شادی محض چار دن کی تقریب کا نام نہیں بلکہ زندگی بھر کی ذمہ داری ہے۔ ازدواجی زندگی کو خوشحال اور پرسکون بنانے میں شوہر اور بیوی دونوں کا کردار اہم ہے۔ میاں بیوی کے حقوق و فرائض کے حوالے سے ہماری تعلیمات واضح ہیں۔ شادی کے بعد مرد اور عورت دونوں اپنی ذمہ داریاں اور حقوق و فرائض پورے کریں۔ تبھی خاندان کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے۔ اور معاشرے میں امن وسکون کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔

شادی ایک ایسا تعلق ہے جو زوجین کو ذہنی اور جسمانی سکون بخشتا ہے۔ ان کے درمیان محبت، مودت اور شفقت کا باعث بنتا ہے۔ اور یہی محبت اور شفقت ایک گھر کی تعمیر و ترقی اور نسل کو پروان چڑھانے میں  اہم ستون ثابت ہوتی ہے۔

تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یونانی معاشرت میں خواتین تمام حقوق سے محروم تھیں۔ بازاروں اور شہروں میں ان کی کھلے عام خرید و فروخت ہوتی تھی۔ انہیں کسی چیز یہاں تک کے اپنے ذاتی معاملات میں بھی کسی قسم کا کوئی اختیار حاصل نہ تھا۔  وہ ہر لحاظ سے مردوں کی دست نگرتھیں۔

روم میں بھی خواتین کی حالت کم و بیش یونان جیسی ہی تھی۔ پیدائش سے وفات تک اس کی حیثیت ایک قیدی سے زیادہ نہ تھی۔ اس کے ساتھ محبت یا مروت کا سلوک نہیں کیا جاتا تھا۔  مرد خاندان کا سردار ہوتا تھا۔ اور اپنے خاندان پر مکمل اختیار رکھتا تھا۔ بیوی کے حقوق پورے کرنا تو دو کی بات اسے تو اپنی بیوی کو قتل کرنے تک کا اختیار بھی حاصل تھا۔

ایران ایک قدیم تہذیبی مرکز ہونے کے ساتھ انسان دشمن سرگرمیوں کا گڑھ بھی رہا ہے۔ وہاں اخلاقی بنیادیں نہایت کمزور تھیں۔ وہ رشتے جن سے ازدواجی تعلق متمدن اور مہذب معاشروں میں  ناجائز اور غیر قانونی سمجھا جاتا تھا۔ ایرانیوں کے ہاں عام تھے۔ مشہور حاکم یزدگرد دوم  نے اپنی بیٹی کو زوجیت میں رکھا، پھر قتل کردیا۔ چھٹی صدی عیسوی کا حکمران بہرام، اس نے اپنی بہن سے اپنا ازدواجی تعلق قائم کر رکھا تھا۔

ہندو مذہب دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں سے ایک ہے۔ جہاں عورت کو ہمیشہ کمزور اور بے وفا سمجھا گیا۔ شوہر کے وفات پاتے ہی اسے بھی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ انہیں وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا۔ اسے دوسری شادی کی اجازت نہیں تھی۔

یہودیت کی بات کریں تو اس مذہب کی روایات بھی عورت کے بارے میں اچھا تصور پیش نہیں کرتیں۔ یہاں بھی بیوی کے حقوق کسی طور مرد کے مساوی نہیں۔  مہر کے علاوہ عورت کسی چیز کی حقدار نہیں۔ وراثت میں بھی اس کا نمبر پوتوں کے بعد آتا ہے۔

مسیحی قوانین میں بھی عورت کی حیثیت ہمیشہ پست رہی۔ اسے طلاق و خلع کی اجازت نہیں تھی۔ وراژت میں اس کا حصہ بہت محدود تھا۔ دوسری شادی کو زناکاری سے تشبیہ دی جاتی تھی۔

اسلام نے اپنی عمدہ اور اعلیٰ تعلیمات میں ہر طرح کے حقوق میں عورتوں کو شریک کیا ۔اسے کسی جائز حق سے محروم نہیں رکھا۔ شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا۔ میاں بیوی کے حقوق و فرائض متعین کئے۔

بیوی کے حقوق و فرائض:

آج کل کے جدید معاشرے میں ہمیشہ بیوی کے حقوق اور اس کی مرد سے برابری کی بحث چھڑی رہتی ہے۔ حالانکہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گھر کا سربراہ مرد ہی ہے۔ ایک اچھی بیوی وہ ہے جو اس حقیقت کو تسلیم کرے۔ کیونکہ شوہر بیوی کی پردہ پوشی کرکے، اسے تحفّظ فراہم کرکے معاشرے کے گرم و سرد سے محفوظ رکھتا ہے۔

بیوی کا فرض ہے کہ شوہر کی عزت کرے، اس کا خیال رکھے۔ اس کی غیر موجودگی میں اس کے گھر، مال اور عزت کی حفاظت کرے۔ شوہر کی اجازت کے بغیر نہ کسی کو گھر میں داخل ہونے دے، نہ خود کہیں جائے۔

مرد بیوی کو گھر کے کام کرنے مجبور نہیں کر سکتا۔ نہ شوہر کے والدین کی خدمت بیوی کا فرض ہے۔ اگرچہ مستحب یہی ہے کہ بیوی گھر سنبھالے، بچوں کی تربیت کرے۔ شوہر کے والدین کا خیال رکھے۔  لیکن اس معاملے میں اس پر کوئی زور زبردستی نہیں۔

جہاں بیوی کے حقوق پورے کرنا شوہر کا فرض ہے۔ اسی طرح شوہر کا حق یہ ہے کہ اس کی بیوی اس کی کی بہترین دوست، رازدار، غم گسار، رفیق اور ہمدرد ہو۔ زندگی کے نشیب و فراز میں اس کے شانہ بشانہ کھڑی ہو۔ اور اس کے دکھ سکھ کی ساتھی ہو۔

بیوی کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی بہترین پرورش اور نگہداشت کرے۔ شوہر کی حیثیت اور آمدنی کو مدنظر رکھتے ہوئے گھر کے تمام معاملات کو حسنِ انتظام کے ساتھ چلائے۔ خاوند کی خوشی اور دل جوئی کے لیے بناؤ سنگھار کرے۔

کسی بھی گھر کا نظام چلانے کے لیے ایک سربراہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاکہ گھر کے تمام افراد اس کی اطاعت کریں۔ اور خاندانی نظام بہتر طریقے سے چل سکے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ مرد عورتوں پر قوام ہیں۔

بیوی کا فرض ہے کہ گھر کے ماحول کو پرامن اور خوش گوار رکھے۔ جب شوہر گھر آئے، تو اسے اطمینان، سکون اور راحت میسّر آئے۔ بیوی کے لئےلازم ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے رب اور شوہر کا شکر ادا کرتی رہے۔ صبر و قناعت اور پیار محبت سے اپنے گھر کو امن و سکون کا گہوارہ بنائے۔

شوہر کے حقوق و فرائض:

نان، نفقہ، سکنہ اور زوجیت کا حصول بیوی کا حق اور شوہر کے ذمہ فرض ہے۔ اس کے علاوہ مالی حالات کے مطابق کھانے، پینے، ضروریات زندگی اور رہائش کی اچھی سہولیات فراہم کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے۔ شوہر اگر یہ قدرت نہیں رکھتا تو اپنی بیوی کا مقروض ہے۔ اگرچہ بیوی کے پاس اپنا مال ہو۔ پھر بھی شوہر کے پر نان ونفقہ واجب ہے۔

شوہر کو اپنی بیوی سے حسنِ معاشرت یعنی اچھے طریقے کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان کے لئے لازم ہے کہ وہ بیویوں کا حق پورا ادا کریں۔ ان کا حق مہر، نان نفقہ شوہر کی ذمہ داری ہے۔ ایک سے زیادہ بیویاں ہونے کی صورت میں ان کے درمیان انصاف کرنا۔ بدگوئی اور بری عادات جن سے بیوی کو تکلیف پہنچتی ہو، انہیں ترک کرنا۔ کسی شرعی عذر کے بغیر اس سے سختی سے پیش نہ آئے۔ بیوی کے لئے جسمانی صفائی اور زیب و زینت کا خیال رکھے۔

بیوی سے بے اعتنائی برتنا یا اس کی عزت میں کمی ہرگز درست عمل نہیں۔ اور اسے ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ بیوی کے لباس یا ظاہری حالت پر ناک بھوئیں چڑھانا یا اس کے ساتھ ترش روئی سے پیش آنا۔ جبکہ وہ قصور وار بھی نہ ہو۔  ایک اچھا شوہر وہی ہے جو اپنی بیوی بچوں کے ساتھ اچھا ہو۔ بیوی کے خاندان کے ساتھ عزت سے پیش آئے۔ بیوی کو ان سے ملنے سے نہ روکے۔ اور جب بیوی وفات پا جائے تو اس کے لیے دعا کرے۔

مرد کا یہ حق ہے کہ نکاح اور رخصتی کے بعد بیوی اپنے آپ کوخاوند کے سپرد کردے۔  اوراسے استمتاع ونفع اٹھانے دے۔

شوہر کو حکم دیا گیا ہے کہ جو خود کھائے، وہی بیوی کو کھلائے۔ جیسا لباس خود پہنے، ویسا بیوی کو پہنائے۔ بیوی کو مارنے یا سخت اور برے الفاظ کہنے کی اسلام میں سخت ممانعت ہے۔ شوہر کو حسن سلوک اور فیاضی سے برتاؤ کرنے کی واضح ہدایت دی گئی ہیں۔

ایک مرد کو اپنے اہل و عیال کے حق میں سراپا محبت وشفقت ہونا چاہیے۔ اسے چاہئیے کہ ہر جائز امور میں بیوی اور بچوں کی حوصلہ افزائی اور دل جوئی کرے۔ اپنے اہل و عیال کے لئے صبروتحمل سے کام لینے والا اور محبت وشفقت رکھنے والا ہو۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ شوہر کا دائرہ عمل صرف دنیاوی خواہشات یا مادی ضروریات پوری کرنے تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ وہ اپنے اہل و عیال کی روحانی، اخلاقی، سماجی تعلیم و تربیت کا بھی ذمہ دار ہے۔

میاں بیوی کی باہمی ذمہ داریاں:

میاں بیوی کے حقوق پر نظر ڈالی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ یہ رشتہ قاعدے اور ضابطے کے ساتھ ساتھ رابطے کا متقاضی بھی ہے۔  ضابطے کی رو سے جہاں بیوی کے حقوق و فرائض ہیں۔ جبکہ کچھ ذمہ داریوں سے وہ بری الذمہ ہے۔ اسی طرح شوہر بھی اپنے حقوق و فرائض کے ساتھ چند ایک معاملات میں بری الذمہ ہوجاتا ہے۔

نہ تو یہ درست عمل ہے کہ بیوی پر تمام ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال دیا جائے۔ اور شوہر تمام معاملات سے کنارہ کش ہو جائے۔ اور نہ ہی بیوی کو ایسا کرنا چاہئیے کہ وہ اپنے فرائض سے پہلوتہی کرنے کے ساتھ ساتھ شوہر یا اس کے والدین کی خدمت سے دامن کش ہوجائے۔

مرد کا فرض ہے کہ وہ بیوی کو اللہ کی عطا کی ہوئی نعمت سمجھے۔  اس  کی قدر اور عزت کرے۔ اس سے محبت  سے پیش آئے۔  کوئی غلطی ہونے کی صورت میں پوشی  سے کام لے۔ اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کرے۔ کیونکہ عورت فطرتاً کمزور اور جذباتی ہوتی ہے۔ لہذا اس کی کمزوری کی رعایت کرے۔

بیوی کا بھی فرض ہے کہ اگر شوہر کے مالی حالات ناگفتہ بہ ہوں۔ تو زبان درازی یا جھگڑا کرنے کی بجائے اس ساتھ تعاون کرے۔ شاہانہ طرز زندگی کی بجائے سادہ زندگی پر اکتفاء کرے۔

شوہر اور بیوی کے حقوق کے بعد چند ایک باہمی ذمہ داریاں دونوں پر عائد ہوتی ہیں۔ جن میں بچوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام، ایک دوسرے کے والدین اور عزیز و اقارب کے ساتھ حسن سلوک شامل ہے۔ شوہر اور بیوی کے لئے لازم ہے کہ تمام اندرونی و بیرونی معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ مشاورت کریں۔ ایک دوسرے کی رائے کو اہمیت دیں۔ اختلاف کی صورت میں نرمی سے بات کریں۔ تنقید یا طنز سے باز رہیں۔

زوجین اگر ایک دوسرے کے حقوق خوش دلی سے پور ے کرنے لگیں۔ تو بہت سی خرابیوں کا خاتمہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارا معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گا۔