ہے۔ جس سے زیادہ تر بچے متاثر ہوتے ہیں۔

اس بیماری کا شکار بچے جس تکلیف سے گزرتے ہیں وہ اپنی جگہ افسوسناک ہے۔ لیکن ایسے والدین کے کرب کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اس میں بظاہر انسان صحت مند دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اس میں تھیلیسیمیا مائنر کے جراثیم موجود ہوتے ہیں۔ اگر یہ جراثیم شوہر اور بیوی دونوں میں موجود ہوں تو پیدا ہونے والا بچہ تھیلیسیمیا میجر کا شکار ہو سکتا ہے۔

اس مرض پر کافی تحقیق ہو چکی ہے۔ لیکن اب تک کوئی موثر علاج دریافت نہیں ہو سکا۔ اس بیماری کا شکار فرد شدید تکلیف سے گزرنے کے بعد بالآخر جان کی بازی ہار جاتا ہے۔ اس مرض کی تکلیف کو کم کرنے کی ادویات موجود ہیں۔ جو بذریعہ ڈرپ بچے کو لگائی جاتی ہیں۔ جو ایک پیچیدہ اور تکلیف دہ عمل ہے۔ لیکن فی الحال کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا۔ اس لئے شادی سے پہلے طبی معائنہ ضرور کروانہ چاہئیے۔ تا کہ مستقبل میں ایسی تکالیف اور پریشانیوں سے بچا جا سکے۔

بانجھ پن یا تولیدی امراض:

اولاد اللہ کی طرف سے ایک نایاب تحفہ ہے۔ اس اولاد کا صحت مند ہونا اس سے بھی بڑی نعمت ہے۔ ایک شادی شدہ جوڑے کی زندگی اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک اولاد جیسی نعمت حاصل نہ ہو جائے۔

مرد و خواتین کی افزائش نسل کی صلاحیت کا ان کی غذائی عادات سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ نیند کی کمی، بے سکونی اور ڈپریشن بھی بے اولادی کا سبب بن سکتا ہے۔ بانجھ پن کی وجوہات مرد و خواتین میں مختلف ہوتی ہیں۔

دنیا کے مختلف ممالک میں شادی سے پہلے بانجھ پن کا معائنہ مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ اس ٹیسٹ میں یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ جوڑے میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کتنی ہے۔ چین میں شادی سے پہلے بانجھ پن کا ٹیسٹ ضروری قرار دیا جا چکا ہے۔

 

مصر کی وزارت صحت و آبادی نے بھی شادی کے خواہش مند افراد کے لئے طبی معائنہ کرانے کے اقدام پرعمل درآمد شروع کر دیا ہے۔ تا کہ غیر صحت مند بچے پیدا ہونے کے خطرات کو کم کیا جا سکے۔ اور اس کا مقصد جینیاتی بیماریوں کے حامل بچوں کی پیدائش کو روکنا ہے۔ مصری شہریوں کے لئے باقاعدہ ایک ہیلتھ ڈیٹا بیس بنایا جا رہا ہے۔ جہاں تمام افراد کے ہیلتھ سرٹیفیکیٹس محفوظ ہوں گے۔

تولیدی اور متعدی بیماریوں کا پتہ لگانے کے لیے جو ٹیسٹ کئے جاتے ہیں وہ انہیں نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہونے سے بچاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ شادی کے بعد صحت مند اور پرسکون زندگی گزارنے کے لئے ایک احتیاطی تنبیہ ہے۔

سعودی عرب میں بھی شہریوں کے لئے شادی سے پہلے طبی معائنہ لازم قرار دے دیا گیا ہے۔ جس میں سکل سیل انیمیا اور ایچ آئی وی جیسی بیماریوں کے ٹیسٹ شامل ہیں۔ ان ٹیسٹ کے لازم قرار دینے کے بعد ہزاروں رشتے ختم ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔ سعودی حکومت نے جسے ایک کامیابی قرار دیا۔ کیونکہ ان شادیوں کی صورت میں اگر انے والی نسل بیماریوں کا شکار ہوتی تو یہ ان والدین کے لئے تکلیف کا باعث ہوتا۔ اس لئے طبی معائنہ اور بروقت فیصلہ آنے والی نسل کو بیماریوں کا شکار ہونے سے بچا لیتا ہے۔

عرب نیوز کے مطابق طبی معائنے میں تقریباً ایک گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔ اس میں ذاتی ڈیٹا کے اندراج کے علاوہ جسمانی صحت سے متعلق مفید مشورے بھی شامل ہیں۔

پاکستان میں اس حوالے سے اگاہی کی بہت ضرورت ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں تھیلیسیمیا کیرئیرز کی تعداد تقریبا نوے لاکھ ہے۔ جن میں چالیس ہزار بطے تھیلیسیمیا میجر کا شکار ہیں۔ اور ہر ماہ خون کی تبدیلی جیسے مشکل عمل سے گزرتے ہیں۔

شادی سے پہلے طبی معائنہ کروانے کا مقصد شادی کرنے والے افراد کو ان کی صحت کے بارے میں آگاہ کرنا ہے۔ اور بالفرض اگر وہ ان میں سے کسی بیماری کا شکار ہیں۔ تو اس کی شدت اور اگلے لائحہ عمل اور علاج کے بارے میں انہیں معلومات فراہم کی جائیں۔ ذرائع کے مطابق

پاکستان میں بہت سے ایسے خاندان ہیں۔ جنہوں نے بچوں کی شادیاں دھوم دھام سے کیں لیکن وہ بچے اور ان کی آنے والی نسل بعد میں بہت مشکلات کا شکار ہوئی۔ کوئی جینیاتی مسائل کا شکار ہو گیا۔ تو کسی کی اولاد تھیلیسیمیا اور دیگر امراض میں مبتلا ہو گئی۔ اس لئے اب شادی سے پہلے طبی معائنہ ضروری قرار دیا جا رہا ہے۔

عوام کو شعور اور آگہی کی نہایت ضرورت ہے۔ تعلیم اور سوشل میڈیا عام ہونے کے باوجود آج بھی اگر کسی فیملی سے درخواست کی جائے کے وہ شادی سے پہلے لڑکی اور لڑکے کا طبی معائنہ کروا لیں۔ تو اس بات کا برا منایا جاتا ہے۔ اسے اپنی عزت اور بے عزتی کا معاملہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ بعد میں خواہ کتنی ہی تکلیفوں سے کیوں نہ گزرنا پڑے۔ لیکن شادی سے پہلے ٹیسٹ کروانے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ حالات اور واقعات سے سبق سیکھتے ہوئے شادی سے پہلے طبی معائنہ کروا لیا جائے۔ تا کہ ہم اپنی انے والی نسلوں کو ایک صحت مند زندگی دے سکیں۔